ایک مرد اور عورت کے درمیان ای میل کے تبادلے نے مجھے مشہور امریکی مصنف جان گرے کی دنیا میں ہلچل مچا دینے والی کتاب''Men Are From Mars, Women Are From Venus‘‘کی یاد دلادی۔ یہ کتاب ایک سو اکیس ہفتوں تک بیسٹ سیلر رہی اور اس کی پانچ کروڑکاپیاں فروخت ہوئیں ۔ بے شمار مصنفین مرد اور عورت کے درمیان پرکشش اور حیران کن تعلق کی وضاحت کرنے کے لیے اسی کتاب کے حوالے دے چکے ہیں ۔ اپنی بات کی وضاحت اور قارئین کی دلچسپی کے لیے میں حال ہی میں پاکستان سے لوٹ کرآنے والے ایک پاکستانی نژاد امریکی کی ایک سادہ سی ای میل کو بطور حوالہ پیش کرتی ہوں:''ڈیئرفرینڈ! سفر، خاص طور پر طویل سفر انسانی ذہن پر عجیب طرح سے اثر انداز ہوتا ہے کیونکہ دورانِ سفر انسان ان چیزوںکے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے جو اس کی معمول کی زندگی کا حصہ نہیںہوتیں۔ جو چیزیں میرے ذہن پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں، ان میں عزیزوں اور دوستوںسے دوری کا احساس شاید سب سے قوی ہوتا ہے۔ اُن لمحات میں یا تو ذہن انسان سے عجیب وغریب کھیل کھیلتاہے یا پھر مختلف تصورات بھوتوں کی طرح اس کے تصورات پر قبضہ جمالیتے ہیں۔ چنانچہ جب آج سے سینتالیس برس پہلے1967ء میں، مَیں پشاور سے روانہ ہوا تو میرے ساتھ بھی یہی مسئلہ تھا۔ میں نے سفر کے دوران شاعری کی کتابوں اورموسیقی سے ، جن کا میں پہلے ذوق نہیں رکھتا تھا، دل بہلانے کی کوشش کی۔ اس مرتبہ میں نے پھرگانوں کی سی ڈیز خریدیں اوراتفاق کی بات یہ ہے کہ جب میں نے پہلا گانا لگایا تو وہ اسد امانت علی خان کی آواز میں گایا ہوا تھا۔۔۔۔۔''گھر جب تم لوٹ آئو گے‘‘ ۔ بے چینی اور بے خوابی کے عالم میں کچھ وقت گزارنے کے بعد میں بستر سے اٹھا اور یوٹیوب پرکچھ لگانے کی کوشش کی۔ سب سے پہلے میںنے شیوکمار بٹالوی کی ایک پنجابی نظم سنی ۔ نظم تو اچھی تھی لیکن مجھے زیادہ سمجھ نہیں آئی۔ وہ تحصیل نارووال کی ایک تحصیل شکرگڑھ سے تعلق رکھنے والے شاعر تھے اور صرف 35سال کی عمر میں فوت ہوگئے۔ ان کی شاعری رومانوی جذبوں کی شدت اور جدائی کے کرب کا خوبصورت اظہار لیے ہوئے ہے۔ ان کی ایک نظم جگجیت سنگھ نے بھی گائی۔۔۔۔ ''مینو ں جد وی تسی ہو یاد آئے‘‘۔ اُن کا کہنا ہے کہ جب وہ سفر پر تھے تو اُن کے ذہن پر ان عجیب تصورات نے ڈیرہ جمارکھا تھا۔ اُن کے لیے ایک بات ناقابل ِ فہم تھی کہ جب گزشتہ سینتالیس برس سے امریکہ ہی ان کا دیس تھا تو پاکستان کے سفرنے ان کو اس طرح کیوں متاثرکیا۔کیا اس کی کوئی دلیل دی جاسکتی ہے؟
اس ای میل کا عورت کیا جواب دیتی ہے:'' میں جانتی ہوں کہ و طن وہی ہوتا ہے جہاں انسان کا دل ہو، اس لیے آپ بلا وجہ بار بار لوٹ کر پشاور جاتے ہیں۔ یاد کے بے نشاں جزیروںسے آنے والی صدائیں وقت کے بڑھتے ہوئے قدموںکی چاپ سے ہم آہنگ ہو کر ہمارے لاشعورکا حصہ بن جاتی ہیں۔ جب ان کی لے تیز ہوجاتی ہے تو ہم بے قراری محسوس کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ہمارا دل چاہتا ہے کہ ہم بیتے ہوئے ماہ و سال کے نقوش تلاش کریں ؛ تاہم سب اتنے خوش قسمت نہیںہوتے کہ ماضی کے وہ ٹھوس نشانات دیکھ اور محسوس کرسکیں۔ بعض اوقات میرا جی بھی چاہتا ہے کہ میں بھی واپسی کا راستہ اختیارکروں۔کبھی پرانے فلمی گیت اور غزلیں جو مجھے دوست بھیجتے رہتے ہیں، سن کر ذہن اسی ''بلیک اینڈ وائٹ‘‘ دنیا میں چلا جاتا ہے جہاں حال کی رنگینی کا شائبہ تک نہ تھا ؛ تاہم یہ یادیں میری آنکھوںکو آنسوئوں سے نہیں بھرتیں بلکہ میں ایک طرح کا جوش اور ولولہ محسوس کرتی ہوں۔ایسا لگتا ہے کہ میرے ماضی نے ہی میرے حال کا تعین کیا ہے کیونکہ ہر لمحہ جوحال سے نکل کر ماضی کا حصہ بنتا ہے، وہ قسمت کے خدوخال تشکیل دیتا ہے۔ اس سے دل کو ایک طرح کی تسلی ہوجاتی ہے کہ ہمارا ماضی ہمارے ہی حال کا تانا بانا بنتا ہے۔ ایک اور بات، میں حال ہی میں رہنا چاہتی ہوں کیونکہ زندگی کا یہی لمحہ سب سے ٹھوس اور جاندارہوتا ہے۔اس کے برعکس ماضی اور مستقبل دونوں میں ''تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ‘‘ والا معاملہ درپیش ہوتا ہے۔ آپ نے جس غزل کا حوالہ دیا، اس میں بیان کیے گئے جذبات اور تخیلات صرف پنجابی میں ہی بیان ہوسکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے، دل پہ اثر رکھتی ہے۔ معذرت کے ساتھ، اردو کے پاس ان جذبات واحساسات کے اظہار کے لیے الفاظ و تراکیب کااتنا ذخیرہ موجود نہیں‘‘۔
ان دونوں ای میلز سے آپ نے ایک بات نوٹ کی ہوگی کہ مرد کا دل وہاں نہیں تھا جہاں وہ رہتا تھا جبکہ عورت جہاں اور جس زمانے میں رہتی تھی، اس سے دل لگانے کے قابل تھی۔ مردوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ Mars سے تعلق رکھتے ہیں۔ Mars غصے، انا اور فراموشی کے جذبات رکھتے ہیں ؛ تاہم فراموشی کے باوجود ان کی انا ماضی یا مستقبل کے جھروکوں میں تاک جھانک کرتی رہتی ہے، اس سے وہ بے چین اور بے قراربن جاتے ہیں۔ دوسری طرف عورتیں Venus سے تعلق رکھتی ہیں اس لیے ان کے دل میں سکون ، نرم مزاجی اور جذبات کی طولانی ہوتی ہے۔ سکون کا احساس اُن کے جذبات کو ماضی یا مستقبل سے لا تعلق کرتے ہوئے حال کے ساتھ ''ان ٹچ‘‘ رکھتا ہے۔ آدمی اپنی سوچ کا اظہا کردیتے ہیں لیکن وہ اپنی رائے میں اعتماد سے خالی ہوتے ہیں، دوسری طرف عورتیں ہو سکتا ہے کہ اپنے خیالات کا اظہار نہ کرپائیں لیکن وہ اپنی رائے میں دوٹوک ہوتی ہیں۔
چونکہ پاکستان مردکی حاکمیت کا معاشرہ ہے ، اس لیے ہو سکتا ہے کہ ہم اس بات کو تسلیم نہ کریں ، لیکن حقیقت یہی ہے کہ عورتوں میں قوت ِ فیصلہ مردوںکی نسبت زیادہ ہوتی ہے، وہ شدید صدمات کو برداشت کرسکتی ہیں ، خود کو نہایت آسانی سے ہر قسم کے حالات میں ڈھال لیتی ہیں جبکہ مرد انانیت اور اعتماد کے فقدان کا نادر نمونہ ہونے کے باعث اپنی کمزوری کو تشدد کی زبان میں بیان کرنے پر مجبور ہیں۔۔۔ بے چارے مرد۔ مزید کتنے مظفرگڑھ‘ ونی اورکاروکاری کے کتنے کیسز مردوں کی کمزوری کی گواہی کی دلالت کے لیے درکار ہیں؟