تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     23-03-2014

کشمیریوں کو معاف کر دیں

بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے اور بجلی درآمد کرنے کے معاملات ایک بار پھر ملتوی کر دیئے گئے ہیں۔ اس بار عذر یہ رکھا گیا کہ بھارت میں انتخابات ہو رہے ہیں۔ نئی حکومت آنے تک تجارت بڑھانے کے سمجھوتے نہیں کئے جا سکتے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ جب بھی کسی جمہوری ملک میں انتخابات کا آغاز ہوتا ہے‘ تو داخلی پالیسیوں میں بڑے فیصلے ملتوی کر دیئے جاتے ہیں‘ کیونکہ ان کے بارے میں مختلف پارٹیوں کے خیالات اور منصوبے مختلف ہوتے ہیں۔ اخلاقی طور پر یہ مناسب سمجھا جاتا ہے کہ انتخابات کے بعد کوئی دوسری پارٹی اکثریت حاصل کرتی یا بنا لیتی ہے‘ تو اسے موقع ملنا چاہیے کہ جن تبدیلیوں کا وہ عوام سے وعدہ کر کے آئے ہیں‘ آسانی کے ساتھ کی جا سکیں‘ لیکن بیرونی تجارت اور خارجہ امور کا تعلق ‘ داخلی سیاسی ضروریات سے نہیں ہوتا۔ بیرونی ملکوں کے ساتھ تعلقات کی بنیاد‘ باہمی مفادات اور دو ملکوں کے تعلقات پر ہوتی ہے۔ نہ مفادات بدلتے ہیں اور نہ ہی تعلقات کی بنیادیں۔ خصوصاً پاکستان اور بھارت جیسے پڑوسی ملکوں کے باہمی تعلقات نوشتہ دیوار کی طرح ہوتے ہیں۔ دونوں ملکوں نے 6عشروں میں تسلسل کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی پر مبنی پالیسیاں تشکیل دیںاور جب بھی تعلقات میں ذرا بہتری آنے لگتی‘ تو کوئی نہ کوئی حادثہ یا سانحہ تعلقات میں دوبارہ بگاڑ پیدا کر دیتا۔ ہم نے آزادی کے بعد طویل عرصے کے دوران اگر کسی چیز میں اضافہ کیا ہے‘ تو وہ نفرت اور دشمنی کے جذبات ہیں۔ میں کسی ایک کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرائوں گا۔ جب بھی دو فریقوں کے درمیان اختلاف یا تصادم ہوتا ہے‘ تو کوئی اکیلا اس کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔ ایکشن میں پہل کوئی ایک کر سکتا ہے‘ لیکن کوئی ایکشن بلاوجہ نہیں ہوتا۔ پہلے ماحول پیدا ہوتا ہے‘ اس کے بعد جذبات میں شدت آتی ہے‘ کشیدگی بڑھنے لگتی ہے اور اس پورے ماحول کے دوران کوئی بھی پہل کر کے تصادم‘ محاذ آرائی اور جنگ کی صورتحال پیدا کر دیتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان جتنی بھی جنگیں ہوئیں‘ دونوں فریق ایک دوسرے کو ان کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے ہیں‘ لیکن حقیقت پسندی سے معاملات کو پرکھا جائے‘ تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ قصوروار دونوں ہیں۔ 1965ء کی جنگ اچانک شروع نہیں ہو گئی تھی۔ کشمیر کا تنازعہ ایک عالمی مسئلہ ہے‘ جو یو این کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ دونوں ملکوں کے اپنے اپنے دعوے موجود ہیں۔ ایک فریق اگر طاقت سے اپنے قبضے کو جائز ثابت کر کے ضد پکڑ لے کہ مقبوضہ علاقہ اس کی ملکیت بن گیا ہے‘ تو یہ طاقت کا غیر اخلاقی اور بے اصولی پر مبنی مظاہرہ ہو گا۔ جب تک مسئلہ حل نہیں ہو جاتا‘ پاک بھارت تعلقات کبھی معمول پر نہیں آ سکتے۔ جب کوئی مسئلہ حل ہونے میں نہ آ رہا ہو‘ تو اسے مختلف ضروریات کے تحت ختم نہیں کیا جا سکتا۔ روس کا علاقہ کریمیا کتنی مدت سے یوکرائن کے قبضے میں تھا اور یوکرائن اسے اپنا حصہ بنا چکا تھا‘ لیکن روس کو جیسے ہی موقع ملا‘ اس نے اپنے علاقے کو یوکرائن سے آزاد کرا لیا۔ اب سفارتی ضروریات کے تحت اسے آزادی و خودمختاری حاصل رہے گی‘ لیکن عملاً وہ اپنی اصل کی طرف لوٹ گیا ہے۔ مقبو ضہ کشمیر ‘کتنا بھی عرصہ بھارت کے فوجی کنٹرول میں رہے مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ بن چکا ہے۔ یہ بات ہم بھی جانتے ہیں اور بھارتی حکمران بھی۔ بے شک شملہ معاہدے کے تحت دونوںملکوں نے اسے باہمی مسئلہ قرار دے کر‘ یو این کی مداخلت ملتوی کر رکھی ہے لیکن کسی تنازعے کو دو طرفہ قراردے کر‘ تنازعے کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ تنازعہ عالمی ہو یا دوطرفہ‘ بہرحال اسے حل کرنا ہوتا ہے۔ اس کا بہترین طریقہ کار چین نے تلاش کیا ہے۔ 
ہانگ کانگ پر برطانیہ نے قبضہ کر رکھا تھا اور بعض معاہدوں کے تحت اس جزیرے کے معاملات برطانیہ کے کنٹرول میں تھے۔ آزادی کے 50سال بعد چین اس پوزیشن میں آ گیا تھا کہ جب چاہے ہانگ کانگ پر قبضہ کر لے‘ مگر اس نے فوجی طاقت استعمال کرنے کے بجائے‘ برطانوی حکومت کو اپنے موقف کی صداقت کا قائل کیا اور ایک معاہدے کے تحت ہانگ کانگ کا قبضہ واپس لے لیا۔ دونوں ملک اس حقیقت کا ادراک کر چکے تھے کہ نہ تو برطانیہ ہمیشہ کے لئے ہانگ کانگ پر قبضہ برقرار رکھ سکے گا اور نہ چین فوجی طاقت استعمال کر کے‘ ہانگ کانگ کی خوشحالی کو بچا پائے گا۔ جنگ بہرحال تباہی لے کر آتی ہے اور چین نے یہ سوچ کر امن کا راستہ اختیار کیا کہ جس علاقے کو وہ اپنے ملک کا حصہ قرار دیتا ہے‘ اسے واپس لینے سے پہلے‘ وہ اس کی تباہی و بربادی میں حصے دار کیوں بنے؟ اس سے بھی اہم مسئلہ تائیوان کا ہے۔ اس کی حیثیت ایک بڑے ملک کی ہے اور آبادی بھی کم نہیں۔ وہاں پر امریکہ نے اپنی پٹھو حکومت قائم کر رکھی ہے۔ یورپ اور امریکی اسلحہ کے انبار وہاں لگے ہوئے ہیں۔ چین اگر آج چاہے‘ تو اس جزیرے پر قبضہ کر سکتا ہے‘ لیکن یہاں بھی وہ انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی پر کاربند ہے اور ایک دن آئے گا کہ چین اور تائیوان دونوں اکٹھے ہو جائیں گے۔ 
کشمیر ہمیشہ سے برصغیر کا حصہ رہا ہے‘ لیکن برصغیر کے جس حصے کے ساتھ کشمیر کے تجارتی‘ تہذیبی اور جغرافیائی تعلقات تھے‘ وہ اب پاکستان بن چکا ہے۔ تقسیم برصغیر کا جو فارمولا بنایا گیا تھا‘ اس کے تحت بھی کشمیر کا پاکستان میں شامل ہونا ضروری تھا۔ چند سرپھروں کی ایڈونچرازم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ بھارت نے کشمیر میں فوجیں اتار دیں اور آج تک فوجی طاقت سے ہی بھارت نے ریاست پر اپنا قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے۔ 65سال تک کشیدگی‘ محاذآرائی اور جنگیں لڑنے کے بعد بھی ہم تنازعے کا وجود ختم نہیں کر پائے اور اب دونوں ملک ایٹمی طاقت بن چکے ہیں۔ اب ہمارے درمیان لڑائی محدود نہیں رہ سکے گی۔ دونوں طرف مکمل تباہی پھیلے گی یا ہمیشہ دونوں ملکوں کو حالت جنگ میں رہنا پڑے گا۔یہ صورتحال نہ تو بھارت کے لئے سازگار ہے‘ نہ ہمارے لئے۔ ہمارے اس جھگڑے کی سزا کشمیری عوام بھگت رہے ہیں۔ ریاست جموں اور کشمیر کی مجموعی آبادی اب ڈیڑھ کروڑ کے قریب ہو چکی ہے۔ ان میں سوا کروڑ کے لگ بھگ آزاد اور مقبوضہ کشمیر میں آباد ہے۔ اس میں جموںاور لداخ بھی شامل ہیں اور 25 لاکھ پاکستان اور بھارت میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔ کشمیری ہندو بھارت میں ابھی تک کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں اور مسلمان پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور ابھی تک مہاجر کشمیریوں کی ایک اچھی خاصی تعداد مظفر آباد کے کیمپ میں پڑی ہے۔ ڈیڑھ کروڑ کی ایک قوم کو پاکستان اور بھارت نے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ پاکستان نے تو پھر بھی کشمیریوں کو اپنے معاشرے کا حصہ بنا کر‘ انہیں آباد کر لیا۔ بھارت آج تک کوشش کے باوجود کشمیریوں کو عملی طور پر وطن کی زندگی نہیں دے سکا۔ جو لوگ مقبوضہ کشمیر میں رہتے ہیں‘ ان پر مسلح افواج کا قبضہ ہے اور ریاست کا پورا حصہ جس میں وہ رہتے ہیں ایک وسیع قید خانے کی حیثیت رکھتا ہے۔بھارتی حکومت نے کوشش کی تھی کہ کشمیریوں کو بھارت میں تعلیم دے کر انہیں وہیں ملازمتیں دے دی جائیں۔ جس کے لئے کچھ کوٹہ بھی مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن نہ تو بھارت کے انتہاپسندوں نے انہیں برداشت کیا اور نہ ہی تعلیمی اداروں میں انہیں قبول کیا گیا۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے حالیہ میچ میں سینکڑوں کشمیری طلبا کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ وہ انسانیت کے منہ پر چپت کی حیثیت رکھتا ہے۔ہمیں قوم پرستانہ خودغرضی سے اوپر اٹھ کراپنا وہ انسانی فرض ادا کرنا چاہیے‘ جو برصغیر کی تاریخ اور تہذیب کی طرف سے ہم پر عائد ہوتا ہے۔ پاک بھارت تعلقات میں بہتری آئے گی‘ تو کشمیریوں کی زندگی میں بھی بتدریج تبدیلی آنا شروع ہو جائے گی اور اگر دونوں ملک‘ کشمیریوں کو اپنے ہاں آ کر روزی روٹی کمانے کی اجازت دے دیں‘ تو دوتین عشروں کے بعد اپنا مسئلہ وہ خود حل کر لیں گے‘ بشرطیکہ ان کے ساتھ انسانی بنیادوں پر برابری کا سلوک کیا جائے۔ کشمیر کے حل کی پہلی سیڑھی پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات ہیں۔ مستقل دشمنی کبھی کسی کے لئے فائدہ مند نہیں رہی۔ میں دونوں ملکوں کی حکومتوں سے دردمندانہ اپیل کروں گا‘ خدارا! اب تو کشمیریوں کو معاف کر دیں۔ انہیں بے گناہی کی سزا کیوں دی جا رہی ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved