پاک فضائیہ کے سربراہ کی طرف سے خط موصول ہوا کہ میانوالی کے ائیر بیس (فضائی مستقر) کو ائیر کموڈور ایم ایم عالم مرحوم کے نام سے موسوم کیا جا رہا ہے، اس موقع پر منعقد کی جانے والی خصوصی تقریب میں آپ کی شرکت مطلوب ہے۔ شاہینوں کے درمیان چند لمحے گزارنے کی اس دعوت کو سعادت سمجھ کر قبول کر لیا گیا۔ دن چڑھے لاہور سے بذریعہ سی ون تھرٹی روانگی ہوئی اور چند گھنٹے بعد ونگ کمانڈر حمید انور کے چھوٹے سے سیسنا میں سما کر واپس پہنچ گئے۔ حمید صاحب اسے ''ہوائی سوزوکی‘‘ قرار دے رہے تھے، لیکن ہمارے لئے یہ سی ون تھرٹی سے بڑھ کر تھا کہ کوئی ہنگامہ اٹھائے بغیر اٹھا، اور کم و بیش ڈیڑھ گھنٹے میں سکون و اطمینان کے ساتھ والٹن کے ہوائی اڈے پر اُتر گیا، جہاں برادرم مبشر لقمان مچان لگائے بیٹھے تھے، کیپٹن عمیر میاں ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ ہر آنے اور جانے والے کو اپنی طرف متوجہ کیا جا رہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں کئی فلائنگ کلب ہیں، اس عمارت کی بنیاد1926ء میں رکھی گئی تھی۔ سینکڑوں ہوا باز یہاں سے تربیت پا چکے اور بہت سے مشق میں مصروف ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے قدم بھی اس رن وے کو چھونے کا اعزاز حاصل ہو چکا ہے کہ وہ جب ہوائی سفر کے ذریعے لاہور آئے تو اُن کا طیارہ یہیں لینڈ کیا تھا۔ گویا، یہ ایک تاریخی ورثہ بھی ہے، اس لئے اس کی حفاظت کی جانی چاہیے۔ ان کے بقول پنجاب حکومت، سول ایوی ایشن اتھارٹی سے کہہ رہی ہے کہ یہ جگہ اس کے حوالے کر دے، تاکہ یہاں کمرشل زون قائم کیا جا سکے۔ بلند و بالا عمارتیں ماضی سے ہمارا رشتہ توڑ دیں گی۔ اس تفصیل کو پوری شدت اور حدت سے بیان کرنے کے بعد انہوں نے مائیک میرے سامنے رکھا اور کیمرہ آن کر دیا۔ سوالوں کی گولہ باری شروع ہو گئی، مَیں نے بصد ادب عرض کیا کہ اس معاملے کی تفصیل معلوم نہیں ہے، مہلت دیجئے کہ آگاہی حاصل کر لوں، پھر کچھ عرض کر سکوں گا۔ اس احتیاط کو وہ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے کو تیار نہیں تھے۔ مَیں نے یہ کہہ کر دل پر ہاتھ رکھنے کی کوشش کی کہ پنجاب حکومت کو یہاں موجود فلائنگ کلبوں سے بات چیت کر کے معاملہ طے کرنا چاہیے۔ بصد مشکل چست فقروں کے جواب میں سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بڑھ سکے، لیکن امید ہے وفاقی اور صوبائی حکومتیں آگے بڑھنے میں جلد بازی سے کام نہیں لیں گی۔
دانشور سیاح، سفر نامہ نگار، اینکر اور ایکٹر مستنصر حسین تارڑ کی معیت اس پورے سفر میں نصیب رہی تھی۔ انہوں نے اپنا پہلا ٹی وی سیریل ہی پاک فضائیہ پر لکھا تھا، اس لئے ان کا شمار بھی شاہینوں میں ہوتا ہے، قدم قدم پر ان کا استقبال اسی طور ہوتا رہا۔ یہ بھی اندازہ ہوا کہ شاہینوں کی آنکھ سے ٹیلی ویژن اوجھل نہیں ہے۔ ہمارے ٹی وی پروگرام ''نقطہ نظر‘‘ کی داد بھی جوانوں اور بزرگوں سے یکساں طور پر ملتی اور خون کو بڑھاتی رہی۔ تارڑ صاحب یکم مارچ کو 75سال کے ہو چکے، لیکن اُن کے مداح اُن کی سالگرہ کی تقریبات منعقد کرتے چلے جا رہے ہیں۔ چند روز بعد ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کا اجازت نامہ انہوں نے یہ یقین دلاتے ہوئے مرحمت فرمایا کہ یہ اس سلسلے کی آخری تقریب ہو گی، حالانکہ اُن کی76ویں سالگرہ تک اس طرح کی حرکات کا ارتکاب جاری رکھا جا سکتا ہے۔ اگر حبیب بنک اپنے75برسوں کی خوشی میںسارا سال بہتر خدمت اور بہتر مثال کا ڈنکا بجا سکتا ہے تو تارڑ صاحب کے75برسوں کی یاد مسلسل کیوں نہیں منائی جا سکتی۔ انہوں نے ان برسوں میں پاکستان کو بہت کچھ ایسا دیا ہے،جو بہت سے دانشور مل کر بھی نہیں دے سکے۔ اہل ِ پاکستان کو پاکستان سے متعارف کرانے کا کام ان سے بڑھ کر کسی نے کہاں کیا ہو گا؟ اللہ تعالیٰ انہیں خوش و خرم اور صحت مند رکھے، وہ اپنی سالگرہیں مناتے چلے جائیں۔
میانوالی میں منعقد ہونے والی تقریب یادگار بھی تھی اور پُروقار بھی۔ پاک فضائیہ کے قریباً تمام سابق سربراہ موجود تھے، جوانوں اور افسروں کی موجودگی سے پنڈال مہک رہا تھا۔ سرگودھا کے کمشنر طارق محمود بھی اپنے مختصر سے ''لشکر‘‘ کے ساتھ رونق افروز تھے۔ وزیراعظم کا طیارہ چند منٹ کی تاخیر سے پہنچا، لیکن بحیثیت مجموعی کارروائی بروقت مکمل ہو گئی۔ ایئر چیف مارشل طاہر رفیق بٹ نے خیرمقدمی کلمات ادا کئے، بیس کمانڈر نے اپنے مہمانوں کو خوش آمدید کہا، وزیراعظم کا خطاب بھی خوب تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہر وہ شخص جو کسی بھی جگہ اور کسی بھی شعبے میں اپنا فرض تندہی سے ادا کر رہا ہے، وہ ایم ایم عالم کا کردار ادا کر رہا ہے کہ یہ محض ایک شخص کا نہیں، یہ ایک جذبے اور کمٹ منٹ کا نام ہے۔ ایم ایم عالم نے ایک ہوا باز کے طور پر دفاعِ وطن کے لئے جو کردار ادا کیا، اس کی یاد ہمیشہ دِلوں میں رہے گی۔ تقریب میں شریک اُن کے بھائی اور بہنوں کو بھی انہوں نے خوش آمدید کہا اور تالیوں کی گونج میں اپنی بات ختم کر دی۔
ایم ایم عالم نے1965ء کی جنگ میں بھارت کے نو جنگی طیارے مار گرائے تھے، ایک دن کیا، ایک منٹ سے بھی کم وقت میں پانچ طیارے مار گرانے کا ریکارڈ قائم کر کے تو انہوں نے عالمی شہرت حاصل کر لی تھی۔ ان کا نام پاک فضائیہ کے ماتھے کا جھومر ہے، اور انشاء اللہ سدا رہے گا۔ عالم مرحوم کا تعلق مشرقی بنگال سے تھا، لیکن وہ بنگالی بن کر نہیں، پاکستانی بن کر جئے۔ دورانِ ملازمت وہ اپنے ائیر چیف مارشل انور شمیم سے بھڑ گئے کہ ان کی اور ان کی بیگم صاحبہ کی ایسی حکایات عام ہو رہی تھیں جو دیانت اور امانت کی اعلیٰ روایات سے متصادم تھیں۔ عالم مرحوم نے انقلابی ترنگ میں آ کر صدر ضیاء الحق سے شکایت کر دی، شائد '' نظم و ضبط‘‘ کی اس خلاف ورزی پر انہیں ریٹائر کر دیا گیا۔ انہوں نے بطور احتجاج پنشن وصول کرنے سے انکار کر دیا، گویا اپنے آپ کو ریٹائر ماننے پر تیار نہ ہوئے۔ انور شمیم کی رخصتی کے بعد آنے والے ائیر چیف مارشل جمال نے بہت کوشش کی کہ عالم مرحوم پنشن قبول کر لیں، لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔
ایم ایم عالم افغانستان پر سوویت قبضے کے دوران افغان مجاہدین کی رہنمائی کرتے رہے۔ اس سے کہیں پہلے وہ1975ء کی جنگ رمضان کے دوران شامی فضائیہ کی طاقت بنے ہوئے تھے۔ اس کا حکم انہیں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے دیا تھا۔ مستنصر حسین تارڑ کا کہنا تھا کہ وہ اس جنگ کے چند ہفتے بعد شام گئے تو وہاں ایم ایم عالم کو پلکوں پر بٹھایا جاتا تھا۔ پاکستانی فضائیہ کے کئی دوسرے شاہین بھی شام کی حدود میں داخل ہونے والے اسرائیلی طیاروں پر جھپٹتے رہے تھے۔ پاک فوج کا توپ خانہ بھی شامی سپاہ کی طاقت بنا ہوا تھا۔
ایم ایم عالم ایک بے تاب و بے قرار شخص تھے، مسلمانوں کو غالب دیکھنے کے لئے تڑپتے رہے اور کہا جا سکتا ہے کہ اُن پر ایک طرح کی مجذوبیت طاری ہو گئی تھی۔ میانوالی کا ائیر بیس ہی اُن کے نام سے مہک نہیں رہا، ہر دل میں اُن کی یاد موجود ہے۔ ان کے مقابل آنے والے ائیر چیف مارشل کا نام کسی کے حافظے میں شائد ہی زندہ ہو، لیکن ایم ایم عالم کو بھلایا جا سکا ہے، نہ بھلایا جا سکے گا۔
صحرا است کہ دریا است، تہہ بال و پر ما است
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)