تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     21-03-2014

کیمپ ڈیوڈ ڈرامہ

جب خالد محمد نبوی کو انور السادات کا کردار ادا کرنے کی پیش کش کی گئی تو وہ متذبذب تھا۔ مشرق وسطیٰ کی فلمی صنعت کے جانے پہچانے ستارے نے کہا۔ ''آپ جانیں لوگ اس معاملے میں بٹ چکے ہیں ۔سب سے پہلے تو میں نے مسودہ پڑھنا چاہا۔ میں مفروضوں سے کام نہیں چلاتا ۔میں نے اسے پڑھا اور مجھے وہ اچھا لگا۔میں کوئی صدر نہیں اور اب مجھے صدر بننا ہے ۔میں ان کی روح کو اجاگر کرنا چاہتا ہوں جو کہ بہت بڑا چیلنج ہے‘‘۔ 
لوگ بٹ چکے ہیں نہ صرف مصر میں بلکہ پاکستان سمیت دنیا کے اکثر مسلم ممالک میں ایسا ہی ہے ۔شائد لوگ‘ جمہوریت سے مایوس ہو چکے اور اب اقلیتی نقطہ نگاہ کو حکمرانی کا موقع دینا چاہتے ہیں ۔مصر میں یہ تجربہ ہو رہا ہے اور وہاں عوام کا ایک گروہ‘ ایک منتخب صدر کی جگہ فوج کے نامزدہ سربراہ کی حمایت کر رہا ہے ۔ان حالات میں مصری اداکار کا تذبذب قابل فہم ہے۔ انہوں نے واشنگٹن کی سٹیج پر سادات کا رول ادا کرنے کی ہامی بھری ہے‘ جو فوج سے نکل کر ملک کے صدر بنے تھے۔ نوّے منٹ کا ڈرامہ ''کیمپ ڈیوڈ‘‘ ایرینا تھیٹر میں شروع ہو گیا ہے اور اس میں (کرنل) سادات کے علاوہ اسرائیلی وزیر اعظم مناخم بیگن‘ صدر جمی کارٹر اور خاتون اول روزالین کارٹرکے کرداروں کی ترجمانی کی گئی ہے۔ کھیل کا موضوع وہ تیرہ ڈرامائی دن ہیں جو میزبان (امریکہ) نے کیمپ ڈیوڈ میں مصر اور اسرائیل کے لیڈروں کو دئے تھے۔ انہیں امن معاہدے تک پہنچنے تک صدر امریکہ کی دیہی رہائش گاہ کے اندر رہنے کو کہا گیا تھا ۔یہ جگہ واشنگٹن سے ساٹھ میل شمال مغرب میں ریاست میری لینڈ میں واقع ہے۔ چھتیس سال پہلے‘ اس سمجھوتے کی رو سے مصر اور اسرائیل میں سفارتی تعلقات تو قائم ہو گئے مگر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہوا۔ الا زہرسے ہوٹل لوٹتے ہوئے کچھ دیر میں میدان التحریر (آزادی) چوک میں رکا۔ اس وقت یہ پلٹن میدان پُر امن تھا مگر اس کے بعد پُر تشدد مظاہروں کی آماجگاہ بن گیا جو بالآخر صدر حسنی مبارک کی برطرفی پر منتج ہوئے۔ بیشتر دنیا مشرق وسطیٰ میں بد امنی کا ذمہ دار اسرائیل کو سمجھتی ہے اور اب امریکہ میں بھی یہ احساس ابھرنے لگا ہے۔ گزشتہ دنوں اسرائیلی پارلیمنٹ نے ایک متنازع فیہ قانون منظور کیا جو فلسطینیوں کے ساتھ کسی بھی امکانی سمجھوتے کی تفصیلات قوم کے سامنے لانے کا تقاضا کرتا ہے ۔ ریفرنڈم کا یہ قانون کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی روح کے منافی ہے ۔ ایسا سمجھوتہ صدر اوباما کی خارجہ پالیسی کی اولین ترجیح ہے اور یہی وجہ ہے کہ بحیثیت سربراہ مملکت انہوں نے پہلا غیر ملکی دورہ مصر کا کیا تھا ۔ جو اقلیتی ذہنیت پاکستان میں کارفرما ہے اور طالبان کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان ہونے کے باوجود دہشت گردی کئے جا رہی ہے وہی مشرق وسطیٰ میں کام کر رہی ہے ۔وہ اسرائیل پر بے نتیجہ راکٹ پھینکتے ہیں اور اسرائیلی طیارے جواب میں نتیجہ خیز بم برساتے ہیں ۔مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کا دوست دوسرا ملک اردن ہے مگر اسرائیلی بم باری سے اردن کا ایک جج مارا گیا جسے تل ابیب فلسطینی دہشت پسند کہتا ہے ۔
امریکہ میں لابیوں کی حکومت ہے جن کے عالیشان دفاتر کیپیٹل ہل پر موجود ہیں ۔کانگرس مین اور سینیٹر ان لابیوں کے زیر اثر ہیں ۔ووٹ کے لئے وہ رائے دہندگان کے دربار میں حاضر ہوتے ہیں اور ان کا بیشتر وقت اپنے عمل کو حالات کے تابع کرنے یا اپنے افعال کو ''متوازن‘‘ بنانے میں گزرتا ہے۔ کانگرس کے دونوں ایوانوں میں یہودیوں کی تعداد ملک میں ان کی آبادی کی نسبت تین گنا سے بھی زیا دہ ہے اور اکثر وہ حکومت کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔عوام کے جن نمائندوں نے جیوش لابی کی حکم عدولی کی جسارت کی اسے بیک بینی و دو گوش ایوان سے نکال باہر کیا گیا ۔اس سلسلے میں کلاسیکی مثال سینیٹر چارلس پرسی کی دی جاتی ہے جوسینٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے چیرمین تھے اور کمیٹی کو آزادانہ طریقے سے چلاتے تھے جسے جیوش لابی نے پسند نہیں کیا۔ 
کچھ نامور امریکی‘ یہودی شہریوں کے اس غلبے پرنالاں ہیں ۔ مثلاً دو فلمی شخصیتوں کو لیجیے۔ مارلن برانڈو نے کہا کہ ہالی وڈ یہود کے ناجائز قبضے میں ہے اور میل گبسن بولے کہ جنگیں شروع کرنے کے ذمہ دار یہودی ہیں۔ دونوں کو اپنے کہے پر معافی مانگنی پڑی ۔ البتہ جانا تھن پالڑڈ کے معا ملے میں دو امریکی اداروں میں تصادم ہو رہا ہے۔ پالڑڈ ایک اسرائیلی امریکی تھا اور عدالت نے اسے جاسوسی کے جرم میں عمر قید کی سزا دی تھی۔ جب بھی اسرائیل اور امریکہ میں فلسطین کے مسئلے پر بات ہوئی اسرائیلیوں نے پالڑڈ کی رہائی کا مطالبہ کیا اور امریکی کانگرس کے بہت سے ارکان نے اس کی تائید کی مگر محکمہ دفاع مُصر رہا کہ قانون شکنی خواہ دوست ملک کی جانب سے ہو اس پر سزا ہونی چاہیے۔ اب یہی لابی صدر اوباما کی خارجہ پالیسی پر نکتہ چینی کر رہی ہے کیونکہ وہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو مذاکرات کی میز پر دیکھنے کے خواہش مند ہیں ۔
''کیمپ ڈیوڈ‘‘ مشرق وسطیٰ کے متحارب فریقوں میں امن کی علامت بن گیا ہے اور کئی مبصر کہہ رہے ہیں کہ ایک امریکی صدر کو چاہیے کہ وہ بھارت اور پاکستان کے لیڈروں کو بھی کیمپ ڈیوڈ میں بند کرے اور جب تک وہ امن معاہدے پر دستخط نہ کردیں انہیں باہر نہ جانے دیا جائے۔ مشرق وسطیٰ ہو یا جنوبی ایشیا واشنگٹن کی پالیسی دوسری ہے ۔وہ فریقین کی مرضی کے بغیر ان کے باہمی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا تاوقتیکہ اس کا اپنا مفاد داؤ پر نہ ہو۔
خالد نبوی‘ انور سادات کا کردار ادا کرنے کے خیال پر ششدر تھے اور قدرے پریشان بھی جو قوم کو تقسیم کرنے والی شخصیت تھے۔ اسی طرح جیسے پاکستان میں ان کے ہم عصر صدر محمد ضیاالحق تھے۔ دوسرے اداکاروں نے بھی تحفظات کا اظہار کیا یہ کہتے ہوئے کہ وہ معاصر تاریخ کا بوجھ اٹھائے سٹیج پر جائیں گے ۔ران رفکن‘ مناخم بیگن کا کردار ادا کریں گے ۔ بیگن‘ اسرائیل کی برسر اقتدار جماعت‘ لی کُڈ کے بانی تھے وہ 1992 ء میں انتقال کرگئے اورتین سال بعد سادات کوتحریر سکوائر میں قتل کر دیا گیا ۔ڈرامے کے تیسرے بڑے کردار جمی کارٹر ہیں جنہیں صدارت کے عہدے کی دوسری مدت نصیب نہ ہوئی ۔ 
 
ایران کا اسلامی انقلاب انہی کے دور حکومت میں برپا ہوا اور عام خیال کے مطابق ان کی صدارت کو لے ڈوبا ۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے زوال میں مشرق وسطیٰ کے حالات کا بھی ہاتھ ہو ۔ تیرہ دن کے واقعات کو سٹیج پلے کی شکل دینے کا خیال ان کے معاون خصوصی اور دوست جیرلڈ رفشون کو آیا اور انہوں نے لارنس رائٹ سے رابطہ کیا جو اس زمانے میں واشنگٹن میں نیو یارک ٹائمز کے نامہ نگار تھے ۔ اس کھیل کے لئے ضروری مواد فراہم کرنے کے لئے وہ دونوں قاہرہ اور تل ابیب کے کئی چکر لگا چکے ہیں اور بہت سا وقت ریاست جارجیا میں سابق صدر کے گھر پر Plains میں گزارا ہے جہاں انہیں سرکاری کاغذات بالخصوص مسز کارٹر کی ڈائری دیکھنے کو موقع ملا ۔دو ہفتوں کا کھیل اکیس مارچ کو شروع ہو رہا ہے ۔
مسٹر رائٹ‘ صحافت کے علاوہ اداکاری اور ڈراما نویسی کے بھی مشتاق ہیں ۔چھ سال پہلے وہ کینیڈی سنٹر کی سٹیج پر ون مین شو کرتے دیکھے گئے تھے ۔My Trip to Al-Qaeda ان کی اپنی تصنیف The Looming Tower: Al-Qaeda and the road to 9/11 پر مبنی تھا جس پر انہیں پلٹزر انعام دیا گیا تھا۔ واشنگٹن میں ایرینا‘ کینیڈی اور فورڈ کے علاوہ درجنوں تھیٹر ہیں جن میں داخلے کا ٹکٹ ' سنیما گھر سے سات آٹھ گنا زیادہ ہو تا ہے ۔لارنس رائٹ کی تحریر بہت متوازن اور معروضی ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ جو ں جوں شہر کا طبقہ اشرافیہ اس کھیل کو دیکھے گا دنیا میں رواداری اور تحمل کی کوشش آگے بڑھے گی ۔ تاہم ایسے تاریخی واقعات پرمبنی non-fiction ڈرامے کچھ اچھی شہرت نہیں رکھتے ۔صدر کارٹر اور ان کی اہلیہ شو کے افتتاح میں مدعو تھے ۔
 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved