تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     18-03-2014

حمیدہ شاہین کی شاعری

ہاتھ میں کاسہ‘ کلائی میں کڑا سجتا ہے
در بڑا ہو تو سوالی بھی کھڑا سجتا ہے
میں ترے کنجِ تغافل سے نکلتی کیسے
میرا ساماں اسی کونے میں پڑا سجتا ہے
دل پہ سامانِ زمانہ کبھی رکھا ہی نہیں
اس گھڑونچی پہ محبت کا گھڑا سجتا ہے
یہ الگ بات وہ دیوار میں خود ہوں لیکن
عشق دیوار گرانے پہ اڑا سجتا ہے
قیمت و قدر بڑھاتے ہیں یہ رشتے ناطے
لعل دستار یا زیور میں جڑا سجتا ہے
طاقِ محرابِ وفا میں ہے ٹھکانہ میرا
جو دیا بجھ نہ سکے‘ اس میں بڑا سجتا ہے
سر کیے جائوں ترا کوہِ رفاقت یونہی
میرا جھنڈ اسی چوٹی پہ گڑا سجتا ہے
یہ صفِ دل زدگاں ہے‘ تجھے احساس رہے
تو یہاں صرف مرے ساتھ کھڑا سجتا ہے
اب تماشے میں وہی موڑ ہے آنے والا
تیرا کردار جہاں پائوں پڑا سجتا ہے
............
جانے کیا موج ہے وہ جس کی روانی تو ہے
تو مری پیاس رہا‘ اب مرا پانی تو ہے
میرے ناخن کسی دیوار کے اندر ٹوٹے
یہ کہانی کا خلاصہ ہے‘ کہانی تو ہے
وحشتِ چشم !تجھے کیسے رہائی دیدوں
کسی روکے گئے آنسو کی نشانی تو ہے
آ کہ دونوں کسی مضمون میں باندھے جائیں
تو نے لکھا تھا، مرا مصرعِ ثانی تو ہے
ایک ہی لفظ میں لے آئوں ازل اور ابد
تو اگر ساتھ نبھائے کہ معانی تو ہے
ایک احساس بچایا ہے بڑھاپے کے لیے
مجھ پہ بیتی ہوئی خوش رنگ جوانی تو ہے
میں نے ہارا جسے ہر بار‘ وہ ہمت میں تھی
ہار سہنے کے لیے بات جو ٹھانی‘ تو ہے
............
مری آنکھوں کی ساری ان کہی پہچان لو گے
تمہیں بیٹی عطا ہو گی تو سب کچھ جان لو گے
سنہری نظم کالی آستیںمیں ٹانک دی ہے
اب اس ٹوٹے بٹن کا اور کیا تاوان لو گے
مجھے معلوم ہے تکیے کے نیچے کیا پڑا ہے
مجھے ڈر ہے کسی دن تم مجھی پر تان لو گے
بس ایک چھیدوں بھری دانش ہے اور یہ خوش گمانی
اسی چھلنی میں تم ساری خدائی چھان لو گے
ستائش کے پھسلواں موڑ میں کچھ حرف زادے
تمہیں اپنا خدا کہہ دیں تو کیا تم مان لو گے
ہماری راہ چل نکلے ہو لیکن یہ نہ سمجھو
کہ اتنی ہی سہولت سے ہمیں تم آن لو گے
............
پرندے کس ٹھکانے لگ گئے ہیں
بکھرنے آشیانے لگ گئے ہیں
غموں کو لگ گئیں کیسی زبانیں
کہ ہر سو چہچہانے لگ گئے ہیں
کسے آنا ہے صاحب! آپ ایسے
ہمیں رکھنے‘اٹھانے لگ گئے ہیں
کہاں سودا ہے یہ پہلی نظر کا
ہمارے تو زمانے لگ گئے ہیں
نئے وعدوں کا لشکر چل پڑا ہے
تعاقب میں پرانے لگ گئے ہیں
............
ترو تازہ بیل کھِلی کھلائی اکھڑ گئی
میں تری زمیں میں جمی جمائی اکھڑ گئی
میں کتاب تھی ترے ہاتھ میں تو نے کیا کیا
کہ پرت پرت میں جڑی جڑائی اکھڑ گئی
یہ جو چار سو کسی ان کہی کا غبار ہے
کوئی بات ہے جو دبی دبائی اکھڑ گئی
فقط اک طناب تھی دشمنوں کی حدود میں
جو معاہدے میں لکھی لکھائی اکھڑ گئی
کوئی ہو گا تیری ہی آستیں کا پلا ہوا
تری بزم کتنی سجی سجائی اکھڑ گئی
کہیں آسمان سروں پہ جھولنے لگ گیا
تو کہیں زمین کسی کسائی اکھڑ گئی
سر خاکداں ہی پروں کو تولتے رہ گئے
جو ہوا ملی تو بنی بنائی اکھڑ گئی
کئی رنگ دل پہ چڑھے چڑھائے اتر گئے
کہ وہ طبع ناز ملی ملائی اکھڑ گئی
............
بلا کی تمکنت ہے اب سیاہی بولتی ہے
ہماری چپ سے شہ پا کر تباہی بولتی ہے
نوائے دیدہ ٔبینا کو دل ترسے ہوئے ہیں
ہمارے منبروں سے کم نگاہی بولتی ہے
یقیں آتا نہیں ہے اپنے لہجے پر کبھی تو
یہ ہم کب ہیں‘ ہماری عذر خواہی بولتی ہے
ہمارے راستوں میں کھل گئیں دشنام گاہیں
کہ گرد راہ بھی واہی تباہی بولتی ہے
ہمارے پائوں کی زنجیر بولے یا نہ بولے
ہماری نسبتوں میں بادشاہی بولتی ہے
ہماری خاک پر الفاظ ہی واجب ہوئے تھے
اسے ہے بولنا‘ خواہی نخواہی بولتی ہے
آج کا مطلع
خالی خولی غبار نکلا
اس خاک سے جو سوار نکلا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved