تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     20-03-2014

میں بیمار تھا

حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اﷲ عزّ وجلّ قیامت کے دن (اپنے بندے سے) فرمائے گا، اے فرزندِ آدم ! میں بیمار تھاتونے میری عیادت نہ کی،(بندہ) عرض کرے گا: اے پروردگار! میں تیری عیادت کیسے کرتا؟ تُو تو ربُّ العالمین ہے(اور بیماری توبندوں کو لاحق ہوتی ہے) اﷲعزّوجلّ فرمائے گا:کیا تُو نہیں جانتاکہ میرا فلاں بندہ(تیرے سامنے) بیمار ہوا،تو تُو نے اس کی عیادت نہ کی،تجھے نہیں معلوم کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس ہی پاتا؟(اﷲعزّوجلّ پھر فرمائے گا) اے بنی آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا،توتُو نے مجھے نہ کھلایا (بندہ ) عرض کرے گا: اے پروردگار! میں تجھے کیسے کھلاتا؟تُو تو رب العالمین ہے (اور بھوک وپیاس بندوں کی حاجات ہیں) اﷲ عزّوجلّ فرمائے گا: کیا تُو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا کھانے کی التجا کی، تو تُو نے اسے نہ کھلایا، کیا تُو نہیں جانتا کہ اگر تُو (میرے اس محتاج) بندے کو کھلاتا، توتُو اُسے میرے پاس ہی پاتا(یعنی مجھے اپنے قریب پاتا)، (اللہ عزّوجل پھر فرمائے گا:) اے بنی آدم ! میں نے تجھ سے پانی مانگا، تو تُو نے مجھے نہ پلایا، بندہ عرض کرے گا :اے پروردگار! میں تجھے کیسے پانی پلاتا ؟ تُوتو ربُّ العالمین ہے (اوران حاجات سے پاک ہے) اللہ عزّوجلّ فرمائے گا: تجھ سے میرے فلاں پیاسے بندے نے پانی مانگا توتُو نے اسے نہ پلایا، اگر تُو نے اسے پانی پلایا ہوتا تو اسے میرے پاس ہی پاتا‘‘۔(مسلم:2569)
بندوں کے لیے غور وفکر اور عبرت کا مقام ہے کہ اللہ عزّوجلّ نے اپنے محتاج بندے کی بیماری کو اپنی بیماری ، اس کی بھوک کو اپنی بھوک اور اس کی پیاس کو اپنی پیاس سے تعبیر فرمایا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ہستی ان تمام عَوارض سے مبرّیٰ ، پاک ، بے عیب اور بالاتر ہے۔ پھر اُس ذات عالی صفات نے بیمار کی عیادت کو اپنی عیادت اور محتاج کو کھانا کھلانے اور پانی پلانے کو اپنی ذات کی طرف منسوب فرمایا ،حالانکہ اس کی ذات ان تمام حاجات سے پاک اور بے عیب ہے۔ 
محدّثینِ کرام نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا کہ اس حدیثِ قدسی کا منشایہ ہے کہ بیمار کی عیادت، محتاج بھوکے کو کھلانا اور پیاسے کو پلانا، یہ بالواسطہ اﷲکی عبادت اور اس کے حبیبِ مکرمﷺ کی سُنَّتِ جلیلہ ہے۔ حدیث پاک کی ترتیب سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیمار کی عیادت اور تیمار داری کا ثواب بھوکے کوکھانا کھلانے اور پیاسے کو پانی پلانے سے زیادہ ہے۔اﷲتعالیٰ کا یہ ارشادکہ ''اے بنی آدم ! اگر تو بیمارکی عیادت کرتا ، بھوکے کو کھانا کھلاتا اور پیاسے کو پانی پلاتا تو مجھے اس کے قریب ہی پاتا‘‘۔ یعنی ان کاموں سے اﷲتعالیٰ کی رضا اور اس کا قُرب حاصل ہوتاہے، بندہ اللہ کے قریب ہوجاتاہے اور اللہ کی رحمت بندے پر سایہ فگن ہوجاتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اپنے دکھی بندوں کے دکھوں کا مداوا کرنے والوں کو اپنا قُرب عطا کرتاہے۔ایک حدیث پاک میں ہے ، اﷲعزّ وجل فرماتا ہے:''میں اپنے ان بندوں کے قریب ہوتاہوں جو خشیتِ الٰہی سے لرز اٹھتے ہیں اور بے بسی وبے کسی کے عالم میں شکستہ دل مجھے پکارتے ہیں‘‘۔(مرقاۃ المفاتیح) 
یہ حدیثِ پاک میں نے صحرائے تھرکی حالیہ خشک سالی اوراُس کے نتیجے میں رونما ہونے والی بچوں کی اَموات اوروہاں کے عوام کے اِفلاس اور بے بسی کے تناظُر میں بیان کی ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ صوبائی حکومت کے پاس اِن بیماروں کے علاج اور مصیبت زدہ لوگوں کی بھوک اور پیاس کو مٹانے کے لیے وسائل نہیں تھے ، بلکہ اصل مسئلہ حکمرانوں کی بے اعتنائی اور غیر ذمّے دارانہ رویہ ہے۔ اگرمیڈیا ان آفت زدہ لوگوں کے حالات رپورٹ نہ کرتا تو شاید اورکافی عرصے تک وہ اپنے بچوں کے لاشے اٹھاتے رہتے اور بھوک وپیاس سے تڑپتے رہتے۔ 
اﷲعزّوجلّ کا فرمان ہے:(1)''پس وہ دشوارگھاٹی میں داخل نہ ہوا اور توکیا جانے کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟ وہ (قرض یا غلامی سے ) گردن چھڑانا یا بھوک کے دن کھاناکھلانا ہے، ایسے یتیم کوجو رشتے دار بھی ہو یا کسی خاک نشین مسکین کو‘‘۔(البلد:11-16) (2)''بات یہ نہیں ہے، بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے ہواور تم ایک دوسرے کوکھانا کھلانے کی طرف راغب نہیں کرتے ہواور تم وراثت کا سارے کا سارا مال ہڑپ کرجاتے ہو اور تم مال سے بہت زیادہ محبت کرتے ہو‘‘۔(الفجر:17-20)
زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت اپنے عوام کے حالات سے بے خبر،ثقافت کے نام پر رنگ رلیاں منانے میں مصروف تھی اور اُسے سندھ کی خدمت سے تعبیرکیا جارہا تھااور سندھ کے مفلوک الحال عوام اور نومولود بچے موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا تھے ۔ قومی خزانے کی وہ امانتیں جو اس کے حق داروں کو لوٹائی جانی چاہئیں تھیں،و ہ گَویوں اور رقاصوں پرلٹائی جارہی تھیں اوراسے لبرل ازم اور روشن خیالی کانام دیا جارہا تھا۔
اب میڈیا کے متوجہ کرنے پر وفاقی حکومت ، صوبائی حکومت اور صوبہ پنجاب وخیبر پختونخوا کی حکومتیں اور مخیر حضرات اس طرف متوجہ ہوئے ہیں،خواہ بعد از خرابیِ بسیار! اس مرحلے پر ہم اس امرکی جانب بھی متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ ان قدرتی مصائب کے موقع پر جب وسائل کو اس جانب موڑا جاتاہے تو جلد بازی میں بعض اوقات Overlappingہوجاتی ہے(عربی میںتراکُب اورتداخُل) یعنی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم یا چند افرادکو ان کے استحقاق سے زیادہ مل جانا اور بعض کا سرے سے محروم رہ جانا ۔ 
اب جب کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے مُعتد بہ رقوم کا اعلان ہوچکا ہے، بیماروں کے علاج اور اِفلاس زدہ انسانوںاور مویشیوں کی فوری ضرورتوں کو ترجیح اول ملنی چاہئے، امدادی رقوم اورسامان کی تقسیم کامناسب جائزہ اوراس کا شفّاف ہونا ازحد ضروری ہے؛ سیاسی ترجیحات کے بجائے ضرورت کو استحقاق کی بنیاد بنانا چاہیے۔ میڈیا اور قابلِ اعتماد رفاہی تنظیموں کو بھی اس پر نظر رکھنی چاہیے، ورنہ بروقت امداد نہ پہنچنے سے امداد کی غیرشفاف اور غیر منصفانہ تقسیم کے نقصان کی وسعت اور گہرائی زیادہ اور دیر پا ہوگا۔ بدقسمتی سے سندھ کی بیوروکریسی کی شہرت بھی دوسرے صوبوں کے مقابل میں زیادہ داغ دار ہے۔
اکثریہ سوال اٹھتا ہے کہ سندھ کے حکمران اور سیاست دان عوام کے مسائل سے لاتعلق کیوں ہوتے ہیں، انہیں عوام کے دکھ درد کا احساس کیوں نہیں ہوتا، ان کی حکومت کی فیض رسانی اور اندازِ حکمرانی پر ہمیشہ انگلیاں کیوں اٹھتی ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ سندھ کے عوام نے1970ء سے 2013ء تک کبھی میرٹ اورکی بنیاد پر ووٹ نہیں دیا،خاص طور پراندرونِ سندھ کے عوام نے پیپلز پارٹی کی حمایت کو ایک طرح سے عقیدے کا درجہ دے دیا ہے، تو پھر حکمرانوں کے بارے میںاُن کے گلے شکوے کا کوئی جواز پیدا نہیں ہوتا۔انسان اکثر اپنے تجربات سے سیکھ کراپنی سوچ اور فیصلوں کا انداز بدل لیتاہے، سندھ میں سیلاب اور قدرتی آفات پہلے بھی آتی رہی ہیںاوران کا نتیجہ بھی آج سے کوئی مختلف نہیں تھا، لیکن اِس سے عوام کی سیاسی وابستگی پرکوئی اثر مرتّب نہیں ہوا، بقولِ شاعر ؎
اطہر تم نے عشق کیا ، کچھ تم بھی کہوکیا حال ہوا؟
کوئی نیا احساس ملا یا سب جیسا احوال ہوا
سوحق اور سچ یہ ہے کہ ماضی کے تجربات نے سندھ کی عوام میں کوئی نیا احساس پیدا نہیں کیا،انتخابات کے موقع پر حکمرانوں کے احتساب کا کوئی سیاسی کلچر پروان نہیں چڑھا،اسی لیے یہاں کے اندازِ حکمرانی میں کبھی کوئی جوہری تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ چنانچہ شیطان کے پیروکار،دنیا میں کی گئی اپنی بداعمالیوں کا ملبہ جب آخرت میں شیطان پر ڈال کر اپنی ذمے داری سے دامن چھڑانا چاہیں گے،، تو شیطان کا جواب قرآن کے کلماتِ مبارَکہ میں یہ ہوگا:''جب حشرکی کارروائی پوری ہوگئی تو شیطان نے کہا: بے شک اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ برحق وعدہ تھا اور میں نے تم سے جو وعدہ کیا تھا، سو میں نے اس کے خلاف کیا(لیکن) میرا تم پرکوئی زور تو نہیں چلتا،سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں (گناہ کی طرف) بلایا،توتم نے میری دعوت پر لبیک کہا، سو(آج) تم مجھ کوملامت نہ کرو(بلکہ) اپنے آپ کو ملامت کرو‘‘(ابراہیم:22)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved