تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     19-03-2014

کون پروا کرے گا؟

وہ پیدائشی نابینا تھی‘ اس کی ساری زندگی جدہ کی سڑکوں پر بھیک مانگتے گزری۔ صبح ہوتے ہی وہ ایسی جگہوں پر پہنچ جاتی جہاں سے اسے زیادہ بھیک ملنے کی امید ہوتی۔ وہ اکیلی یہ کام نہیں کرتی تھی بلکہ اس کی والدہ اور بہن بھی اس کے ساتھ ہوتیں۔ کچھ عرصہ قبل اس کی والدہ اور بہن انتقال کر گئیں توان کی جمع پونجی اس خاتون کے حصے میں آ گئی۔ دو روز قبل اس خاتون کے گھر ایک ایمبولینس کھڑی تھی۔ لوگ سمجھے شایدوہ بیمار ہو گئی ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ معمر نابینا خاتون انتقال کر گئی ہے۔ یہ کسی کے لیے حیران کن خبر نہ تھی۔ اصل خبر یہ تھی کہ خاتون اپنے پیچھے کیا کچھ چھوڑ کر گئی تھی۔ میڈیا میں جو خبریں سامنے آئیں ،ان کے مطابق اس خاتون نے اپنے پیچھے جو اثاثے چھوڑے‘ ان میں تیس لاکھ سعودی ریال‘ دس لاکھ ڈالر کے ہیرے جواہرات اور چار رہائشی عمارتیں شامل تھیں۔اس کے پاس سونے کے ہزاروں سکے بھی تھے جن کی پندرہ برس پہلے قیمت اڑھائی سو ریال تھی مگر اب بڑھ کر ایک ہزار ریال فی سکہ ہو چکی تھی۔ ایک خاتون ،جو بھکارن کی پرانی واقف کار تھی ‘ نے کئی مرتبہ اسے سمجھایا تھا کہ بہت ہو گیا اب وہ بھیک مانگنا چھوڑ دے‘ لیکن وہ نہ مانی۔ اس نے سمجھایا کہ تمہارا نہ کوئی آگے ہے نہ پیچھے‘ آخر اتنی دولت کا کرو گی کیا؟ تم کسی کا حق اپنی جھولی میں سمیٹ کر لے آتی ہو جو کسی طور درست نہیں۔ ان سب باتوں کا اس خاتون پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اسے دھن تھی تو بس ایک چیز کی کہ اس کے پاس زیادہ سے زیادہ دولت جمع ہو جائے۔ عجیب بات یہ تھی کہ وہ یہ دولت آگے تقسیم بھی نہیں کرتی تھی۔ اب جبکہ اس کی موت کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ وہ چالیس پچاس کروڑروپے کی مالک نکلی ہے‘ لوگوں نے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔ پولیس نے گھر کی تلاشی لی تو اسے خاتون کی وصیت مل گئی جس میں لکھا تھا کہ اس کا کوئی رشتہ دار نہیں ہے لہٰذا اس کی زندگی کے بعد اس کی ساری جائیداد غریبوں اور ضرورت مندوں میں بانٹ دی جائے۔
میں نے جب سے یہ کہانی پڑھی ہے مجھے اس بھکارن خاتون اور اپنے ملک میں کافی مماثلت دکھائی دے رہی ہے۔یہ خاتون بھی گزشتہ پچاس برس سے مسلسل بھیک مانگ رہی تھی جبکہ ہمارا ملک بھی گزشتہ 66برس سے قرضوں اور امدادوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ ہر سیاسی جماعت اس بنیاد پر اقتدار میں آتی ہے کہ وہ حکومت میں آ کر ملک کوقرضوں کے شکنجے سے نکال دے گی‘ امداد اور بھیک کا کشکول توڑ دے گی اور ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کر دے گی۔موجودہ حکمران بھی تیسری مرتبہ اقتدار میں آئے اور اس مرتبہ بھی ایسے ہی وعدے کئے لیکن ہوا کیا؟ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے انتخابی و عدے کے بر عکس ایک سال سے بھی کم عرصے میں اربوں ڈالر کا نیا قرضہ لے لیا لیکن یہ سارے پیسے کہاں گئے ، کسی کو معلوم نہیں۔ حالت یہ ہے کہ 18کروڑ سے زائدکی آبادی کے ملک کا ہر بچہ 80ہزار روپے کا قرض لے کر پیدا ہوتا ہے۔وہ بڑا ہو گا تو یہ قرض لاکھوں روپوں تک پہنچ چکا ہو گا اور یوں وہ جو کمائے گا ،مہنگائی کی نذر ہو جائے گا یا آئی ایم ایف کو واپس
چلا جائے گا۔ اس سے زیادہ ستم اور کیا ہو گا کہ ہمارے سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے لیے تو آفات بھی خوشی کا پیام لے کر آتی ہیں۔ آپ 2005ء کے زلزلے کو ہی دیکھ لیجئے، جس کے بعد پوری دنیا سے اربوں ڈالر امدا د کا سیلاب پاکستان کی جانب اُمڈ آیا‘ حکومتی ادارے ایرا اور سیرا بھی وجود میں آئے لیکن ہوا کیا؟ یو این او سے آنے والا سامان پشاور کے بازاروں میں بکتا ہوا پایا گیا جبکہ زلزلے سے تباہ حال خاندان آج بھی امداد کے منتظر ہیں۔ آپ سوات کامیں فوجی ایکشن دیکھ لیں۔ اس ایکشن کے بعد فاٹا کے بائیس لاکھ آئی ڈی پیز ابھی تک کسمپرسی کی حالت میں ہیں‘ انہیں اپنے ٹھکانے کا معلوم ہے نہ ہی مستقبل کا کوئی اتا پتا۔ یہ دو وقت کی روٹی کے محتاج ہیں لیکن یہ روٹی ان تک نہیں پہنچ سکی جو عالمی ڈونروں نے نقدی‘ سامان اور امداد کی شکل میں انہیں بذریعہ حکومت بھجوائی تھی۔ اب تھر میں قحط کی صورت حال پیدا ہوئی ہے ،اس سے بھی سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے وارے نیارے ہو گئے ہیں۔ عالمی ممالک سے جو امداد یہاں بھجوائی جائے گی وہ تھر متاثرین تک پہنچے گی یا نہیں‘ لیکن یہ سرکاری بابوئوں کی جیبوں میں ضرور چلی جائے گی۔
میں کبھی تھر گیا ہوں نہ چولستان ،مجھے تو اتنا معلوم ہے کہ جس طرح ہمارے سابق اور موجودہ حکمرانوں کی پالیسیاں چل رہی ہیں‘ پورا ملک خدانخواستہ تھر اور چولستان بننے والا ہے۔ میں لارنس روڈ کے راستے روزانہ دفتر آتا ہوں۔ یہ علاقہ پوش ترین سمجھا جاتا ہے۔ اس کے ایک طرف چھ سو کنال پر محیط گورنر ہائوس ہے، دوسری جانب بیوروکریسی کی قلعہ نما رہائش گاہیں ہیں جہاں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی ۔ اسی لارنس روڈ پر جہاں ایم ایم عالم کا جہاز کھڑا ہے ،وہاں سڑک کے ایک طرف فٹ پاتھ پر میں کئی ہفتوں سے ایک نوجوان کو دیکھ رہا ہوں۔ بعض اوقات اس کے بدن پر صرف اتنا کپڑا ہوتا ہے کہ محض ستر ڈھانپ سکے اور بعض اوقات وہ بھی نہیں ہوتا۔ سردیوں کی ٹھنڈی راتوں میں بھی وہ سڑک پر لیٹا ہوتا ہے‘ کوڑے سے اٹھا کر جو کچھ لاتا ہے اسے نعمت سمجھ کر کھا رہا ہوتا ہے۔ کبھی کسی کو 
رحم آ جائے تو اسے پانچ دس روپے دے دیتا ہے۔ وہ عادی فقیر ہے نہ ہی نشہ باز۔ کسی غریب گھرانے کا ذہنی مریض لگتا ہے جس کے گھر والے اس کی کفالت نہ کر سکے اور بے چارا مستقل سڑک چھاپ ہو گیا۔ میں جب بھی اسے دیکھتا ہوں ‘سوچتا ہوں‘ اس کے لیے کچھ کروں ۔ لیکن ہمیشہ اسے چند روپے دے کر آگے بڑھ جاتا ہوں۔ وہ ان چند روپوں کا کیا کرتا ہو گا، میں اس کے لیے کیا کر سکتا ہوں‘ میں آج تک نہیں جان سکا۔کبھی سوچتا ہوں کہ ارب پتی حکمرانوں سے درخواست کروں کہ اسے بھی آشیانہ دے دیں‘ اس کی روٹی اور علاج کا بندوبست کر دیں اور اسے بھی وہ حقوق دلا دیں جو ہمیں حاصل ہیں لیکن پھر سوچتا ہوں ‘ ایک نیم مردہ شخص پر کسی کو رحم کیوں آئے گا ‘ کون اس کے لیے وقت نکالے گا۔جدہ میں فوت ہوجانے والی خاتون کی طرح اس ملک میں بھی خزانوں کے خزانے دفن ہیں لیکن ان خزانوں کی ہوا ایسے لوگوں کو بھلا کون لگنے دے گا‘ یہ امداد‘ یہ قرضے اور یہ ڈیڑھ ڈیڑھ ارب ڈالرکے تحفے غریب عوام تک کون پہنچائے گا۔ ویسے بھی‘ ایک ایسے ملک میں ‘جہاں کی فرسٹ ایئر کی طالبات انصاف نہ ملنے پر خود کو آگ لگانے پر مجبور ہوں‘ جہاں نرس جیسا معزز پیشہ اپنانے والی خواتین کو جائز مطالبات منوانے کے لیے سڑکوں پر آٹھ آٹھ راتیں گزارنا پڑتی ہوں اور جہاں تین سال کی معصوم بچیوں سے ریپ کے ملزم تک نہ پکڑے جا سکے ہوں‘ وہاں اس مفلوک الحال کو کون امان دے گا‘ کون اس کی پروا کرے گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved