تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     21-03-2014

چلیں پگ بچ گئی!

مجھے علم نہیں تھا کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے اپنے دور میں پس ماندہ علاقوں میں اور کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن کارڈیالوجی ہسپتال ضرور بنائے یا بنانے کی کوشش کی تھی ۔ اس کے علاوہ ان کا ایمرجنسی سروس شروع کرنے کا کام بھی ایسا ہے جس پر انہیں داد ملتی رہے گی ۔
ایک دفعہ میں نے چودھری پرویز الٰہی کی حکومت کے خلاف کالم لکھا تو گائوں سے میری بہن جو وہاں سکول میں پڑھاتی ہے‘ کا فون آیا کہ دوبارہ مت لکھنا۔ میں حیران ہوا کہ گائوں سے اس کی سفارش کیوں کی جا رہی ہے۔ بولی: تمہیں شاید علم نہیں ہوگا کہ چودھری پرویز الٰہی کے دور میں اساتذہ کی تنخواہیں سب سے زیادہ بڑھی تھیں۔ اگر اگلی دفعہ لکھا تو پھر ادھر کا رخ نہ کرنا اور میں پورا ایک سال گائوں نہیں گیا تھا۔ 
میرے شہر لیہ میں ہی چودھری پرویز الٰہی ایک بڑے ہسپتال کے لیے نہ صرف پیسے دے چکے تھے بلکہ اس پر کام بھی شروع ہوچکا تھا لیکن جب موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب لندن سے تشریف لائے تو انہوں نے فوراً نہ صرف لیہ کے اس ہسپتال پر کام رکوا دیا بلکہ اس کے فنڈز بھی لاہور منگوا لیے گئے۔ وہ ادھورا ہسپتال اب محض ایک ایمرجنسی وارڈ کا کام کر رہا ہے۔ لاہور کو پیسوں کی زیادہ ضرورت تھی ۔ لیہ کا کیا ہے، چل ہی رہا ہے‘ نہ بھی چلے تو کون سا لاہور رک جائے گا ۔ 
اپنے گائوں میں بیٹھے ہوئے ڈاکٹر جاوید اقبال کنجال کہنے لگے: بھائی‘ اگر پرویز الٰہی دور میں ملتان میں کارڈیالوجی سینٹر نہ بنتا تو شاید اس وقت جنوبی پنجاب میں آدھے سے زیادہ دل کے مریض مر چکے ہوتے۔ یہ اور کہانی ہے کہ ملتان کے اس سینٹر کے سالانہ فنڈز کے ساتھ لاہوری بابوئوں نے کیا کھیل کھیلا ہے۔ وہ کہانی پھر سہی۔ وزیرآباد سے قمر سجاد نے لکھ بھیجا 
ہے کہ کیسے اربوں روپے کے جدید کارڈیالوجی سینٹر کا حشر موجودہ پنجاب حکومت نے اس لیے کر دیا ہے کہ وہ پرویز الٰہی نے بنوایا تھا۔ لیہ سے واپسی پر رات گئے تلہ گنگ کے قریب ایک ہوٹل پر کھانے کے لیے رکا تو تین نوجوان تصور اقبال، آصف خان اور ملک ریاض الحسن نے پکڑ لیا۔ کہنے لگے‘ ہمیں آپ سے شکایت ہے۔ آپ اپنے کالموں میں سرائیکی علاقوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر کھل کر بات کرتے ہیں اور رولا ڈالتے ہیں لیکن جو کچھ تلہ گنگ جیسے علاقوں کے ساتھ ہورہا ہے، اس پر آواز نہیں اٹھاتے۔ 
تصور اقبال بولا: تلہ گنگ میں کہاوت مشہور ہے۔ پہلے میٹرک کریں، پھر اپنا قد پانچ فٹ پانچ انچ تک بڑھائیں اور پھر کوئی تگڑا سفارشی رقعہ ڈھونڈیں کیونکہ چھوٹی موٹی سفارش پر کوئی اعلیٰ اداروں میں نوکری نہیں دے گا۔ اس نے بتایا کہ اس کا باپ ایک اعلیٰ ادارے میں کام کرتا تھا۔ جب وہ ریٹائرہو کر گھر لوٹا تو اس نے اپنی پنشن کے سارے پیسے مجھے دے کر کہا‘ بیٹا جائو کاروبار شروع کرو۔ بیٹا بولا‘ لیکن باقی سب لوگ تو آپ والے ادارے میں جاتے ہیں ۔ باپ بولا‘ نہیں بیٹا تم وہاں نہیں جائو گے۔ مجھے علم ہے کتنی مشکل زندگی ہے۔ خود میں نے جیسے تیسے کر کے گزار لی ہے‘ تم جائو اور کاروبار کرو ۔ اب وہی تصور اقبال تلہ گنگ شہرمیں ہارڈوئیر کا اچھا کاروبار کرتا ہے۔ 
تلہ گنگ کی کہانی شروع ہونے پر میں نے کہا: تو پھر یہاں کے نوجوان کیسے تگڑی سفارش تلاش کرتے ہیں۔ بولا‘ تلہ گنگ میں ایک صاحب ہیں جنہوں نے اپنے دور میں تلہ گنگ کے ہر اس نوجوان کو نوکری لے کر دی جو ان تک پہنچ گیا۔ ایک عورت اپنے خاوند کے ساتھ ان کے گھر گئی کہ اس کے میٹرک پاس بیٹے کو بھرتی کرادو۔ انہوں نے اس کی درد بھری کہانی سن کر کہا کہ کیوں نہ نوجوان باپ اور بیٹے دونوں کو بھرتی کرایا جائے اور وہی ہوا کہ انہوں نے دونوں کو بھرتی کرادیا۔ 
مجھے خوشی ہوئی کہ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے لوگ کسی کی برائی کا پرچار تو عمر بھر کرتے ہیں لیکن اچھائی دوسرے لمحے بھول جاتے ہیں۔ یہ تینوں نوجوان کافی دیر تک مجھے سلطان سروخر اعوان کی باتیں بتاتے رہے کہ انہوں نے اپنے علاقے کے لیے کیا کچھ کیا تھا اور بعد میں انہیں علاقے کے لوگوں نے ایم پی اے بنایا تھا۔ اب تصور اقبال اور اس کے دوستوں کو دُکھ تھا کہ الیکشن کے موقع پر میاں نواز شریف اور دیگر نے تلہ گنگ کے لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے ضلع بنائیں گے لیکن کسی نے مڑ کر نہیں دیکھا ۔ میں نے انہیں بتایا‘ میں تلہ گنگ سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور کالم نگار کے کالم پڑھتا رہتا ہوں۔ جیسے میں جنوبی پنجاب کا رونا روتا ہوں، وہ بھی اکیلے تلہ گنگ کا رونا روتے رہتے ہیں اور اُن سے جو بن پڑتا ہے وہ کرتے ہیں لیکن لگتا ہے کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز اب کوئی سننے کو تیار نہیں ہے۔ تصور اقبال نے کہا‘ ایک اور مشہور کالم نگار عبدالقادر حسن بھی کبھی کبھار پوٹھوہار کے مسائل پر لکھتے ہیں۔ 
میں نے تصور اقبال سے کہا: مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ پوٹھوہار کی بہادر دھرتی کا مقدمہ لڑنے کو کوئی تیار نہیں۔ میں نے کئی مرتبہ ڈاکٹر بابر اعوان سے کہا اور وہ تیار بھی ہوگئے تھے کہ پوٹھوہار کی دھرتی کے ساتھ ہونے والے بدترین سلوک پر یہاں کے لیڈروں کو آواز اٹھانی چاہیے۔ انہیں اس سال پنجاب کو این ایف سی کے سات سو ارب روپے میں سے اپنے لیے دو سو ارب مانگنے چاہئیں۔ میں جب سے سرائیکی سے پوٹھوہاری دھرتی پر شفٹ ہوا ہوں‘ میں بھی اس کا دکھ درد سمجھتا ہوں۔ مجھے بڑا شوق ہے کہ میرے بچے پوٹھوہاری زبان سیکھیں کیونکہ جس علاقے میں آپ رہتے ہوں‘ وہاں کی زبان اور کلچر کو بھی آپ کو اپنی زندگیوں کو حصہ بنانا چاہیے۔ آپ کو مہاجر بن کر نہیں رہنا چاہیے۔ مجھے اب بھی پوٹھوہار کا بہادر سپوت راجہ پورس اپنا ہیرو لگتا ہے جس نے سکندر سے ٹکر لے لی تھی اور ایران کے دارا کی طرح میدان سے نہیں بھاگا تھا۔ پوٹھوہا ر کی دھرتی کے گکھڑ قبائل نے مغلوں کو ہندوستان پر آرام سے حکومت نہیں کرنے دی تھی۔ لیکن وہی سکندر سے مغلوں تک ٹکر لینے والا پوٹھوہار آج یتیم ہوچکا ہے۔ ہر نوجوان میٹرک کی ڈگری ہاتھ میں لیے، روزانہ اپنا قد ماپنے کے ساتھ ساتھ ایک تگڑی سفارش ڈھونڈ رہا ہے۔ 
تصوراقبال نے بتایا کہ پرویز الٰہی دور میں سب سے پرانی تحصیل تلہ گنگ میں بہت کام ہوا‘ یہاں تک کہ چودھری پرویزالٰہی نے وہیں سے الیکشن لڑا اور چند سو ووٹوں سے ہار گئے۔ میں نے حیران ہوکر پوچھا‘ پرویز الٰہی نے کون سے تلہ گنگ میں کام کیا تھا ۔ بولے‘سب کو پتہ ہے کہ انہوں نے یہاں کیا کیا کام کیا تھا ۔ ہسپتال بن رہا تھا اور دیگر چند کام بھی اس نے گنوانے شروع کر دیے۔ 
''تو وہ ہار کیوں گئے؟‘‘ میں نے تصوراقبال سے پوچھا۔ 
تصور تھوڑا سا شرما کر بولا‘ ''وہ جی دراصل بات یہ ہے‘ یہاں پر تلہ گنگ میں ایک نعرہ چل گیا تھا کہ اگر پرویز الٰہی جیت گیا تو پھر ہماری پگ گجرات چلی جائے گی ۔ اس لیے تلہ گنگ کے لوگوں نے مل کر اپنی پگ کو گجرات نہیں جانے دیا‘ وگرنہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں ہمارے ہاں کام بہت ہوئے تھے اور انہیں جیتنا چاہیے تھا‘‘۔ 
میں نے کہا‘ ''تصور اقبال‘ چلیں سودا برا نہیں ہے، تلہ گنگ کے لوگوں نے اپنی پگ گجرات نہیں جانے دی۔ آپ لوگ یا پگ بچاتے یا پھر جس نے تلہ گنگ میں کام کرایا‘ اسے جتوا کر شکریہ ادا کرتے۔ آپ نے پگ کو ترجیح دی۔ باقی رہی بات تلہ گنگ کو ضلع بنانے کے وعدوں اور ترقی کی یا یہاں نوکریاں دینے کی‘ تو یہ کوئی اتنے ضروری کام نہیں تھے۔ ضروری کام وہی تھا جو آپ لوگوں نے کیا تھا‘‘۔ 
تصور نے میرے طنز کو سمجھے بغیر حیرانی سے پوچھا‘ ''کون سا ضروری کام؟‘‘ 
میں نے کہا‘ ''آپ لوگوں نے تلہ گنگ کے روایتی سردار ٹمن کو جتوا کر اپنی پگ گجرات نہیں جانے دی ، اسے آپ معمولی کام سمجھتے ہو؟ آپ لوگوں نے درست فیصلہ کیا ۔ ہمارے سروں کے مالک ان سرداروں، ٹمنوں، خانوں، ملکوں، چوہدریوں اور مہروں کی پگ سلامت رہنی چاہیے، جو تلہ گنگ کے لوگوں نے جانتے بوجھتے تخت ِلاہور کے نالائق مقامی لیڈروں کو جتوا کر بڑی محنت سے بچا لی تھی‘‘!! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved