پچھلے ہفتے مظفرگڑھ میں ایک فرسٹ ائیر کی طالبہ کا اس کے بھائی کے سامنے زیادتی کرنے کا واقعہ اس معاشرے کے بالادست طبقات کی سفاکیت کا غماز ہے۔متاثرہ بچی کے ساتھ پولیس کا ہتک آمیز رویہ اور مجرموں کی مکمل پشت پناہی پتا دیتی ہے کہ اس ریاست کے اداروں کا حقیقی کردارکیا ہے اور وہ کس طبقے کے مفادات کے لیے بنائے گئے ہیں۔ محنت کش عوام کا تحفظ نہیں بلکہ ان پر جبرو تشدد ہی اس سرمایہ دارانہ ریاست کا اصل کردار ہے۔متاثرہ بچی نے اس غیر انسانی سلوک سے دل برداشتہ ہوکر زندہ رہنے سے انکار کرتے ہوئے خود کو سر عام آگ لگالی ۔ اس کا جلتا ہوا جسم اس ریاست کے ''قانون وانصاف‘‘ کے خلاف احتجاج کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ اس نظام کو مسترد کرنے کی فلک شگاف پکار ہے جس نے آبادی کی بھاری اکثریت کی زندگیوں کو نہ ختم ہونے والی اذیت میں مبتلا کردیا ہے۔ اس نظام کا قانون غریب کی جان سے زیادہ امیر کے مال کا تحفظ کرتا ہے جو انصاف بھی خریدسکتا ہے اور طاقت بھی۔ قانون سرمائے کی لونڈی اور پولیس سرمایہ دار کی جیب میں ہے۔زبردستی زیادتی کرنے والے درندے کتنی آسانی سے اپنے مال کے زور سے بچ نکلے اور ایک مظلوم محنت کش بچی قانون کے رکھوالوں کے سامنے دہائیاں دیتی رہ گئی۔
یہ تو بنت حوا کی حقارت اور ذلت کا محض ایک واقعہ ہے۔ اس چادراورچاردیواری کی مقدس بندشوں میں سسکتی ہوئی خواتین تو ہر روز، ہر گھڑی اپنے عورت ہونے کی سزا پاتی ہیں۔ گھر اور خاندان کے جبر سے نکلنے کی کوشش کرتی ہیں تو باہرگلی اور بازار میں چیرتی ہوئی غلیظ مردانہ نظروں سے گھائل ہوتی
ہیں۔ فیکٹریوں اور کارخانوں میں نہ صرف ان کی اجرت قلیل کردی جاتی ہے بلکہ یہاں بھی انہیں فورمینوں سے لے کر منیجروں اور مالکان تک کی جنسی ہوس کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ یہ مردانہ شاونزم کی سوچ سے زہر آلود سرمایہ دارانہ معاشرہ ہے جہاں جنسی استحصال کے زخموں پر غربت نمک پاشی کرتی ہے۔ گھریلو ملازمائوں کی زندگی اس دوہرے استحصال کی درد ناک علامت ہے جنہیں ایک طرف بالادست طبقات کے مرد ہر وقت شکار بنانے کے درپے رہتے ہیں تو دوسری طرف مالک خواتین حقارت اورغیر انسانی مشقت سے دوچارکرتی ہیں۔پھر اس نظام ِ زر کی لبرل اشرافیہ ہے جس کی نظر میں عورت کی زندگی، نزاکت اور خوبصورتی کا مقصد اجناس کی تشہیر سے زیادہ نہیں ۔ اس بے ہودگی اور عریانی کو ''ماڈرن ازم‘‘ کہا جاتا ہے ۔اس ''ماڈرن ازم‘‘ کے متوازی ملائیت اور قدامت پر ستانہ سوچ ہے جو عورت کو اس طرح قید کر دینا چاہتی ہے جیسے کوئی چور اپنا لوٹا ہوا مال چھپاتاہے۔ عورت کو نجی ملکیت قرار دے کر قدامت پرستی کے برقعوں اور پردوں میں چھپا دیا جاتا ہے۔ قدامت پرستوں کا عورت کے لیے نام نہاد ''عزت و احترام‘‘ دراصل اسے مسلسل مرد کی جنسی غلامی میں رکھنے کی واردات ہے۔
پچھلی ایک دو دہائیوں کے دوران خواتین میں برقع پہننے اورچہرہ ڈھانپنے کا رجحان بڑ ھ گیا ہے ۔ اس کی دو بنیادی وجوہ ہیں، ایک تو بہت سارے مرد حضرات 'اپنی‘ خواتین کو معاشرے میں بڑھتے ہوئے بحران اور بدکرداری کی وجہ سے برقع پہننے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہی 'باغیرت‘ حضرات 'دوسری‘ خواتین کو کھلے لباسوں میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ دوسری وجہ معاشرے کا معاشی ، سماجی اور ثقافتی بحران ہے جو عدمِ تحفظ کے احساس کو مسلسل بڑھاتا جارہا ہے۔ لیکن قدامت پرستوں کے بیہودہ دلائل کے برعکس 'پردے‘ کا یہ رجحان خواتین کو مضبوط کرنے کے بجائے ذہنی، نفسیاتی اور سماجی طور پر کمزور کر رہا ہے۔ یہ 'شرافت‘ کی دلیل نہیں بلکہ ان کی بے بسی اور لاچارگی کی علامت ہے۔ قدامت پرستی کے بڑھ جانے اور 'پردے‘ کے فروغ سے خواتین کی عزتیں محفوظ ہونے کے بجائے پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہوگئی ہیں۔گینگ ریپ آج جس شدت سے ہورہے ہیں اتنے تو پاکستان کی تاریخ میںکبھی نہیں ہوئے تھے۔ عورت کو دبانے اور چھپانے سے اس کی زندگی خوشحال ہوتی ہے نہ ہی وہ جنسی جبر سے بچ سکتی ہے۔
دیہی علاقوں میں دہقان خواتین 'پردہ‘ نہیں کر سکتیں۔سخت موسم میں گندم کی کٹائی، کپاس کی چنائی اور فصل کی بوائی جیسی اذیت ناک مشقت برقع پہن کر نہیں کی جاسکتی ۔ شب و روز مسلسل جسمانی مشقت کرنے والی یہ خواتین 'اخلاقیات‘ کے ٹھیکے داروں کے فرسودہ معیاروں پر پورا اتر ہی نہیں سکتیں۔ یہی کیفیت فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے والی محنت کش خواتین کی ہے ، لیکن یہاں درمیانے طبقے کے تمام رجعتی معیاروںکو محنت کش طبقات پر بھی ٹھونس دیا گیا ہے۔
بنیاد پرستی اورقدامت پرستی جتنی حاوی ہوگی انسانوں کی نجی زندگیوں میں مداخلت کرنے والے فتوے بھی اسی تناسب سے آئیں گے۔ عام انسانوں اور خواتین کی زندگیاں بھی اتنی ہی تلخ ہوتی جائیں گی۔ کردار کی پاکیزگی لباس کی محتاج نہیں ہوتی۔ہر سماج کا حکمران طبقہ اور قدامت پرست طبقات اس معاشرے کی محرومی اور محکومی کے حوالے سے 'شرافت‘ کے معیارمرتب کرتے ہیں۔ چونکہ پاکستان کا سماج معاشی اور معاشرتی طور پر جمود کا شکار ہے اس لیے معاشرے کی مختلف پرتیں اور خطے تاریخ کے مختلف مراحل اور ادوار میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ معاشرے پر قدامت پرستی کی چھاپ اسی جمود کی وجہ سے ہے۔ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح پورا معاشرہ بدبودار ہورہا ہے۔اس سماجی ڈھانچے کی معاشی اور اقتصادی بنیادیں جس نظام پر قائم ہیں وہ تاریخی متروکیت کی وجہ سے اس سماج کو ترقی دینے کے بجائے ہر لحاظ سے تنزلی سے دوچار کررہا ہے۔ معاشی و سماجی زوال اخلاقی اورثقافتی بحران کو جنم دے رہا ہے۔ معاشرے کی اخلاقیات اور اقدارکی منافقت بڑھتی جارہی ہے اور انسان کے کردار سمیت ہر سماجی قدرکی تعریف بھی دوہرے معیاروں پر مبنی ہے۔ اسی منافقت میں آج ہر انسان خودکو شریف اور نیک سیرت ثابت کرنے کے لیے منافقت ، جھوٹ اور دکھاوے پر انحصار کررہا ہے ۔ اس معصوم بچی کی عصمت و عفت سے کھیلنے والے درندے یقیناًاپنی مائوں بہنوں کو پردے اور چاردیواری میںرہنے پر مجبور کرتے ہوںگے!
جنسی جرائم عورت کے ذہن اورر نفسیات پر کبھی نہ بھرنے والے زخم لگاتے ہیں۔انسان کے لبادوں میں چھپے درندوں کی جنسی ہوس کا نشانہ بننے والی خواتین ساری زندگی نیم ذہنی مفلوجیت کا شکار ہوکر رہ جاتی ہیں۔خواتین کے احترام کا منافقانہ ناٹک کرنے والے خود اس استحصالی نظام کے حواری ہیں۔اس ملک میں ہونے والے جنسی استحصال کے ہر واقعے کی ذمہ داری ریاستی اداروں کے ساتھ ساتھ ایسے قوانین پر بھی عائد ہوتی ہے جو مجرم کو آسانی سے بچ نکلنے میں مدد دیتے ہیں۔ ان قوانین کی آڑ لینے والوں کی جانب سے جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کو'خاموشی‘ اختیارکرنے کی نصیحت آن ریکارڈ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صوبائی حکمرانوں نے مال روڈ لاہور پر اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنے والی نرسوں پر لاٹھی چارج کے احکامات ذاتی طور پر جاری کئے تھے۔ یہی ان حکمرانوں کا حقیقی کردار ہے۔
یہ مردانہ جبر، خواتین کا جنسی استحصال اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم نجی ملکیت اور تسلط پر مبنی بیمار ذہنیت کی پیداوار ہیں۔یہ سوچ سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی تقاضا اور پیداوار ہے اور اسی سوچ نے پورے معاشرے کو نفسیاتی طور پر بھی بیمارکردیا ہے۔'لبرل ازم‘یا قدامت پرستی کے ذریعے انسانوں کی اکثریت کو عذاب میں مبتلا کر دینے والے اس نظام کا دفاع ایک جرم ہے!