ملائشیا کا مسافر طیارہ بوئنگ 777 گم ہوا ‘ تو ملائشیا نے ساری دنیا میں شور مچا دیا کہ ان کا ایک بہت بڑا مسافر طیارہ‘ 239مسافروں کے ساتھ لاپتہ ہو گیا ہے۔ اس کا ابھی تک سراغ نہیں ملا۔ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہو گیا۔ کسی کا گم شدہ ڈیڑھ ارب ڈالر‘ ہمارے زرمبادلہ کے کھاتے میں آن گرا ہے۔ اس کا کوئی دعویدار نہیں مل رہا۔ہمارے وزیرخزانہ خود ہی بتاتے پھر رہے ہیں کہ ہمارے کھاتے میں ڈیڑھ ارب ڈالر آ گیا ہے اور یہ کسی دوست ملک نے ‘ وزیراعظم کو تحفے میں دیا ہے۔ جس نے تحفہ دیا‘ اس کا نام وزیرخزانہ نے نہیں بتایا۔ قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ ہر کوئی سراغ لگانے کی کوشش میں ہے کہ اتنی بھاری رقم کا مالک تلاش کر کے‘ پوچھا جائے کہ ''یہ کہاں کی شرافت ہے کہ اتنی بڑی رقم غائب ہو گئی اور تم نے نہ کہیں شور مچایا‘ نہ رپٹ لکھوائی اور نہ کسی کو بتایا کہ اتنی بڑی رقم تم نے کسی دوسرے کے کھاتے میں ڈال کر‘بھلا کیوں دی ہے؟‘‘ ممکن ہے کسی نے قانون سے بچنے کے لئے اپنی بلیک منی ‘ہمارے اکائونٹ میں ڈال دی ہو۔اس طرح کی رقم زیادہ تر چھوٹے چھوٹے جزیروں میں قائم بنکوں میں چھپائی جاتی ہے۔ عموماً ایسی رقوم کی آخری قیام گاہ سوئٹزرلینڈ میں ہوا کرتی ہے۔ پتہ نہیںکون تھا؟ جس نے ڈیڑھ ارب ڈالر کی رقم ہمارے بنک اکائونٹ میںڈال کر سمجھ لیاکہ یہ محفوظ ہو گئی۔ اسی وقت سے سوچ رہا ہوں کہ راتوں رات ہماری ساکھ اتنی اچھی کیسے ہو گئی؟
ہمارے اپنے لوگ تو کالی کمائی باہر کے بنکوں میں رکھتے ہیں۔ ان کے ذاتی پیسے میں سے ایک روپیہ بھی پاکستانی بنکوں میں نہیں ۔ ان کے پاس جو کچھ ہوتا ہے‘ وہ قومی بنکوں سے ہی لئے گئے قرض کا ہوتا ہے۔ سارے اخراجات اسی سے چلائے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کے شاندار محلات‘ گاڑیوں اور بلڈنگوں کی کل قیمت‘ پاکستانی بنکوں سے بطور قرض لے کر‘ بیرونی بنکوں میں رکھی ہوتی ہے تاکہ ایک منٹ کے نوٹس پر ملک سے فرار ہونا پڑے‘ توآرام سے سارا کچھ یہیں چھوڑ کرپرواز کر جائیں۔ اچانک ڈیڑھ ارب ڈالر اپنے کھاتے میں آنے پر‘ ہماری حکومت کی طرح عوام بھی اسی کھوج میں ہیں کہ یہ رقم آ کہاں سے گئی؟ اس پر ہمارے دوست مسعوداشعر کوریاض شاہد کی ایک مشہور فلم کا مکالمہ یاد آ گیا۔ جس میں علائوالدین اپنی بیوی کے جھمکے دیکھ کر کہتا ہے ''کہاں سے لائی ہو یہ جھمکے؟ کس نے دیئے ہیں یہ جھمکے؟ کیسے لائی ہو یہ جھمکے؟ کس طرح پہنے ہیں یہ جھمکے؟‘‘ ہمارے وزیرخزانہ نے راز کو زیادہ دیر تک محفوظ نہیں رکھااور انکشاف کر دیا کہ یہ رقم سعودی عرب نے‘ ہمارے وزیراعظم کو تحفے میں دی ہے۔ انہوں نے کہا ہے '' اسے آپ ریزرو میں رکھ لیں اور اس کی وجہ سے روپے کی قیمت میں جو اضافہ ہو گا‘ اس کے عوض شیخ رشید کا استعفیٰ لے لیں۔‘‘ یہ بھی بتایا گیا کہ ہم اس پیسے کو خرچ نہیں کر سکتے۔ اس پر مجھے فلم ''سات لاکھ‘‘ کا
ڈائیلاگ یاد آ گیا۔ جس میں باپ اپنی وصیت میں ساری دولت‘ بیٹی کے نام کرتے ہوئے اسے بتاتا ہے کہ ''میں نے سب کچھ تمارے نام کر دیا ہے۔ لیکن یہ سب ملے گا اس وقت جب شادی کر لو گی‘‘ اور پھر دولت کی تفصیل بتاتے ہوئے کہتا ہے۔ ''7لاکھ روپے نقد بنک میں تمہارے نام پر جمع ہیں۔تم اس کی مالک بن چکی ہو۔ مگر خرچ نہیں کرپائو گی۔ 7لاکھ کی کوٹھی‘ یہ بھی تمہارے نام کر دی ہے۔ مگر تم اسے بیچ نہیں سکو گی۔7لاکھ روپے کے شیئرز سرٹیفکیٹ لاکر میں پڑے ہیں۔ اس کی چابی تمہارے پاس ہو گی۔ مگر تم انہیں استعمال نہیں کر سکو گی۔‘‘ والد محترم اس طرح ہر چیز کی قیمت 7لاکھ بتاتے ہوئے تکرار سے بتاتے ہیں کہ جب تک تم شادی نہیں کرو گی‘ اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا پائو گی۔ مجھے نہیںپتہ سعودی عرب والوں نے یہ ڈائیلاگ عربی میں بولے ہوں گے یا انگریزی میں؟ نیت ان کی یہی لگتی ہے کہ ڈیڑھ ارب روپیہ ہمارے نام جمع پڑا رہے گا لیکن ہم اسے خرچ نہیں کر سکیں گے۔وہ تو فلمی کہانی تھی۔مگر ملکوں کے تعلقات میں یہ سیچویشن کیسے آ گئی؟ گزشتہ روزوزیراعظم کے مشیرخارجہ جناب سرتاج عزیز نے‘ سینٹ کمیٹی میں اس ڈیڑھ ارب روپے کی کہانی بتائی۔ انہوں نے جدید دنیا کا ڈرامائی قصہ ان الفاظ پر ختم کیا ''ہمیں یہ ڈیڑھ ارب ڈالر مفت ملے ہیں۔ ان کے بدلے میں ہم کچھ نہیں دے رہے۔‘‘سینیٹرز ‘گھڑے کی مچھلی تو ہیں نہیں۔ انہوں نے بھی دنیا دیکھ رکھی ہے۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے۔ بلکہ پھر ایک فلمی مکالمہ کے الفاظ میں''ہانگ کانگ کے نلکوں کا پانی پی رکھا ہے۔‘‘ وہ یہ بات کیسے مانیں کہ امریکہ کا اتحادی ملک‘ ڈیڑھ ارب ڈالر ایڈوانس جمع کرا دے اور کوئی کام کرنے کو نہ کہے؟ امریکیوں کے بارے میں تو مشہور ہے کہ وہاں مفت کا لنچ کسی کو نہیں ملتا۔ جو قوم پندرہ بیس ڈالر کا لنچ مفت میں نہیں کھلاتی‘ اس کے اتحادی نے ڈیڑھ ارب روپیہ مفت میں کیسے دے دیا؟ امریکی تو دفتری یا کاروباری میٹنگیں بھی ایسے اوقات میں رکھتے ہیں‘ جب لنچ یا ڈنر کا ٹائم نہ ہو۔ ہمیشہ آگے پیچھے کے وقت میں ملاقاتیں کریں گے اور کمرے یا ہال کے کونے میں رکھی ایک میز کی طرف اشارہ کر کے بتا دیں گے کہ چائے کا موڈ ہو تو وہاں سے لے لیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ لنچ یا ڈنر کے لئے باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ ڈیوٹی کے اوقات میں تو آئس کریم تک نہیں پوچھی جاتی۔ عربوں کی عادت مختلف ہے۔ وہ کھانے بہت کھلاتے ہیں۔
ہمارا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ امریکی پہلے کبھی ایسا نہیں کرتے۔ کام کراتے ہیں اور پھر بعد میں ۔
موڈاچھا ہو‘ تو قسطوں میں معاوضہ اداکر تے ہیں اور بگڑ جائے‘ توپھر کوئی نہ کوئی حجت کر کے‘ رقم ہضم کر جاتے ہیں۔ ہم سے انہوں نے دہشت گردی کے خلاف لڑنے کی ڈیوٹی اس وعدے پر کرائی کہ جو کچھ تم اپنے پاس سے خرچ کرو گے‘ وہ ہم تمہیں دے دیا کریں گے۔ ہم اپنی جیب سے خرچ کر کے‘ دہشت گردی کا مقابلہ کرتے رہے اور جب انہیں بل دیا‘ تو انہوں نے کانٹ چھانٹ کر کے ہمارے 6بلین کو ایک بلین کر دیا اور پھر کہا کہ کانگریس منظوری دے گی‘ تو آپ کا بقایا آپ کو مل جائے گا۔اب وہ رقم قسطوں میں دے رہے ہیں۔ سعودی عرب یقینا بہت امیر ہو گا لیکن امریکہ سے زیادہ نہیں اور ہمارا تجربہ ہے کہ ڈالر خرچ کرنے میں امریکی بھی اتنی احتیاط نہیں کرتے‘ جتنی کہ ہمارے عرب بھائی کرتے ہیں۔ جو کچھ ڈار صاحب نے بتایا ہے‘ اس کے مطابق تو یہ رقم سٹیٹ بنک میں جمع ہی نہیں ہونا چاہیے۔ ڈار صاحب کے بقول یہ تحفہ نوازشریف کے لئے ہے۔ تو کیا ہمارے وزیراعظم کا اپنے نام سے کوئی بنک اکائونٹ بھی نہیں؟ ایسا ہے بھی‘ تو وہ زرداری صاحب کو ٹیلی فون کر کے کہہ دیتے کہ ''ہزارپونڈ سے میرا اکائونٹ کھلوا دو۔ رقم آ گئی تونفع سمیت دے دوں گا۔ ‘‘ہو سکتا ہے زرداری صاحب وقت آنے پر کہہ دیں کہ ''اسے میرا تحفہ سمجھ کے رکھ لیجئے۔‘‘
جب سے پاکستان کے بنک اکائونٹ میں‘ ڈیڑھ ارب ڈالر کی خطیر رقم پراسرار طریقے سے جمع ہوئی ہے‘ اس پر مالیاتی ماہرین سے لے کر‘ عام شہری تک‘ ہر کوئی سراغ رسان بن کر کھوج لگاتا پھر رہا ہے کہ ''کہاں سے آئے یہ جھمکے؟‘‘ تکلف برطرف ‘ میں بھی خبر سنتے ہی چپکے چپکے کھوج لگانے میں جت گیا اور بڑے بڑے ملکوں کی طرف جانے کی بجائے‘ عرب دنیا کے راولپنڈی سے بھی چھوٹے ملک‘ بحرین میں لائن جا ملائی۔ میرا کبوتر یہ پیغام لایا کہ اصل میں یہ رقم بحرین کے شاہ شیخ حمد بن عیسیٰ الخلیفہ نے جمع کرائی ہے۔ فرمائش البتہ سعودی عرب کی تھی‘ جو بحرین کے دفاعی امور کا ذمہ دار ہے۔ وہاں کی پولیس میں‘ فوج سے ریٹائرہونے والے پاکستانی بڑی تعداد میں برسوں سے ڈیوٹی دے رہے ہیں۔وہاں کئی سالوں سے اندرونی بغاوتوں نے حکومت کے لئے خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ بادشاہ سلامت کو تربیت یافتہ افرادی قوت کے ساتھ ساتھ‘ تربیت دینے والوں کی بھی ضرورت ہے اور بغاوتوں اور ہنگاموں پر قابو پانے کے لئے درکار اسلحہ کی بھی۔رقم وہ ایڈوانس جمع کرا چکے ہیں۔ اب مال خریدنے آ رہے ہیں۔ خود سعودی عرب کو بھی آنے والے دنوں میں داخلی بغاوتوں کا خطرہ ہے۔ وہاں ہم پہلے ہی سعودی حکومت کی مدد کے لئے ''افرادی قوت‘‘ فراہم کرتے رہتے ہیں۔ میرے کبوتر کی چٹھی میں تو یہی لکھا ہے۔ اگر یہ غلط ہے‘ توپھر آپ بتا دیں‘ یہ رقم کس کی ہے؟ ڈار صاحب اور سرتاج صاحب کی باتوں میں دم نہیں۔ نہ اتنی بڑی رقم تحفے میں ملتی ہے اور نہ ہی مفت۔ یہ دونوں حضرات مذاق چھوڑیںاور بتا دیں کہ یہ رقم کس کی ہے؟