''فقیر رنگ‘‘ بھی سرفراز شاہ صاحب کی کتاب ''کہے فقیر‘‘ کی طرح ان کے روحانی تجربوں کا نچوڑ ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ برصغیر میں اسلام کی روشنی صوفیا کی درگاہوں سے نکل کر سارے پاک و ہند کو منور کر گئی۔ عقلیت پسند، جن کے لیے آج بھی ان دیکھی اور غیر مرئی اشیا کو قبول کرنا مشکل کام ہے اور جو ہر شے کو سائنس کی روشنی میں چھو کر دیکھنا چاہتے ہیں، ہاتھ لگا کر پرکھے بنا اس کی حیثیت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، یہی وجہ ہے کہ تصوف کے وجود، اس کی حقیقت اور حیثیت پر آج بھی سوال اٹھاتے ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ ان کے کچھ سوالوں کے جواب شاید کسی کے پاس بھی نہیں ہوتے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دل، روح اور عشق کے معاملات عقل سے جدا ہوا کرتے ہیں۔ کبھی کبھی جو شے‘ جو بات عقل کو انتہائی مفید نظر آتی ہے دل روح اور عشق اس میں نقصان دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح جو بات دل روح اور عشق کو اپنی طرف کھینچتی ہے عقل اس کی مخالفت کرتی نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی ان میں آپس میں ٹکرائو اور تصادم بھی ہو جایا کرتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تصادم کی صورت میں بھی عقل و خرد اور دل، روح اور عشق ہار کر بھی اپنے آپ کو فاتح کہلاتے پائے جاتے ہیں۔ جب شکست، فتح بن جائے تو وہ یقیناً کسی بھی نظریے، عقیدے اور احساس کی معراج ہوا کرتی ہے کہ جہاں راستہ اور سفر ہی منزل ہوا کرتے ہیں۔ منزل کا ملنا نہ ملنا بے معنی ہو جایا کرتا ہے۔ شاید یہی وہ مقام ہے جہاں اشفاق احمد مرحوم کے بقول ملامتی صوفی فیض احمد فیض پکار اٹھتے ہیں۔
فیض تھی راہ سربسر منزل
ہم جہاں پہنچے کامیاب آئے
جب سالک ساری کائنات میں خالق کا پرتو دیکھنے لگ جائے تو نتیجے کی اہمیت کم اور خلوص اور نیت کی اہمیت بڑھ جایا کرتی ہے۔ عقل احتیاط اور خوف کو جنم دیتی ہے عشق بے خوفی اور بہادری کا ماخذ ہوا کرتا ہے بقول اقبال ؎
پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
اس مقام پہ یہ سمجھنا اور سمجھانا بھی اشد ضروری ہے کہ سطحی جذباتیت‘ جو جہالت سے جنم لیتی ہے‘ کا عشق جیسے ارفع و اعلیٰ احساس سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ عموماً سطحی جذباتیت و جہالت کو ہی عشق کا نام دے کر ہم خود بھی بے وقوف بن رہے ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی بیوقوف بناتے ہیں۔ عشق اور سطحی جذباتیت ایک دلچسپ اور الگ موضوع ہے جس پر پھر کبھی لکھوں گا۔ ابھی تصوف کی طرف لوٹتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تصوف کے حق میں اور اس کے خلاف سینکڑوں دلیلیں لائی جا سکتی ہیں۔ کسی کو صاحبِ کشف و عرفان تسلیم کرتے ہوئے ہاتھ بھی چومے جا سکتے ہیں اور ان کے صاحبِ کشف و عرفان ہونے پر سینکڑوں سوال بھی اٹھائے جا سکتے ہیں مگر اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ تصوف محبت، اخوت، بھائی چارے، بھلائی، برداشت‘ صبروتحمل کا اور تشدد سے دوری کا درس دیتا ہے۔ تصوف تو نفرت سے بھی نفرت کرنے کی اجازت نہیں دیتی بلکہ نفرت کو بھی محبت سے تبدیل کرنے، پیار سے رام کرنے کی کوشش کرتی ہے اور تصوف کی اس حقیقت سے شاید ہی کوئی ذی روح انکار کر سکتا ہو۔
سرفراز شاہ صاحب کی کتاب ''فقیر رنگ‘‘ تصوف کی خوشبو میں بھیگے ہوئے من کو معطر کر دینے والی کتاب ہے اور ان کی شخصیت یقیناً ان کی کتاب سے بھی بڑھ کر شفیق اور خوشبو بکھیرتی ہوئی طلسماتی اور کرشماتی۔ پہلے بھی کہیں لکھا تھا کہ شاہ صاحب کی محفل میں ایک کشش ہے، ایسی کشش جو وہاں بار بار جانے پہ مجبور کرتی ہے۔ چلے جائیں تو محفل سے اٹھنے کو جی نہیں کرتا اور اٹھ آئیں تو من ہر پل‘ ہر لمحہ ان کی محفل میں لوٹ کر جانے کا ورد کرتا رہتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے وہ احباب جو تصوف اور روحانیت کو بالکل تسلیم نہیں کرتے‘ شاہ صاحب کی محبت، شفقت اور علمیت کے وہ بھی معتقد ہیں۔ مسکراتے ہوئے ان کی محفل میں جاتے ہیں‘ مسکراتے ہوئے لوٹتے ہیں اور تادیر ہر سخت سوال کے جواب میں بھی شاہ صاحب کے چہرے پر جو مسکراہٹ کھلی رہتی ہے‘ اس کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔
''فقیر رنگ‘‘ میں تصوف کے موضوع پر سرفراز شاہ صاحب نے جو موتی بکھیرے ہیں ان میں سے چند:
شاہ صاحب فرماتے ہیں:
٭ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل عطا ہی اس لیے فرمائی ہے کہ ہم اچھے اور برے میں تمیز کر سکیں اور جب سارے اعمال اچھے ہو رہے ہوں تو بہت اچھے اعمال کی پہچان کر سکیں۔
٭Total Submission میں داخل ہوتے ہی انسان بندگی کے مقام پر چلا جاتا ہے اور جیسے ہی وہ بندگی اختیار کرتا ہے رب کو پا لیتا ہے۔
٭ تقابلِ ادیان کے وقت تنقیدی رویہ اپنانے کے بجائے ہم بہترین ذاتی مثال کے ذریعے یہ ثابت کر دکھائیں کہ اسلام ہی سب مذاہب میں بہترین ہے۔
٭سب سے پہلی ڈھال ایمان، دوسری اخلاص، تیسری فرائض، چوتھی سنت اور پانچویں مستحب اعمال کی ہے۔
٭جس شخص نے آپﷺ کے طرزِ حیات کی نقل کر لی، خواہ جزوی طور پر ہی سہی، وہ رب کے قریب ہو گیا اور فلاح پا گیا۔
٭اپنی خامیاں دور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جب ہم کسی اچھے شخص سے ملیں تو یہ سوچیں کہ اس میں کون سی ایسی خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے لوگ اسے سراہتے اور اس کی عزت کرتے ہیں۔
٭ہر وہ چیز جس کو انسان ذہنی یا جسمانی محنت کے بعد ''جائز‘‘ طریقے سے حاصل کرے، رزقِ حلال ہے۔