تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     20-03-2014

بلوچستان میں موسمِ گل ابھی نہیں آیا

صرف بلوچستان ہی نہیں‘ کوئٹہ میں اتر کر احساس ہوتا ہے کہ آئندہ چند برس ملک کے لیے فیصلہ کن ہیں ؎ 
ہر صدا پہ لگے ہیں کان یہاں 
دل سنبھالے رہو‘ زباں کی طرح 
اخبار پڑھو تو بلوچستان حکومت کی کشتی ڈوبتی دکھائی دیتی ہے۔ متعلقہ اور معتبر لوگوں سے ملو تو ایک دوسری ہی تصویر بنتی ہے۔ آخری برسوں میں نوابزادہ نصراللہ خان سے‘ ان کا حال پوچھا جاتا تو وہ ایک شعر پڑھا کرتے ؎ 
وہی شورش کہ جیسے موجِ تہہ نشیں کوئی 
وہی دل ہے مگر آواز مدھم ہوتی جاتی ہے 
اس قدر شاعر آزردہ خاطر کیوں ہوتے ہیں؟ خیالات کی وادیوں ہی میں بھٹکنا ہے تو چمن کا رُخ کیوں نہ کیا جائے ؎ 
گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگِ گل سے میرؔ 
بلبل پکاری دیکھ کے صاحب پرے پرے 
کل کوئٹہ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز جانے کا موقعہ ملا۔ انشاء اللہ العزیز‘ ایک الگ کالم اس پہ لکھا جائے گا۔ مہمانوں کے تاثرات محفوظ رکھنے والی یادگار کتاب کے ورق پر لکھا ''جی خوش ہوا۔ اللہ آپ کو برکت دے۔ اپنے محترم دوست جنرل کیانی یاد آئے‘ جنہوں نے اس ادارے کا خواب دیکھا تھا‘‘۔ لکھا جائے تو اعدادو شمار سے واضح ہوگا۔ ردعمل میں موصول ہونے والے تبصروں سے پتہ چلے گا کہ کم ترین مدت میں تشکیل پانے والا یہ ادارہ‘ ملک کے بہترین میڈیکل کالجز میں شامل ہے یا نہیں۔ مستقبل میں خود اس کے طلبہ پر آخری فیصلہ صادر ہوگا۔ ماحول مگر ایسا تھا اور فضا اس قدر شائستہ کہ سبحان اللہ۔ 
گرامی قدر استاد بٹ صاحب‘ رخصت ہونے کا وقت آیا تو بولے: آپ تو شاید اخبار نویس ہیں۔ کیا آپ وہی ہیں جو تحریک انصاف کی اکثر حمایت کرتے ہیں۔ چہرے پہ بھولپن‘ جو نادر قسم کے پیشہ ور ماہرین میں ہوتا ہے۔ عرض کیا: کیا آپ اخبار پڑھتے ہیں؟ اس پر ایک قہقہہ پڑا۔ بعد میں‘ میں نے سوچا۔ ان کا قصور کیا: فقط ٹی وی دیکھتے ہیں اور وہ بھی خال خال۔ دنیا بدل جاتی ہے مگر معصوم لوگوں اور بچوں کو خبر ہی نہیں ہوتی۔ بلوچستان بدل رہا ہے اور بہت سے لوگوں کو اطلاع ہی نہیں۔ 
کوئٹہ کے خاک اڑاتے راستوں پر‘ بادام کے درختوں پر پھول آ گئے ہیں۔ گیسٹ ہائوس کے صحن میں ایک درخت کھڑکی سے دکھائی دیتا ہے اور ستم ڈھاتا ہے۔ اتنے پھول کہ گن نہ سکو اور ایسا تحیر کہ کسی طرح تمام ہوتا ہی نہیں۔ آج بینک جانا پڑا‘ پہلو میں بادام کے علاوہ خوبانی کا ایک قد آور پودا بھی۔ سفید ہی سفید پھول۔ کوئی تشبیہ نہیں سوجھی۔ چاندنی مجسم ہو گئی ہے اور اپنی پسند کے دلآویز اسالیب میں۔ اسلام آباد میں‘ میرے گھر سے متصل ناشپاتی کا ایک ایسا ہی درخت ہے‘ اس سے پہلے والے مکان کے مقابل بھی ایک تھا۔ موسمِ گل میں مجید امجد یاد آتے رہتے ہیں ؎ 
کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجدؔ 
تری لحد پہ کھِلیں جاوداں گلاب کے پھول 
اگرچہ سرما کا موسم ختم ہوا۔ اگرچہ جشنِ نو روز 18 مارچ کو برپا ہوا۔ ناشپاتی‘ سیب اور بادام کے پھول دہائی دیتے رہے۔ لیکن بلوچستان میں موسمِ گل ابھی نہیں آیا۔ 
بات وہی ہے‘ ہزار بار دہرائی ہوئی۔ آدھا گلاس بھرا ہے یا آدھا گلاس خالی۔ اس سے بھی موزوں تر شاید یہ کہ برتن میں پانی کتنا اور سوراخ کتنے ہیں۔ اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے۔ پوری طرح مثبت۔ ایک آدھ نہیں‘ بہت سے سوراخ ہیں۔ عالمی پریس‘ جس نے ابھی ابھی خبر دی کہ جنرل پاشا نے اسامہ بن لادن کی حفاظت کے لیے آئی ایس آئی میں ایک خفیہ سیل بنا رکھا تھا۔ سفید جھوٹ۔ کہانی لکھی جا چکی اور دوبارہ لکھ دی جائے گی۔ ایسے بھی لوگ ہیں کہ ہزار دلائل پیش کر دیئے جائیں اور ایک ایک سچا ہو‘ تب بھی وہ مانیں گے نہیں۔ خودمذمتی اور خودشکنی۔ دانا دشمن اور نادان دوست۔ احساسِ کمتری اور خودرحمی۔ یہ برصغیر کا مرض ہے اور حریف نے اسے پہچان لیا ہے۔ 
نیویارک ٹائمز کی خبر تو خیر افواہ سازی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ رپورٹر کے پاس خبر نہ ہو تو اپنا جواز ثابت کرنے کے لیے وہ افسانہ گھڑتا ہے‘ اس کے قاری جس سے شاد ہوں۔ جنرل پاشا ایسا کوئی سیل بنانے کا موقع اور اختیار نہ رکھتے تھے‘ چیف آف آرمی سٹاف کی اجازت ضروری ہوتی اور ظاہر ہے کہ اس کا سوال ہی نہ تھا۔ تحریک انصاف کے لیے جنرل پاشا کی حمایت کا قصہ بھی یہی ہے۔ جذباتی سطح پر وہ عمران خان سے متاثر ہوئے۔ صدر زرداری سمیت کوئی بھی پوچھتا تو وہ اس کی حمایت کرتے۔ بعض کو اس پارٹی میں شامل ہونے کا مشورہ دیا۔ یہاں تک کہہ دیا کہ سبکدوشی کے بعد اس قافلے میں وہ خود بھی شریک ہوں گے۔ سوال ہی نہ تھا۔ سیاست پر گپ شپ ایک چیز ہے‘ مداخلت اور مؤقف بالکل دوسری۔ اس ناچیز سے جنرل کیانی نے کہا تھا: آپ تو ہر چیز سے واقف ہیں۔ حالات اگر کسی کی مدد کریں تو ضرور کریں‘ ہم ایسی کسی چیز کا تصور تک نہیں کر سکتے۔ جنرل پاشا کو یوں بھی سوات کے پس منظر میں دہشت گردی پر بریفنگ کے لیے بھیجا گیا۔ میاں محمد شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان متعدد ملاقاتیں فوج کے سربراہ سے کر چکے تھے۔ جیسا کہ بعد میں آشکار ہوا‘ عمران خان کو نظر انداز کر کے اس موضوع پر کوئی حکمتِ عملی تشکیل نہ دی جا سکتی تھی‘ کسی بھی پارٹی‘ حتیٰ کہ جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن تو کیا‘ حضرت سمیع الحق کو بھی نہیں۔ جذبات سے جنرل پاشا مغلوب ہوئے۔ کچھ زیادہ ہی متاثر۔ بس اتنی سی داستان ہے ؎ 
وہ ایک بات کہ اندیشۂ عجم نے جسے 
بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لیے 
بجا کہ مسلم لیگ ن کے ثناء اللہ زہری اور ان کے حامی 22 ارکان حصولِ اقتدار کے لیے بے چین بھی بہت ہیں۔ بجا کہ محمود اچکزئی کی پختون خوا ملی عوامی پارٹی‘ دوسری بڑی جماعت ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک کی نیشنل پارٹی؛ چنانچہ تیسرے نمبر پر‘ ایک چوتھائی سے بھی کہیں کم ووٹوں کی نمائندہ۔ بلوچستان کی منفرد صورتِ حال میں اول تو بات چیت کی شدید خواہش اور پھر ڈاکٹر عبدالمالک کی مقبول شخصیت کی وجہ سے وہ چنے گئے۔ سیاست میں سب سے اہم چیز صورتِ حال ہوتی ہے اور زیادہ پائیدار عوامل اب بھی ڈاکٹر صاحب کے حق میں ہیں۔ وزیراعظم ان کے حامی ہیں اور ان کی اہمیت کا پورا ادراک رکھتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ناراض اور مشتعل لوگوں سے مکالمہ اگر کرنا ہے تو وہی کر سکتے ہیں۔ باقی تو کیا‘ وہ فرقہ پرستوں سے بھی بات کر رہے ہیں۔ بلوچستان کی تاریخ میں نچلے درمیانے طبقے سے ابھرنے والے وہ پہلے وزیراعلیٰ ہیں۔ باغی اور خونی ڈاکٹر اللہ نذر‘ بلوچستان سٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں ان کے رفیق تھے۔ عجیب بات ہے کہ کارزارِ حیات میں لوگ کس طرح ملتے اور بچھڑتے رہتے ہیں۔ 
وہی کارواں‘ وہی راستے‘ وہی منزلیں‘ وہی مرحلے
لیکن اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں‘ کبھی ہم نہیں 
حلف اٹھانے کا وقت آیا تو ڈاکٹر صاحب کے پاس اچکن تو کیا واسکٹ بھی نہیں تھی۔ چیف سیکرٹری بابر یعقوب فتح محمد نے کہا: میں پیش کرتا مگر مجھے معیوب لگا۔ طویل قامت سنجیدہ آدمی تنے ہوئے رسے پہ چلتا ہے۔ مبصرین کی عظیم اکثریت یہ کہتی ہے کہ کامیابی سے وہ چلتا رہے گا۔ وزیراعظم اور فوج کی حمایت اگر اسے حاصل رہی۔ اگر محمود اچکزئی اس کی تائید میں ڈٹے رہے تو ثناء اللہ زہری کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ اس کے باوجود کہ ایک اعتبار سے زہری کا مقدمہ بھی مضبوط ہے۔ یوں تو پورا پاکستان نیم قبائلی ضرور ہے۔ بلوچستان میں تو وہ تاریخی عمل کبھی آغاز ہی نہ کر سکا‘ جس کے رواں دواں رہنے سے سماج بالآخر جدید تر رجحانات کو قبول کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ ایک لحاظ سے ڈاکٹر عبدالمالک کی بنیاد کمزور ہے اور ایک اعتبار سے بہت ہی زیادہ مضبوط۔ مرکزی حکومت کی طرف سے ثناء اللہ زہری اور ان کے ساتھیوں پر پوری طرح واضح رہنا چاہیے کہ ملک معمول سے کہیں زیادہ ایثار کا مطالبہ کرتا ہے۔ سیاسی نظام میں ان کے لیے گنجائش پیدا کرنے کا نسخہ بھی ڈھونڈنا چاہیے۔ کئی لحاظ سے سیاست بھی کاروبار کی طرح ہوتی ہے‘ حصہ بقدر جثہ۔ 
کراچی روانہ ہوں‘ جم کر بیٹھ سکوں تو تفصیل سے بلوچستان پر لکھوں گا۔ ریاضت بہت کی۔ سمیٹنا مشکل ہے۔ دنیا میں لاکھوں نہیں‘ کروڑوں باردار (Pregnant)خواتین ہمیشہ موجود رہتی ہیں۔ ہر روز لاکھوں بچے صرف اس ملک میں پیدا ہوتے ہیں۔ ہر خاتون جبلی طور پر جانتی ہے کہ احتیاط اور حرکت میں توازن کیسے قائم رکھا جائے۔ 
صرف بلوچستان ہی نہیں‘ کوئٹہ میں اتر کر احساس ہوتا ہے کہ آئندہ چند برس ملک کے لیے فیصلہ کن ہیں ؎ 
ہر صدا پہ لگے ہیں کان یہاں 
دل سنبھالے رہو‘ زباں کی طرح 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved