تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     22-03-2014

اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

ڈالر پر تازہ ترین ''وختا‘‘ شیخ رشید کی مہربانی تھا۔ موصوف نے اعلان کیا تھا کہ جیسے ہی ڈالر کی قدر 100 روپے سے نیچے آئے گی وہ قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوجائیں گے۔ یہ بات وزیر خزانہ نے دانتوں سے پکڑ لی۔ انہوں نے سوچا موقع اچھا ہے، تھوڑی سی شوشا ہوجائے گی اور شیخ صاحب کی مارکیٹ ویلیو بھی گھٹ جائے گی۔ منصوبہ تیار ہوا، پھر اُس پر عمل کیا گیا۔ ڈالر کو ''دھوبی پٹخا‘‘ دے کر گرادیا گیا۔ لوگ انگشت بہ دنداں رہ گئے۔ جس کا سوچا نہ تھا وہ ہوگیا۔ ڈالر اور مُنہ کے بل گر جائے؟ مگر جو کچھ ہو رہا تھا اور دکھائی بھی دے رہا تھا اُس پر یقین تو کرنا ہی پڑا۔ ڈالر اچانک 98 روپے کی سطح پر آگیا۔ میڈیا والے حیران تھے کہ روپے کی ''قدر‘‘ میں اضافے کا جشن منائیں یا شیخ صاحب کے لَتّے لیں۔ بعض اخبار نویس اور اینکرز پریشان دکھائی دیئے کہ اگر منتخب ایوان میں شیخ صاحب ہی نہ ہوں گے تو کیا خاک لطف آئے گا سیاسی بحث کا۔ شیخ صاحب بھی کون سے گئے گزرے ہیں کہ اپنی ہی باتوں میں آجائیں۔ کون ہے جو اُن سے جیتے۔ اسحاق ڈار یہ سوچ کر خوش تھے کہ ایک بار ڈالر نیچے آگیا تو شیخ صاحب کو ٹھکانے لگادیں گے۔ مگر شیخ صاحب کون سے کچی گولیاں کھیلے ہیں۔ مستعفی ہونا رہا ایک طرف، اُنہوں تو اُلٹا حکومت کو دھمکی دے دی کہ مستعفی ہونے کی بات کی تو وہ پردہ اُٹھادیں گے کہ ڈالر کو عارضی طور پر نیچے کس طرح لایا گیا ہے۔ 
بس، اِتنی دھمکی کافی تھی۔ وزیر خزانہ نے چُپ سادھ لی۔ اور کر بھی کیا سکتے تھے؟ بولنے کو کچھ نہ ہو تو خاموش رہنا خوش گفتاری کا حق ادا کردیتا ہے۔ 
1960ء کے عشرے میں سعادت حسن منٹو کے ایک افسانے پر مبنی فلم ''بدنام‘‘ نے بہت دھوم مچائی تھی۔ اس فلم میں علائوالدین نے ٹانگے والے کا کردار ادا کیا تھا جس کی بیوی حمیدہ کا کردار ڈھیلا تھا اور اُس نے ایک سیٹھ سے سونے کے جُھمکے لیے تھے۔ علائو الدین کا انتہائی جذباتی لہجے میں ادا کیا ہوا جُملہ ''کہاں سے آئے ہیں یہ جُھمکے، کس نے دیئے ہیں یہ جُھمکے؟‘‘ اُن کے پرستاروں کے دِلوں کو چُھو گیا تھا۔ 
یوں کہہ لیجیے کہ حکومت پر بھی جُھمکوں والا وقت آ پڑا ہے۔ حمیدہ کی طرح وزیر خزانہ کو اِس سوال کا جواب دینا بھاری پڑ گیا ہے کہ قومی خزانے میں اچانک ڈیڑھ دو ارب ڈالر کہاں سے آگئے؟ تاویلیں گھڑی جارہی ہیں۔ کہانیاں سُنائی جارہی ہیں۔ شیخ رشید کے بدخواہ بھی اُن کے استعفے کا معاملہ بھول کر حکومت کے لَتّے لینے میں مصروف ہیں۔ ڈگڈگی ہاتھ میں آجائے تو بجائے بغیر سُکون کب ملتا ہے؟ قومی خزانے میں اچانک وارد ہونے والے ڈیڑھ ارب ڈالر کے بارے میں محترم ہستیاں بھی سوالات داغ رہی ہیں۔ 
بعض احباب نے وہی کام کیا جس کا رونا عبدالحمید عدمؔ نے اپنے مقطع میں رویا ہے ؎ 
عدمؔ! خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے 
سِتم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں 
اِدھر ڈالر نے ذرا سی جُھکائی دے کر روپے کو تھوڑا سا اوپر جانے کا موقع دیا اور اُدھر یار لوگ قلم تھام کر حکومت کو سراہنے اور شیخ صاحب کے بخیے اُدھیڑنے بیٹھ گئے۔ کچھ ایسی ہی بے چینی اور بے صبری ہمارے اخباری اہلِ قلم اُس وقت بھی دِکھاتے ہیں جب قومی کرکٹ ٹیم میدان مارتی ہے یا کھو بیٹھتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم نے کسی ٹیم سے عبرت ناک شکست کھائی۔ احباب قلم تھام کر قومی کرکٹرز کو لتاڑنے لگے۔ دو دن کے وقفے سے کالم چھپتا ہے تو لکھنے والے کو منہ چھپاتے بنتی ہے کیونکہ جس دن کالم والی کاپی پریس میں جارہی ہوتی ہے اُسی دن قومی ٹیم نے کسی کو عبرت ناک شکست دی ہوتی ہے۔ اب حالت یہ ہوتی ہے کہ صفحۂ اول پر تو ٹیم کی فتح کے ڈنکے بج رہے ہوتے ہیں اور اندرونی صفحے پر قومی کرکٹرز کے نام کا ماتم کیا جارہا ہوتا ہے! قارئین کی حالت یہ ہوتی ہے کہ ع 
حیراں ہوں دِل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں 
ڈالر نے بھی لکھنے والوں کو کچھ ایسی ہی الجھن میں مبتلا کیا ہے۔ بے چارے حیران ہیں کہ ابھی اُنہوں نے روپے کی قدر میں اضافے کا ٹھیک سے جشن بھی نہ منایا تھا کہ اوپن مارکیٹ میں ایک بار پھر ڈالر کمینے پن پہ اُتر آیا۔ ایسی ہی اُچھل کود کے لیے داغؔ دہلوی نے خوب کہا ہے ؎ 
اپنی آنکھوں میں ابھی کوند گئی بجلی سی 
نہیں معلوم یہ آنا تھا کہ جانا تیرا 
ڈالر کی ڈبکی پر شادیانے بجانے والوں نے قلم کے ذریعے شیخ صاحب کو آئینہ دِکھانے کی کوشش کی مگر جب اُن کے ''رشحاتِ قلم‘‘ طبع کی منزل تک پہنچے تو بے چارے اپنے سے مُنہ لے کر رہ گئے کیونکہ اخبارات تو ڈالر کے دوبارہ سَر اُٹھانے اور روپے کے دُم دباکر ایک کونے میں جا بیٹھنے کی خبروں سے بھرے پڑے تھے! بے چارے لِکھنے والے دِل مسوس کر رہ گئے ؎ 
لے چلا جان مِری روٹھ کے جانا تیرا 
ایسے آنے سے تو بہتر تھا‘ نہ آنا تیرا 
امریکی پالیسیوں کی ساری خباثت ڈالر میں سماگئی ہے۔ دوستی کے ہزار دعووں کے باوجود کم بخت ہمارے جذبات سے کھیلتا رہتا ہے، ہمیں ذِلّت سے دوچار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ ابھی ہم روپے کی ''توقیر‘‘ سے پورا لطف بھی کشید نہ کر پائے تھے کہ پھر تذلیل کا سامان ہوگیا۔ روپے کی توقیر کا گراف بلند ہوتا دیکھ کر وہ لوگ پریشان ہوگئے جن کے پاس کم تعداد میں ڈالر تھے۔ اُنہوں نے گھبرا کر ڈالر سے چھٹکارا پانے کا سوچا اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر نکال دیا۔ مگر پھر دو ہی دِن میں اُنہیں اپنی حماقت کا احساس ہوگیا۔ حکومت ہاتھ کرگئی تھی۔ منی مارکیٹ کو انگلی کے اشارے پر نچانا اِسے کہتے ہیں۔ ذہانت کہاں کم ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ ذہانت کو جہاں اور جس طرح خرچ کرنا ہے وہاں اور اُس طرح خرچ نہیں کیا جارہا۔ سارا زور شَر کے پہلو پر ہے، خیر کا پہلو دور کھڑا حیرت سے یہ تماشا دیکھ رہا ہے۔ 
بات سیدھی سی ہے، سمجھ میں آ جائے تو اچھا۔ کسی کو نیچا دکھانے کے لیے ڈالر کو نیچے لانے کا ڈراما کسی کام کا نہیں۔ قوم کو ریلیف درکار ہے۔ حکومت یہ نہ سمجھے کہ صرف تھر میں بحران ہے۔ تھوڑی بہت کمی بیشی کے ساتھ پورے ملک کا یہی حال ہے۔ منی مارکیٹ پر مصنوعی اثرات مرتب کرنے کی بجائے ٹھوس، سنجیدہ اقدامات کئے جانے چاہئیں تاکہ کوئی وقتی مسرت سے ''دوچار‘‘ نہ ہو بلکہ دیرپا اطمینان سے ہمکنار ہو! ڈالر کو نیچے لانا ہے تو بڑھکوں جیسے اقدامات کرنے سے گریز لازم ہے۔ قومی معیشت کو مستحکم کرنا اور اِسے عالمی معیشت میں مقابلے کے قابل بنانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ بس اِتنا سمجھ لیجیے ع 
اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved