رمیش کراچی میں میرے والدین کے پرانے گھر میں گزشتہ پچیس سال سے صفائی کا کام کر رہا ہے۔ وہ بہت ہی خوش مزاج اور ملنسار ہے؛ تاہم جب میں نے اُسے حال ہی میں ''ہولی مبارک‘‘ کہا تو اُس نے اداسی سے جواب دیا کہ اُس کے رشتے داروں نے اس مرتبہ ہولی کا تہوار نہیں منایا کیونکہ لاڑکانہ میں ہجوم نے ایک مندر جلا ڈالا تھا۔ یہ افسوسناک واقعہ ہمیں ایک مرتبہ پھر یاد دلاتا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے لیے جگہ تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے بلکہ یوں کہہ لیںکہ یہاں مخصوص طبقات کے سوا کسی کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ یہ ایک تلخ لیکن ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اگر آپ کی سوچ مرکزی گروہ کے عقیدے سے مختلف ہے تو پھر آپ دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر رکھنے کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔
یہ صرف ریاست ہی نہیں جو معاشرے کے نسبتاً کمزور اور ظلم کا شکار افراد کی دادرسی کرنے میں ناکام رہتی ہے بلکہ میڈیا بھی‘ جس کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ اس میں لبرل اور تعلیم یافتہ افراد پائے جاتے ہیں، ان کے حال سے لاتعلق رہتا ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال بلوچستان سے گم شدہ افراد کے اہل خانہ کا طویل مارچ تھا جس کو میڈیا نے درخورِ اعتنا نہ گردانا۔ یہ ایک فقیدالمثال مارچ تھا، تقریباً تیس مردوں، عورتوں اور بچوں نے کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد تک مارچ کیا۔ اس دوران اُنہوں نے جسمانی مشقت، موسم کی سختی اور بھوک پیاس کے علاوہ بعض اداروںکی طرف ملنے والی دھمکیوں کو بھی برداشت کیا۔ ان کو صرف اُن لوگوںکی طرف سے میزبانی کی سہولت ملی جو اس دبائو کو برداشت کر سکتے تھے۔
مجھے یقین ہے کہ اگر کسی مخصوص علاقے سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد اپنے عزیزواقارب کو کسی جیل سے رہائی دلانے جیسے مطالبات کے لیے ایسا کوئی سفر اختیار کرنے پر مجبور ہوتے تو انہیں خاصی میڈیا کوریج ملتی؛ تاہم بلوچ افراد کو جس مسئلے کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنی قوم پرستی کے جذبے کے تحت جدوجہد کر رہے ہیں، جس کی بنا پر اُنہیں دہشت گرد سمجھا جاتا ہے۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ بلوچ ناراض گروپوں کی طرف سے غیر بلوچ آباد کاروں، غریب مزدوروں اور دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے کئی نسلوں سے بلوچستان میں مقیم افراد کو چن چن کر ہلاک کرنے سے وہ عوامی ہمدردی سے محروم ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچ قوم پرستوں پر یہ الزام بھی تواتر سے لگایا جاتا ہے کہ بھارت ان کی پشت پناہی کر رہا ہے؛ تاہم اگر وہ کسی اور مقصد کے لیے جنگ کر رہے ہوتے تو شاید پھر حکومت کا رویہ مختلف ہوتا۔ غالب گمان یہ ہے کہ پھر ان پر اتنی سختی نہ کی جاتی۔
درحقیقت گم شدہ افراد کا طویل عرصے سے موجود مسئلہ ہمارے ملک کے ایک جمہوری ریاست ہونے، انسانی حقوق کی پاسداری اور آئین اور قانون کی حکمرانی کے دعوے پر ایک بدنما داغ ہے۔ اس کے باوجود اس صوبے میں عام بلوچ عوام کو درپیش مسائل کی میڈیا کوریج نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ بلوچ ناراض گروپوں کی تحریک کو ملک کے دیگر صوبوں کے عوام کی حمایت حاصل نہیں اور پھر اُنہیں ملک دشمن عناصر کے آلہ ٔ کار کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بلوچ پاکستان کے معاشرے میں گھل مل کے نہیں رہتے، اس لیے اُنہیں سول سوسائٹی اور میڈیا سے تعاون نہیں ملتا۔ دوسری طرف صحافی بھائیوں کو بھی شکوہ ہے کہ یہ صوبہ ان کے لیے ''نو گو‘‘ ایریا بن چکا ہے۔ اس کے جواب میں قوم پرستوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن کچھ مختلف تنظیموںکے کارکنوں کو اس سختی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ یوں لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں انصاف تو کجا، طاقت کا استعمال بھی غیر جانبدارانہ نہیں ہوتا۔
کچھ ناخوشگوار حقائق ہیں جن پر ہم مٹی ڈالنا ہی بہتر سمجھتے ہیں کیونکہ ملک میں کچھ طبقات کی اکثریت ہے۔ غالباً اسی لیے کراچی اور بلوچستان میں تو آپریشن کا فیصلہ آسانی سے کر لیا جاتا ہے لیکن فاٹا یا جنوبی پنجاب میں موجود عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کرنے سے پہلے کئی بار سوچنا پڑتا ہے۔ 1983ء میں جنرل ضیاء نے بلا تامل طاقت سے ایم آر ڈی کو سندھ میں کچل دیا لیکن جب 1977ء میں لاہور میں پی پی پی مخالف مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کی نوبت آئی تو صورتحال کچھ اور تھی۔ اگرچہ اس بات کو چار دہائیاں بیت چکی ہیں اور پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے لیکن دنیا کو مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ڈھائے جانے والے مظالم یاد ہیں‘ لیکن ہمارے ملک میں اس پر بات کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا بلکہ یہ ہمارے معاشرے کا موضوع بھی نہیں رہا، لیکن اس پر لب کشائی کی جائے یا نہ کی جائے، قوت کے استعمال میں تعصب برتا جاتا ہے۔ اگر آپ ریاست کے باغی ہیں لیکن آپ نے مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے تو ممکن ہے نرمی اختیار کی جائے لیکن اگر آپ اپنے سیاسی حقوق کی بات کریں (اس پر بحث ہو سکتی ہے کہ وہ درست ہیں یا غلط) اور اگر آپ کا تعلق معاشرے کے مرکزی دھارے سے نہ ہو تو سمجھ لیں آپ پر مصائب کا جہنم کھل جائے گا۔ بلوچ گروپوں کو بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر اُنہوں نے پُرتشدد کارروائیاں بند نہ کیں تو وہ پاکستانی عوام کی حمایت حاصل نہیں کر پائیں گے اور ریاست کے پاس اتنی قوت بہرحال موجود ہے کہ وہ کسی صوبے کو علیحدہ ہونے سے روک سکے۔ عقل مندی کا تقاضا ہے کہ انتہائی رویوں کی بجائے سیاسی طور پر مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ حقوق اور خود مختاری کی بات کی جائے۔ بلوچ بھائی اس بات کی تفہیم جتنا جلدی کر لیں گے، اتنا ہی بہتر ہو گا۔