بھارت کی نئی سیاسی جماعت عام آدمی پارٹی ،عآپ اورہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی ،بی جے پی کے درمیان گزشتہ چند ماہ سے جاری سرد جنگ اب واقعی بھرپور جنگ میں تبدیل ہوچکی ہے ۔عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجری وال نے اعلان کیا ہے کہ وہ بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کے خلاف اترپردیش کے بنارس شہر کے انتخابی حلقے سے انتخابات لڑیں گے۔جہاں سیکولرازم کی دعویدار حکمران کانگرس کے خیمے میں افسردگی چھائی ہوئی ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ اس کے لیڈر انتخابات سے قبل ہی حوصلہ ہار چکے ہیں۔ اس صورت حال میں عین ممکن ہے کہ شہری علاقوں کے سیکولر ووٹر اورخاص طور پر مسلمان ، عآپ کے سایہ میں پناہ لینے پرمجبور ہو جائیں ۔
حال ہی میں مغربی صوبہ گجرات میں کجری وال کو پولیس حراست میں لینے کے بعد دہلی اور لکھنئو میں جو پُر تشدد واقعات پیش آئے وہ بی جے پی او ر نریندر مودی کی بدحواسی اور سراسیمگی کا واضح اظہار ہیں۔ جب عام آدمی پارٹی کے کنوینر اور دہلی کے سابق وزیر اعلیٰ اروند کجری وال انتخابی مہم کے سلسلے میں چار روزہ دورے پر گجرات پہنچے تو مودی کے اشارے پر پولیس اور ان کے حامیوں نے ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کو شش کی۔عآپ کے قافلہ پر حملے کیے ۔اس سے مودی کی بوکھلاہٹ کا صاف پتہ چلتا ہے ۔ کیونکہ کجری وال نے اپنی آمد سے قبل یہ اعلان کردیا تھا کہ وہ مودی کے گجرات ماڈل کا پول کھولیں گے ۔ بھارت میںاس وقت میڈیا کا ایک بڑا حصہ مودی کا بڑا مرید بنا ہوا ہے ۔ میڈیا کے زور دار پر وپیگنڈا میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھارت میں مودی کے سوا کوئی لیڈر نہیں جو ملک کی ڈوبتی نیّا کو پار لگا سکتا ہو۔
تاہم کجری وال نے اپنے دورہ میں مودی کے اس دعویٰ کی قلعی بڑے موثر انداز میں کھولنا شروع کردی ہے ۔ منڈرا تعلقہ میں کاشتکاروں سے ملاقات کے بعد کجری وال نے بڑے صنعتی گھرانوں کی صوبائی حکومت سے ساز باز کا پول کھو ل دیا۔ جس کے ذریعے انہوں نے غریب کسانوں کی زمینیں اونے پونے داموں ہتھیالی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گجرات کی ساری زمین برائے فروخت ہے۔ انہوں نے کہا کہ صنعتکاروں نے اتنا زیادہ پیسہ کمایا ہے کہ وہ کسی دن سو ئٹز ر لینڈ فرار ہو جائیں گے ۔ ''میڈیا سے سانٹھ گانٹھ کر کے مودی نے ترقی کا ڈھنڈورا پیٹا ہے لیکن مجھے یہاں کسی نے یہ نہیں کہا کہ وہ مطمئن اور خوشحال ہے ؟ لوگ اپنی پریشانیوں کا ذکر کررہے ہیں ۔‘‘ کجری وال نے ابڈسا میں سکھ کسانوں سے بھی ملاقات کی ،ان کا دکھ درد سنا ۔ سکھ کسانوں نے کہا کہ مودی حکومت ان کی زمینیں واپس دینا
نہیں چاہتی ۔ ان کی زمینوں کو حکومت نے 2001ء میں تحو یل میں لے لیا ۔ان کے نمائندہ پرتھوی سنگھ نے بتایا کہ ریاستی حکومت کسان مخالف پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ اس نے مزید کہاکہ موجودہ سیاسی حالات میں انہیں کجری وال پر بھروسہ ہے کہ وہ ان کے لئے کچھ کریں گے۔ بھج میں کجری وال نے ایک ہسپتال کا معائنہ کرنے کی بھی کوشش کی ، لیکن مودی کے حامی ہجوم نے ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کردیں۔ اس سے قبل پولیس نے رادھن پور میں کجری وال کو حراست میں لے لیا تھا اور کچھ میں بی جے پی کے حامیوں نے ان کے قافلہ پر حملہ کرکے کاروں کے شیشے توڑ دیئے۔
کجری وال نے کہا کہ گجرات حکومت اور میڈیا دعوی کرتے ہیں کہ ریاست میں 'رام راجیہ‘ ہے تعلیم اور صحت کا نظام ترقی یافتہ ہے ، تمام مسائل حل ہوچکے ہیں ، کرپشن اور بدعنوانی کا نام و نشان مٹا دیا گیا ہے ... اس لئے ہم گجرات کی ترقی دیکھنے کے لئے آئے ہیں ۔ شمالی گجرات کے کئی دیہات کا دورہ کرنے کے بعد انہوں نے کہا کہ انہیں یہاں ترقی کا معمولی عنصر بھی نظر نہیں آیا۔ '' میں ایک گائوں کے پرائمری ہیلتھ سنٹر میں گیا جو 2003 ء میں تعمیر کیا گیا تھا ،اس میں کوڑا بھرا ہواتھا۔ گائوں والوں نے بتایا کہ اب تک یہاں کسی کا علاج نہیں ہوا ۔ یہی حال دیگر دیہات کے ابتدائی طبی مراکز کا ہے ۔ کرپشن بے انتہا ہے ۔ کئی لوگوں نے بتایا کہ تلاٹھی بننے کے لئے دس دس لاکھ رشوت دینی پڑتی ہے ۔ یہاں تک کہ ایف آئی آر درج کرانے کے لئے بھی رشوت دینا پڑتی ہے ۔
گجرات پولیس نے کجری وال کو حراست میں لیا، کیونکہ وہ وزیر اعلیٰ کی سرکاری رہائش گاہ کی طرف مارچ کررہے تھے۔ اس کا ردعمل دہلی اور لکھنو میں پر تشدد احتجاج کی شکل میں دیکھنے میں آیا ۔ دہلی میں بی جے پی کا دفتر عام آدمی پارٹی کے حامیوں اور بی جے پی حامیوں کے درمیان میدان جنگ میں تبدیل ہوگیا۔ دونوں طرف سے خوب سنگ باری ہوئی۔ 28 افرادزخمی ہوئے ۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ عآپ کے کارکنوں نے سنگ باری کی ؛تاہم اس کی تردید کرتے ہوئے عآپ نے کہا کہ وہ پرامن احتجاج کررہے تھے کہ بی جے پی کے دفتر سے ان پر پتھر پھینکے گئے ۔جواب میں ہمارے کارکنوں نے بھی پتھر پھینکے۔ دہلی پولیس نے عآپ کے رہنمائوں آشو توش اور شازیہ علمی سمیت کئی کارکنوں کے خلاف ایف آ ئی آر درج کرکے 33کارکنوں کو گرفتار کرلیا۔لکھنئو میں بھی بی جے پی کے حامیوں نے عآپ کے کارکنوں پر لا ٹھیوں سے حملہ کیا۔ ان حملوں سے بی جے پی کی بدحواسی ظاہر ہوتی ہے کیونکہ عآپ دراصل اس کے حلقہ اثر میں سیندھ لگا سکتی ہے ۔ آر ایس ایس نے ترقی کے نام پر اقتدار پر قبضہ جمانے کے لئے جو جال بُنا ہے ،اسے عآپ کے سوا کوئی اور جماعت بہتر طور پر نہیں کاٹ سکتی ۔اب تک اروند کجری وال کا حکومت کے اندر اور حکومت کے باہر جو مہم جویانہ کردار سامنے آیا ہے اس نے روایتی سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں کو بڑی حد تک پریشانی میں مبتلا کردیا ہے ،جو اب تک عوام کو اپنا زر خرید غلام سمجھتے تھے ۔ بی جے پی کو یو پی حکومت کی 'بد عملیوں‘ اور 'کوتاہیوں‘ کے سبب اقتدار ملنے کا جو خواب نظر آرہا تھا وہ چکنا چور ہوتا دِکھ رہا ہے ۔اسی لیے بی جے پی اب کانگرس سے زیادہ عام آدمی پارٹی کو نشانہ بنارہی ہے ۔ اسے کانگرس کی بی ٹیم قرار دے رہی ہے ،جبکہ یہی بی جے پی اور آر ایس ایس تھی جو بدعنوانی کے خلاف انا ہزارے اور اروندکجری وال کی احتجاجی تحریک کو در پر دہ شہ اور مدد دیتی رہیں ۔ اب فرسودہ اور بد عنوان نظام سے بپھرے نوجوانوں کی یہ جماعت اس کی راہ کا کا نٹا بن گئی ہے۔