ڈالر کی قیمت میں کمی ہماری
نیک نیتی کا ثمر ہے... نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''ڈالر کی قیمت میں کمی ہماری نیک نیتی کا ثمر ہے‘‘ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ گزشتہ کئی روز تک ہماری نیت نیک رہی ہے البتہ اگر ڈالر دوبارہ محوِپرواز ہو رہا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ورائٹی کی خاطر ہماری نیک نیتی میں تبدیلی آ گئی ہے کیونکہ تبدیلی لانے کا ٹھیکہ اکیلے عمران خان نے نہیں لے رکھا؛ تاہم اس سلسلے میں ایک قریبی ملک نے جو دستِ تعاون ہمیشہ کی طرح دراز کیا ہے تو ڈالر کی قیمت کم ہونے کے علاوہ ہمیں کچھ مزید فائدہ بھی ہوا ہے جس کے بارے میں سرٹیفکیٹ حاصل کر لیا گیا ہے ۔اب یہ ان کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ اس سرٹیفکیٹ کی پاسداری کریں کیونکہ ہم اپنی غیر جانبدار خارجہ پالیسی کو تبدیل نہیں کر سکتے اور اگر اس سلسلے میں کوئی اونچ نیچ ہو بھی جاتی ہے تو اس کی وجہ یہی رہے گی کہ ہمارا کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں ہے‘ اگرچہ اس کا قلمدان میرے ہی پاس ہے لیکن دہشت گردوں ہی نے اتنا پریشان کر رکھا ہے کہ قلم کہیں ہے اور دوات کہیں لُڑھکتی پھر رہی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک پراجیکٹ پر بریفنگ لے رہے تھے۔
گلے سڑے نظام سے عوام کو نجات
دلانا چاہتے ہیں... شہباز شریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''گلے سڑے نظام سے عوام کو نجات دلانا چاہتے ہیں‘‘ کیونکہ حالت یہ ہو چکی ہے کہ پنکچر لگائے بغیر حکومت کی بائیسکل چل ہی نہیں سکتی اور پنکچر لگانے والے صاحب الگ سے ہمیں تڑیاں لگا رہے ہیں اور ہمارے سارے کاموں میں کیڑے نکال رہے ہیں‘ نیز ہر بار مذاکرات ناکام ہونے کی خوش خبری سنانا بھی کبھی نہیں بھولتے اور تین بار اقتدار سنبھالنے کے باوجود اگر یہ گلا سڑا نظام اسی طرح باقی ہے تو آپ ہی بتایئے‘ یہ خواب کیسے شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے‘ ماسوائے اس کے کہ طالبان بھائی آ کر اس کی چولیں اچھی طرح سے کس دیں اور اس دوران حسبِ معمول ہمارا بھی خیال رکھیں کہ دونوں کی گاڑی اب تک ایک دوسرے کا خیال رکھنے سے ہی چل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم عوام کے اعتماد پر پورا اُتریں گے‘‘ اگرچہ عوام نے ہمارا خیال نہیں رکھا ورنہ ہمیں اقتدار حاصل کرنے کے لیے اتنے پاپڑ نہ بیلنے پڑتے۔ انہوں نے کہا کہ ''مسلم لیگ (ن) کی حکومت عوام کی بے لوث خدمت کے پروگرام پر عمل پیرا ہے‘‘ اور‘ اگر مختلف حیلوں بہانوں سے ساتھ ساتھ ہماری خدمت بھی ہو رہی ہے تو اس پر عوام کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ آپ اگلے روز رائیونڈ میں مختلف اضلاع سے آئے وفود سے ملاقات کر رہے تھے۔
حکومت جلد ہی تمام مسائل پر
قابو پا لے گی... راجہ ظفر الحق
سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت جلد ہی تمام مسائل پر قابو پا لے گی‘‘ کیونکہ فی الحال تو مسائل نے حکومت پر قابو پایا ہوا ہے جبکہ امید ہے کہ حکومت کی باری بھی کبھی کبھار آ ہی جائے گی بشرطیکہ طالبان نے حکومت کا یہ کانٹوں کا تاج اپنے گلے میں نہ ڈال لیا جس صورت میں ہمارے ساتھ مسائل بھی غائب غلہ ہو جائیں گے اور‘ راوی ہر طرف چین ہی چین لکھے گا کیونکہ تحریر و تقریر کا سارا کام بھی وہی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''جب مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو ملک کے حالات انتہائی خراب تھے‘‘ جن میں مزید خراب ہونے کی گنجائش ہی نہیں تھی ورنہ ہماری حکومت بھی اس میں بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈالتی؛ تاہم اب بھی حکومت اپنا کردار پوری طرح سے ادا کر رہی ہے اور اس کے نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں لیکن حکومت پوری جوانمردی کے ساتھ اسے تسلیم ہی کر کے نہیں دے رہی کیونکہ حکومت اپنے جاں نثار عوام کو مزید پریشان ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان اب مسائل سے نکل رہا ہے‘‘ یعنی ایک طرف سے نکل رہا ہے تو دوسری طرف سے داخل ہو رہا ہے‘ پٹواری حضرات اسے داخل خارج کہتے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
طبیعت ٹھیک رہی تو مشرف آئندہ سماعت
پر پیش ہو جائیں گے... بیرسٹر سیف
غداری کیس میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ ''اگر طبیعت ٹھیک رہی تو مشرف آئندہ سماعت پر پیش ہو جائیں گے‘‘ اور‘ طبیعت بہرحال اپنی مرضی کی مالک ہے‘ اور‘ ہمارے منع کرنے کے باوجود جب جی چاہے خراب ہو جاتی ہے اور عدالت سمیت ہم بھی دیکھتے کے دیکھتے رہ جاتے ہیں؛ تاہم کیا کیا جائے‘ طبیعت کو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہی ایسا ہے کہ خراب ہونے میں ذرا بھی دیر نہیں لگاتی‘ اگرچہ نیت اورطبیعت میں بھی کوئی خاص فرق نہیں ہوتا‘ یعنی جب تک انہیں کوئی صحت افزا امکانات یا علامتیں نظر نہیں آتیں‘ ان کی صحت اسی طرح ڈانوا ڈول رہنے کا زیادہ امکان ہے۔ اللہ تعالیٰ جنرل صاحب سمیت ہم سب کو صحت دے۔ انہوں نے کہا کہ ''عدالت سے فرار حاصل کرنا نہ پہلے ہمارا مقصد تھا نہ اب ہے‘‘ بلکہ یہ صرف اور صرف سزایابی سے فرار ہے جبکہ جان بچانا تو ویسے بھی فرض ہے۔آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے خصوصی گفتگو کر رہے تھے۔
مذاکرات میں پیش رفت کا امکان نہ
ہونے کے برابر ہے... فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ اور کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''مذاکرات میں پیش رفت کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے‘‘ کیونکہ اگر ملکِ عزیز میں دیگر اہم معاملات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی تو مذاکرات میں کیسے ہو سکتی ہے جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ خاکسار کو دو عدد وزارتیں تو دے دی گئیں لیکن کسی قلمدان کا دور دور تک کوئی نام و نشاں نہیں ملتا اور یہ دونوں شرفاء بقول غالبؔ ع
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
والی صورتحال ہی سے دوچار ہیں اور اب تو ان کے کان بھی یہ بوجھ اٹھانے سے انکاری ہو گئے ہیں اور قلم انہیں قمیض یا شلوار میں ٹانگنا پڑتا ہے، سو ان حالات میں مذاکرات میں کوئی پیش رفت کیسے نظر آ سکتی ہے۔ آپ اگلے روز دریا خان میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
آج کا مطلع
یہ بھی ہو سکتا ہے یک دم کوئی اچھا لگ جائے
بات کچھ بھی نہ ہو اور دل میں تماشا لگ جائے