کہتے ہیں چوری کا گڑ زیادہ میٹھا ہوتا ہے۔چونکہ آفتاب سے چوری گیا تھا‘ شاید اس لیے اس مشاعرے کا مزہ بھی کچھ زیادہ ہی آیا کیونکہ اس کے خیال میں میں نے اب تک کافی مشاعرے پڑھ لیے ہیں‘ نیز میں کچھ اتنا تندرست بھی نہیں ہوں کہ ادھر ادھر بھاگتا پھروں۔اس ادارے کے ساتھ میرا ایک تعلق یہ بھی ہے کہ میرے والد یہاں پر ہاکی اور فٹ بال‘دونوں ٹیموں کے کیپٹن ہوا کرتے تھے۔مشاعرے سے پہلے طلبہ کے درمیان شاعری کا مقابلہ ہو چکا تھا جس کے ''چیف جسٹس ‘‘شعرائے فیصل آباد کے سردار مقصود وفا تھے۔ یہ مقابلہ جون ایلیا کے ایک مصرعے کی طرح پر تھا۔ جس میں دیگر یونیورسٹیوں کے طلبہ نے بھی بھر پور حصہ لیا۔
مشاعرے میں ہم پانچ چھ لوگ لاہور سے تھے اور کم و بیش اتنے ہی مقامی حضرات ۔نذیر قیصر اور تیمور حسن تیمور نے تو سماں ہی باندھ دیا۔یہاں تک کہ مشاعرے کے تقریباً اختتام پر وائس چانسلر نے تیمور کو دوباہ مائیک پر آنے کی دعوت دی۔بصارت سے محروم اس باکمال شاعر کے یہ دو شعر ہی یاد رہ گئے:
میں نے دیکھا نہیں محسوس کیا ہے تجھ کو
تیری اندازے سے تصویر بنا سکتا ہوں
اے قہقہے بکھیرنے والے! تو خوش بھی ہے؟
ہنسنے کی بات چھوڑ‘ کہ ہنستا تو میں بھی ہوں
نذیر قیصر سے فرمائش کر رکھی ہے‘جونہی ان کا کلام دستیاب ہوتا ہے‘پیش کروں گا۔کچھ اور شعر جو یاد رہ گئے:
مجھے تخریب بھی نہیں آئی
توڑتا کچھ ہوں‘ ٹوٹا کچھ ہے
(مقصود وفا)
جو میں اندر سے باہر آ گیا ہوں
تو کیا منظر سے باہر آ گیا ہوں
مجھے للکارنے والو‘ کہاں ہو؟
میں اپنے گھر سے باہر آ گیا ہوں
(علی زریون)
جو تیرے مرے درمیاں میں نہیں
محبت‘ سنا ہے‘ وہی چیز ہے
(ادریس بابر)
وہیں بیٹھ کر استاد ریاض مجید‘انجم سلیمی‘اشرف یوسفی‘ عماد اظہر اور ثنااللہ ظہیر کو یاد کیا۔عماد اظہر کے بارے میں معلوم ہوا کہ شادی کروا کر اسلام آباد چلے گئے ہیں‘ حالانکہ اسلام آباد ویسے بھی جایا جا سکتا ہے۔یاد آیا کہ نذیر قیصر کے ہمراہ‘اہلیہ کے علاوہ ان کی بیٹی بھی تھی جو شاعرہ ہے‘ اس کا کلام بھی سنا گیا۔
عابد ملک
اس نوجوان شاعر کا تعلق میانوالی سے ہے۔اس کا کلام سن کر فرمائش کی اور کچھ تازہ چیزیں حاصل کیں:
کون کہتا ہے کہ وحشت مرے کام آئی ہے
یہ کوئی اور اذیت مرے کام آئی ہے
یوں ہی میں تیرتا پھرتا نہیں صحرائوں میں
ایک دریا کی نصیحت مرے کام آئی ہے
ورنہ جنت سے کہاں مجھ کو نکالا جاتا
جو نہیں کی‘ وہ عبادت مرے کام آئی ہے
آخر کار ترا ہجر میسر آیا
اب کہیں جا کے محبت مرے کام آئی ہے
دشت میں اس کا آب و دانہ ہے
عشق ہوتا ہی صوفیانہ ہے
میں غلط وقت پر ہوا بیدار
یہ کسی اور کا زمانہ ہے
ریت پیغام لے کے آئی ہے
دشت میری طرف روانہ ہے
اے خدا ایک بار مل مجھ سے
یہ تعارف تو غائبانہ ہے
زمیں کے غرب سے سورج طلوع کرتا ہوں
اور اختتام کا قصہ شروع کرتا ہوں
مری گلی مری وحشت سمجھ نہیں پائی
سو اب تمہاری گلی سے رجوع کرتا ہوں
میں نے لوگوں کو‘ نہ لوگوں نے مجھے دیکھا تھا
صرف اس رات اندھیروں نے مجھے دیکھا تھا
پوچھتا پھرتا ہوں میں اپنا پتہ جنگل سے
آخری بار درختوں نے مجھے دیکھا تھا
اس لیے کچھ بھی سلیقے سے نہیں کر پاتا
گھر میں بکھری ہوئی چیزوں نے مجھے دیکھا تھا
بڑے سکون سے افسردگی میں رہتا ہوں
میں اپنے سامنے والی گلی میں رہتا ہوں
اس سے پہلے کہ یہی کام زمانہ کر دے
مان لے بات مری‘ مجھ کو روانہ کر دے
کچھ اس طرح مرے ہمراہ رتجگا رہے گا
میں سو بھی جائوں تو اک خواب جاگتا رہے گا
زمیں کا دائرہ پانی سے بھرتا جائے گا
کہیں کہیں کسی صحرا کا نقش پا رہے گا
میں روز بھیجوں گا دریا کے ہاتھ ایک دیا
اسی بہانے کناروں سے رابطہ رہے گا
تمہارے بعد بھی آخر بہار آئے گی
سو میرا ہجر ہمیشہ ہرا بھرا رہے گا
اسی درخت کی صحبت میں دن گزاریں گے
اسی فقیر سے اپنا مکالمہ رہے گا
ابھی سے اس میں شباہت مری جھلکنے لگی
ابھی تو دشت میں دو چار دن گزارے ہیں
ہمارا باردگر خود سے رابطہ ہوا ہے
کہ ہم نے صورت پر کار دن گزار ے ہیں
تمہارے بعد بھی ہم پر ہوئی ہے خاص عطا
تمہارے بعد بھی بے کار دن گزارے ہیں
ہماری عمر سے راتیں نکال لی گئی ہیں
اسی لیے تو لگاتار دن گزارے ہیں
آنکھ کی ٹہنی پہ کملایا ہوا
ہے کسی کا خواب مرجھایا ہوا
کوئی خاموشی جلاتی تھی مجھے
پھر تری آواز کا سایا ہوا
گلے لگائے مجھے‘ میرا رازداں ہو جائے
کسی طرح یہ شجر مجھ پر مہرباں ہو جائے
یہ زخم ایسے نہیں ہیں کہ جو دکھائوں تمہیں
یہ رنج ایسا نہیں ہے کہ جو بیاں ہو جائے
پھر یوں ہوا کہ شوق سے کھولی نہ میں نے آنکھ
اک خواب آ گیا تھا میری خوابگاہ میں
اس بار کتنی دیر یہاں ہوں‘ خبر نہیں
آ تو گیا ہوں پھر سے تری بارگاہ میں
سنا رہا ہوں کسی اور کو کتھا اپنی
کھڑا ہوا ہے کوئی اور آدمی مرے ساتھ
سفر میں پیڑ کا سایہ نہیں ملے گا مجھے
بس اتنا سنتے ہی دیوار چل پڑی میرے ساتھ
اس شاعر نے مجھے حیران بھی کر دیا ہے اور پریشان بھی کہ غزل میں ابھی اتنے امکانات موجود ہیں۔
آج کا مطلع
آنکھوں آنکھوں میں دوبالا ہوا تو
کن ہوائوں کا ہے پالا ہوا تو