ڈیم نہ بنے تو 2020ء تک پاکستان
قحط کا شکار ہو سکتا ہے... عابد شیر
وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے کہا ہے کہ ''ڈیم نہ بنے تو 2020ء تک پاکستان قحط کا شکار ہو سکتا ہے‘‘ لیکن ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں ہے کیونکہ ہم زندہ قوم ہیں‘ قحط ہمارا کیا بگاڑ سکتا ہے‘ اور تھر میں قحط پڑا تو اس نے ہمارا کیا بگاڑ لیا ہے جبکہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے‘ اور اگر کسی نے قحط سے ہی مرنا ہے تو وہ کسی بیماری یا حادثے سے نہیں مر سکتا بلکہ مرنے والوں کا غم غلط کرنے کے لیے وہاں دوروں کے موقع پر انواع و اقسام کے کھانوں کا اہتمام بھی ہو جاتا ہے‘ نیز اگر 2020ء میں قحط آ بھی گیا تو اس وقت تک ہم تو فارغ ہو چکے ہوں گے اور پیپلز پارٹی والے اپنی باری لے رہے ہوں گے‘ وہ جانیں اور قحط۔ انہوں نے کہا کہ ''کنڈا کنڈا ہوتا ہے‘ پنجاب میں ہو یا کسی اور صوبے میں‘‘ البتہ پنجاب میں بجلی اور گیس سے اس طرح کا استفادہ زیادہ تر بڑے صنعتکار کرتے ہیں جن کے تانے بانے اِدھر اُدھر سے حکومت کے ساتھ بھی ملے ہوتے ہیں چنانچہ حقوق العباد کے حوالے سے ان کے خلاف کچھ کرنا اخلاقی طور پر بھی نامناسب ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کر رہے تھے۔
ٹائیگر کی ہلاکت پر انتظامیہ سے
بازپرس کی ہے... حمزہ شہباز
ن لیگ کے مرکزی رہنما اور رکن قومی اسمبلی حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''ٹائیگر کی ہلاکت پر انتظامیہ سے باز پرس کی ہے‘‘ کیونکہ یہ ہمارا پارٹی نشان بھی ہے‘ اس لیے اس کی ہلاکت ہرگز برداشت نہیں کی جا سکتی‘ البتہ جو بلا تایا جان کی رہائش گاہ سے ایک قیمتی مور کو کھا گیا تھا وہ خود ہی اپنے انجام کو پہنچ گیا تھا اور پولیس مقابلے میں مارا گیا جس کی ہماری بہادر پولیس سے توقع بھی کی جاتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ''سفاری پارک میں نئے جانور لائے جائیں گے‘‘ کیونکہ چڑیا گھروں میں جس رفتار سے جانور ہلاک ہو رہے ہیں اس کا بھی تقاضا ہے کہ ہر سال ان جانوروں میں اضافہ کیا جاتا رہے تاکہ یہ کمی ساتھ ساتھ پوری ہوتی رہے جبکہ ان کی انتظامیہ سے گزارش کی گئی ہے کہ براہ کرم ان کا راشن خود نہ کھا جایا کریں کیونکہ زیادہ تر جانوروں کے بھوک سے مرنے کی بھی اطلاعات ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ تھرپارکر کی طرح چڑیا گھروں میں بھی قحط ہی کی سی صورت حال پیدا ہو رہی ہے بلکہ چولستان میں بھی اس کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں حالانکہ حکومت کے کارہائے نمایاں و خفیہ بالعموم ظاہر نہیں ہونے دیے جاتے۔ آپ اگلے روز لاہور میں سفاری پارک کا دورہ کر رہے تھے۔
حلقہ بندیوں کا اختیار الیکشن کمیشن
کو دینا خوش آئند ہے... منظور وٹو
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد خاں وٹو نے کہا ہے کہ ''حلقہ بندیوں کا اختیار الیکشن کمیشن کو دینا خوش آئند ہے‘‘ اگرچہ چاروں طرف کچھ غیر خوش آئند اقدامات کی بھی اطلاعات آ رہی ہیں جن میں جناب قمر زمان کائرہ کو میری جگہ لگانے کی افواہ سرفہرست ہے حالانکہ میں غریب تو ایک طرف بیٹھا دہی کے ساتھ روٹی کھا رہا ہوں‘ کسی کا کیا لیتا ہوں اور حکومتی میعاد ختم ہونے کا سوگ ہی ختم نہیں ہوا تھا کہ مرے کو مارے شاہ مدار کی صورت میں یہ ظلم بھی ڈھایا جا رہا ہے حالانکہ یہ عہدہ بجائے خود اس قدر خشک اور بیہودہ ہے کہ اسے قبول کرنا ویسے بھی بڑے دل گردے کا کام ہے اور کائرہ صاحب کو اپنے دل اور گردے بُرے وقتوں کے لیے سنبھال کر رکھنے چاہئیں جو کسی وقت بھی آ سکتا ہے جس طرح میں فی الحال تو نیب والوں سے بچا ہوا ہوں لیکن آخرتابہ کے ؟ انہوں نے کہا کہ ''حکومت سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کرے تاکہ 15 نومبر تک انتخابات کروائے جا سکیں‘‘ اور معزولی کی صورت میں خاکسار کو کسی اور لالچ لگنے کا موقع مل سکے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
پرویز مشرف کے خلاف الزامات
مضحکہ خیز ہیں... راشد قریشی
سابق صدر پرویز مشرف کے ترجمان راشد قریشی نے کہا ہے کہ ''پرویز مشرف کے خلاف الزامات مضحکہ خیز ہیں‘‘ اور میں آج تک ان پر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہا ہوں کیونکہ اس قدر قہقہہ آور الزامات زندگی میں پہلی بار دیکھنے کو ملے ہیں جبکہ سابق صدر بھی ان پر ہروقت ہشاش بشاش رہتے ہیں کیونکہ سب کی طرح وہ بھی جانتے ہیں کہ ایسے الزامات کا انجام بالآخر کیا ہونا ہے، البتہ فی الحال یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہیں لینے کے لیے کوئی ہیلی کاپٹر اُترے گا یا ہوائی جہاز‘ جس پر وہ کمانڈر ہونے کی وجہ سے جمپ لگا کر ہی سوار ہوں گے اور جمپ لگا کر ہی اُتریں گے جبکہ یہ تو ہماری درخشاں روایات ہیں جنہیں الزامات کا نام دیا گیا ہے اور اگر خدا نے چاہا تو ان روایات کی پاسداری آئندہ بھی کی جاتی رہے گی کیونکہ آخر یہ ڈسپلن کا معاملہ ہے اور اس سلسلے میں کوتاہی ہرگز نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ''امریکہ کو دس سال افغانستان میں رہ کر شکست ہوئی اور وہ اپنے عوام کو جواب دینے سے قاصر ہے‘‘ لہٰذا جنرل صاحب سے کسی بات کا جواب کیسے طلب کیا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
وزیراعظم طالبان کو نقصان نہ پہنچانے
کی ضمانت دیں... مولانا سمیع الحق
طالبان کی نامزد کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم طالبان کو نقصان نہ پہنچانے کی ضمانت دیں‘‘ کیونکہ وہ ہمیںنقصان پہنچانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ اگرچہ ان کا مقصد ملک بھر پر قبضہ کر کے اس پر مکمل اسلام نافذ کرنا ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ مذاکرات کے دوران ہم انہیں اس بات پر آمادہ کر لیں گے کہ وہ فاٹا وغیرہ‘ یعنی اس علاقے پر اکتفا کر لیں جو واقعتاً ان کے زیر انصرام ہے‘ اور اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑے گا کیونکہ اس علاقے پر تو حکومت کی رٹ پہلے ہی موجود نہیں ہے اور ہم نے ان پر یہ پھوکا احسان ہی کرنا ہے جبکہ یہ بات تو ایک بیوقوف سے بیوقوف آدمی بھی اچھی طرح سے سمجھتا ہے کہ ان حضرات نے یہ اتنی خون آشام سرگرمیاں محض باتوں ہی پر راضی ہو جانے کے لیے شروع نہیں کی تھیں اور مذاکرات کا اصول بھی یہی ہے کہ کچھ حاصل کر کے ہاتھ سے کچھ دینا بھی پڑتاہے جبکہ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ بعض مذہبی و سیاسی جماعتیں بھی شروع سے یہی تحریک چلا رہی ہیں اور طالبان سے پوری طرح سے متفق ہیں اور اس وقت میں ماشاء اللہ ان کی ترجمانی ہی کر رہا ہوں۔ آپ اگلے روز ملتان میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
آج کا مقطع
میرے اندر ہی اندھیرے ہیں کچھ اتنے کہ ظفرؔ
یہ جو دن ہے میں اسے شام بھی کر سکتا تھا