تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     18-03-2014

دوکشتیوں کے سوار

افغانستان میں صدارتی انتخابات اگلے ماہ ہونے والے ہیں۔ حال ہی میں کابل میں چھبیس امیدواروں کے کاغذات کی جانچ پڑتال ہوئی اور سولہ امیدواروں کے کاغذات اس وجہ سے مسترد ہوئے کہ وہ دوہری شہریت کے حامل تھے۔ پاکستان میں پچھلے چند سالوں میں متعدد اراکین پارلیمنٹ کی رکنیت اس لیے منسوخ ہوئی کہ وہ دوہری نیشنیلٹی رکھتے تھے۔یادش بخیر سابق سفیر حسین حقانی کی بیگم فرح ناز اصفہانی امریکی شہری بھی تھیں ،نیشنل اسمبلی کی ممبر بھی تھیں اور زرداری صاحب کے قصرِ صدارت کی سرکاری ترجمان بھی۔ آج کل ہماری پارلیمنٹ کے سامنے ایک بل ہے کہ دوہری شہریت والے بیورو کریٹس کو گریڈ انیس سے آگے ترقی نہ دی جائے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ پاکستان کا آئین اس چیز کی اجازت ہی نہیں دیتا کہ دوہری شہریت کا حامل اسمبلی الیکشن لڑسکے تو ظاہر ہے جتنے بھی ممبران اس بنا پر نااہل پائے ،انہوں نے غلط بیانی کی اور حقائق چھپائے اور ساتھ ساتھ الیکشن کمشن ان کی اس مجرمانہ روش کا کھوج نہ لگا سکا۔ افغانستان میں جن سولہ لوگوں کے کاغذات مسترد ہوئے ہیں ان کے بارے میں معلومات حکومتی اداروں نے دی ہیں جن میں افغانی وزارت خارجہ پیش پیش ہے۔
چین اور بھارت دوہری شہریت کی اجازت ہی نہیں دیتے۔ لہٰذا چینی اور بھارتی باشندے جب غیر ملکی شہریت حاصل کرتے ہیں تو ان کی اصلی شہریت خودبخود ختم ہوجاتی ہے۔ وہ بھارتی شہری جو کسی بھی دوسرے ملک کی نیشنیلٹی لے چکے ہیں وہ ووٹ دینے کا حق بھی کھودیتے ہیں ۔بھارتی الیکشن میںلوک سبھا وغیرہ کا ا لیکشن لڑنا تو دور کی بات ہے، ایسے بھارتی کسی سرکاری عہدے پر فائز بھی نہیں ہوسکتے۔ پاکستان میں اس سلسلہ میں ابہام ہے۔ہمارا 1973ء کا سول سرونٹ ایکٹ اس سلسلہ میں خاموش ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کا آڈیٹر جنرل جو کہ سرکاری بیورو کریسی کا اہم ستون تصور ہوتا ہے ،آج کل دوہری شہریت کا حامل ہے۔ 
چین میں آج کل ایک دلچسپ بحث چھڑی ہوئی ہے۔ دنیا کے دیگرممالک کی طرح چین بھی مکمل طور پر کرپشن سے پاک نہیں ہے لیکن وہاں کرپشن کم کرنے کے لیے بہرحال کوششیں جاری ہیں ۔ پچھلے تین عشروں میں چین نے بے پناہ ترقی کی ہے۔ حکمران پارٹی کے کئی عہدیدار ایسے بھی ہیں جن کے بیوی بچے مغربی ممالک جاچکے ہیں۔ ریسرچ کے مطابق ایسے افسروں میں کرپشن کی شرح زیادہ ہے، اس لیے افسروں کے لیے ان حالات میں پیسہ باہر بھیجنا آسان ہے مثلاً بچوں کی تعلیم کے بہانے ۔ایک اور دلچسپ آبزرویشن یہ بھی سامنے آئی ہے کہ ایسے افسر خود کو غریب ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ان کے اثاثے باہر منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے افسروں کی بظاہر خستہ حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیںطنزاً برہنہ افسر یعنی Naked officialکہا جاتا ہے۔ چین میں یہ فیصلہ تو ہوچکا ہے کہ ایسے سرکاری کارندوں کو ترقی نہیں دی جائے گی جن کی فیملیز مستقل طور پر بیرون ملک منتقل ہوچکی ہیں مگرآج کل بحث اس امر پر ہورہی ہے کہ ایسے لوگوں کو سرے سے نوکری ہی نہ دی جائے کیونکہ ان کے کرپٹ ہونے کے امکانات نسبتاً زیادہ ہیں۔
پچھلے دنوں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نے بہت ہی معانی خیز بیان دیا ہے ۔موصوف نے فرمایا '' پیپلزپارٹی کا خیال ہے کہ پارلیمنٹ کے ممبران کو دوہری شہریت کا حق ہونا چاہیے ‘‘ ۔ حکمران مسلم لیگ بھی اس امر کا جائزہ لے رہی ہے کہ ایسا قانون بنانے کے لیے دستورمیں ترمیم ممکن ہے یا نہیں۔ میں نے کئی ماہ پہلے ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ ہمارے حکمرانوں کے غیر ملکی مفادات خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔زرداری صاحب دبئی میں بیٹھ کر ریموٹ کنٹرول سے سندھ کا بندوبست
چلاتے ہیں۔ جنرل مشرف کو موقع ملا تو وہ بھی دبئی یا لندن پہلی فرصت میں جاچکے ہوں گے۔ الطاف بھائی بھی لندن میں مقیم ہیں ۔تمام بڑے لیڈروں کے اثاثے باہر ہیں مگر سیاست پاکستان میں کرتے ہیں۔ یہ سب دو کشتیوں کے سوار ہیں۔ یہ بات ہم بخوبی جانتے ہیں کہ امریکہ کی نیشنلٹی کا حلف لیتے ہوئے بائبل پر ہاتھ رکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو میں امریکہ کے لیے ہتھیار بھی اٹھائوں گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جویہ حلف اٹھاکر پاکستان میں سیاسی عہدے بھی حاصل کریں گے ،ان کی وفاداریاں تقسیم ہوچکی ہوں گی ۔ہمیں ملک کو چلانے کے لیے ایسے دو کشتیوں کے سوار نہیں چاہئیں ۔ ہماری کشتی جب بھی ڈولنے لگی یہ چھلانگ لگاکر دوسری کشتی میں چلے جائیں گے اور میں اور آپ منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔
میرے سابق ہم کار اور معاصر کالم نگار آصف ایزدی نے حال ہی میں ایک خطرناک امر کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پیپلزپارٹی کی ایک بہت اہم شخصیت دوہری شہرت کی حامل ہے ،اس لیے کوشش ہورہی ہے کہ دستوری پابندی کو ہی ختم کردیاجائے۔ بیورو کریٹس کے بارے میں بل بھی غالباً اسی لیے سست روی کا شکارہوا ہے۔ سینیٹ نے تو پاس کردیا مگر اس کے بعد خاموشی ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ سرکاری ملازمین والا بل بھی دکھاوے کے لئے ہے ،اصل مقصد مک مکا ہے کہ سیاست دانوں کے لیے بھی دوہری شہریت شجر ممنوعہ نہ رہے۔ پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور نے جیو اور جینے دو اور باہمی مفادات کی سیاست کو کمال تک پہنچا دیا تھا اور موجودہ حکمران بھی اس نسخہ کیمیا کی افادیت کے قائل لگتے ہیں۔
اس موضوع پر لکھ رہا ہوں تو مجھے رہ رہ کر فضیلۃ الشیخ علامہ طاہر القادری یاد آرہے ہیں۔ باتیں ان کی سو فیصد صحیح تھیں اور کیا شعلہ بیانی تھی ؎
اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک 
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
موصوف نے پچھلے سال جنوری کی مری سے آنے والی یخ بستہ ہوائوں میں اسلام آباد جیسے بابونگر کو گرما دیا تھا۔ ان کے مرید تھے کہ بارش میں بھی ڈٹے رہے لیکن مولانا تھے کہ اپنے اپنائے ہوئے دیس یعنی کینیڈا واپس چلے گئے۔ دو کشتیوں کا یہ سوار اس سے زیادہ کر بھی کیا سکتا تھا۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری قوم بشمول میڈیا اس بات کا صراحت سے مطالبہ کرے کہ ہمارے جج ، جرنیل ، بیورو کریٹ اور سیاسی لیڈر ایک ہی کشتی کے سوار ہونا چاہئیں۔ ان کے پاس صرف سبزرنگ کا پاسپورٹ ہونا چاہیے۔ ان کے اثاثے وطن عزیز میں ہونے چاہئیں۔ انہیں عوام کے درمیان زندہ رہنا چاہیے اور عوام کے درمیان ہی داعی اجل کو لبیک کہنا چاہیے۔ ہمیں دو کشتیوں کے سوار نہیں درکار کیونکہ ؎
وفاداری بشرطِ استواری اصل ایماں ہے 
مرے بت جانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved