قیام پاکستان کے حوالے سے سال میں دو دن سرکاری طور پر منائے جاتے ہیں۔۔۔۔۔ 23 مارچ 1940ء کی قرارداد لاہورکے حوالے سے اور 14اگست کو 'یوم پاکستان‘ جو 'یوم آزادی‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔اگر ہم برصغیر کے عوام کی انگریز سامراج کے خلاف جدوجہد آزادی پر نظر دوڑائیں تو اس میں کئی دوسرے فیصلہ کن واقعات اور انقلابی تحریکیں بھی ملتی ہیں ، لیکن پاکستان اور بھارت کے حکمران طبقات اپنے مطلب اور ریاست کے نظریات سے مطابقت رکھنے والے ایام کو ہی یاد کرتے اورکرواتے ہیں۔ ہمیں تقسیم کے بعد بھی پاکستان کی تاریخ میں ایسے اہم تاریخی واقعات اور انقلابی ابھار ملتے ہیں جن پر حکمرانوں نے پردہ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی کیونکہ عوام کے ذہنوں پر ان واقعات کا مبہم سا نقش بھی اس نظام کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔
قیام پاکستان کا نظریہ 1940ء کی قرارداد لاہور سے بہت پہلے تخلیق ہوا تھا۔ سب سے پہلے ایک الگ ملک کے خیال کو ''پاکستان ڈیکلیریشن‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ مفروضہ ایک پملفٹ میں پیش کیا گیا جس کا عنوان تھا ''ابھی یا کبھی نہیں؛ ہمیں جینا ہے یا مٹ جانا ہے‘‘۔ (Now or Never;We Are to Live or Perish forever) اس کے مصنف چودھری رحمت علی تھے جنہوں نے 28 جنوری 1933ء کو یہ پمفلٹ کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ سے جاری کیا تھا۔'پاکستان‘کا لفظ بھی پہلی بار اسی تحریر میں استعمال ہوا۔اس وقت قائد اعظم محمد علی جناح کانگریس میں تھے اور انہوں نے اُن حالات میں اس نظریے کو ''دیوانے کا خواب‘‘ قرار دیا تھا۔انہوں نے کہا تھاکہ وہ آخری دم تک ہندو مسلم یکجہتی کے لیے جدوجہد کریں گے۔
بعد ازاں مسلم لیگ کے اسی''نظریہ پاکستان‘‘ کو اپنانے اور محمد علی جناح کے کانگریس چھوڑکر مسلم لیگ کے لیڈر بن جانے کے بعد بھی چودھری رحمت علی اور نئی مسلم لیگی قیادت کے درمیان اختلافات ختم نہیں ہوئے۔ قیادت سے اختلافات کی بنیاد پر چودھری رحمت علی کو مکمل طور پر نظر اندازکرکے کارنرکردیا گیا۔ چودھری رحمت علی کا انجام یہ ہوا کہ قیام پاکستان کے بعد اپریل 1948ء میں جب وہ اپنے نظریے کی بنیاد پر قائم ہونے والے ملک میں مستقل قیام کے ارادے سے آئے تو انہیں پاکستان چھوڑ دینے کا حکم دے دیاگیا اور وہ اکتوبر 1948ء میں خالی ہاتھ انگلستان چلے گئے۔ان کی وفات 3فروری 1951ء کو انگلستان میں ہی ہوئی۔ تدفین کے انتظامات کی ذمہ داری لینے والا بھی کوئی نہ تھا۔ آخر کیمبرج یونیورسٹی کے ایمینیول کالج میں پڑھانے والے ان کے استاد نے یہ فریضہ سرانجام دیا اور 20 فروری کو نیو مارکیٹ روڈ کیمبرج کے قبرستان میں ان کی تدفین کی گئی۔
1940ء میں قرارداد لاہور منظور ہونے کے بعد سے 1947ء میں تقسیم ہند تک کے سات سال بھی واقعات سے بھرپور ہیں۔ اس دوران برطانوی سامراج نے ایسے کئی منصوبوں پر بھی غور کیا جن کی کامیابی یا ناکامی برصغیر کی تاریخ، جغرافیے اور سیاست کو بدل سکتی تھی۔ برطانوی آقائوں کے لیے برصغیر سے جانے کی سب سے بنیادی شرط یہ تھی کہ ''آزادی‘‘ کے بعد بھی ان کا قائم کردہ سیاسی، معاشی اور ریاستی ڈھانچہ برقرار رہے تاکہ سامراجی استحصال کو جاری رکھا جاسکے۔اس معاملے میں برطانوی حکمران طبقات کے مختلف دھڑوں کے درمیان طریقہ کار اور لائحہ عمل پر شدید اختلافات موجود تھے۔دوسری عالمی جنگ کے بعد ہونے والے پہلے ہی انتخابات میں برطانوی عوام نے ونسٹن چرچل کو مسترد کردیا۔ چرچل برطانوی حکمران طبقے کے قدامت پسند اور انتہائی دائیں بازو کے دھڑے کا نمائندہ تھا۔ وہ جبر، دھونس اور ''تقسیم کر کے حکمرانی کرنے‘‘ کی پالیسی کا علمبردار تھا۔دوسری طرف جولائی 1945ء میں وزیر اعظم کیمنٹ ایٹلی کی سربراہی میں اصلاح پسند بائیں بازو کی جماعت لیبر پارٹی کی حکومت زیادہ پرامن طریقے سے معاملات کو حل کرنا چاہتی تھی۔ اس سلسلے میں برطانوی حکومت کی جانب سے مختلف مشن بھیجے گئے جن کا مقصد زیادہ خون خرابہ کیے بغیر برصغیر کے مقامی حکمران طبقے کے سیاسی نمائندوں تک اقتدارکی منتقلی تھا۔
24مارچ 1946ء کو پیتھک لارنس، سر سٹیفورڈ کرپس اور اے وی الیگزینڈر پر مشتمل کیبنٹ مشن ہندوستان آیا ۔ یہ وفد فروری 1946ء میں برٹش انڈین نیوی کے جہاز رانوں کی بغاوت کے کچھ دنوں بعد ہی پہنچا تھا۔ ان کی اس بغاوت نے صنعتی مزدوروں اور عوام میں سرایت کر کے پورے برصغیر میں انقلابی طوفان کھڑا کردیا تھا۔ برطانوی سامراج نے مقامی سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے نمائندہ سیاسی لیڈروں کی مدد سے بڑی مشکل سے مذہبی تفریق کو ہوا دے کر اس انقلابی لہرکو زائل کیا تھا۔ اس انقلابی تحریک نے نہ صرف سامراجی تسلط میں دراڑیں ڈال دی تھیں بلکہ برطانوی سامراجیوں کو خوفزدہ بھی کردیا تھا۔وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ جنگ عظیم سے تباہ حال سامراج مستقبل میں اس قسم کی عوامی بغاوت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔
اس صورت حال میں کیبنٹ مشن نے مسلم لیگ اور کانگریس کے لیڈروں سے ''مذاکرات‘‘ کے بعد اپنا منصوبہ 16مئی 1946ء کو پیش کیا۔ منصوبے کا علان وائسرائے ہند نے کیا۔اس پلان میں ہندوستان کی تقسیم کو مسترد کرتے ہوئے ''انڈین ڈومینین‘‘ کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا۔اس آل انڈیا یونین کو آئینی طور پر تین صوبوں یا انتظامی اکائیوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پہلا صوبہ سندھ، پنجاب اور شمال مغربی سرحدی علاقے، دوسرا وسطی ہندوستان جبکہ تیسرا بنگال اور آسام پر مشتمل تھا۔ صوبوں کو بیشتر شعبوں میں خودمختاری حاصل تھی ؛ صرف دفاع، امور خارجہ، مالیات اور مواصلات کے شعبے مرکز کے پاس تھے۔ مشن سے مذاکرات کے دوران ہی قائد اعظم کی سربراہی میں مسلم لیگ کی مرکزی ورکنگ کمیٹی نے متفقہ ووٹ سے 6جون 1946ء کو اس پلان کو تسلیم کرنے اعلان کردیا۔ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے مطالبے سے دستبرداری کا یہ فیصلہ تاریخی اہمیت کا حامل تھا۔ کانگریس کا رد عمل شروع سے ہی متذبذب تھا ، پھر جواہر لال نہرو نے 26 جون کو بمبئی میں اشتعال انگیز پریس کانفرنس میں اس پلان کو مسترد کرنے کا اعلان کر دیا۔اس کے رد عمل میں مسلم لیگ بھی مشتعل ہوگئی اور تقسیم کا مطالبہ دوہراتے ہوئے 16اگست 1946ء کو ''ڈائریکٹ ایکشن ڈے‘‘ منانے کا اعلان کر دیا۔ان ساری کارروائیوں کے پیچھے بہت سی داستانیں اور مفادات پوشیدہ ہیں۔ نہرو اگر جارحیت بھری تقریر نہ کرتا تو آج تاریخ مختلف ہوتی ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نہرونے ایسا کس کے کہنے پر کیا؟ اس سوال کا جواب ایک اہم اور گہری تحقیق کے بعد تحریر کی گئی کتاب ''ہندوستان کا موسم گرما۔۔۔ تقسیم کی خفیہ تاریخ‘‘ میں درج ہے۔
تاہم سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس خطے کے عوام کو خونیں تقسیم اور ''آزادی‘‘ سے کوئی ترقی، خوشحالی یا آسودگی حاصل ہوئی ہے ؟ سرحد کے دونوں طرف آباد ڈیڑھ ارب عوام کی زندگیاں بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہیں۔ اپنے استحصال، جبر اور حکمرانی کو قائم رکھنے کے لئے پاکستان اور بھارت کے حکمران طبقات اور ان کے سیاسی نمائندے تاریخ کے بہت سے پوشیدہ پہلوئوں کو چھپائے رکھنا چاہتے ہیں۔نصابوں میں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے وہ حکمران طبقے کی تاریخ ہے ، اس خطے کے محنت کشوں کی تاریخ کچھ اور ہے۔ یہ تاریخ اس نظام کے خلاف جدوجہد، انقلابی تحریکوں اور بغاوتوں سے عبارت ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہمیں چین اور جنوب مشرقی ایشیا سمیت پورے خطے میں ایسے انقلابات ملتے ہیں جن کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑا گیا۔اگر برصغیر میں براہ راست سامراجی حاکمیت کے ساتھ ساتھ سامراجی نظام اور بالواسطہ استحصال کا بھی خاتمہ کیا جاتا تو حقیقی معاشی اور سماجی آزادی کی منزل کی جانب بڑھا جاسکتا تھا۔
حکمرانوں اور ان کی ریاستوں نے تاریخ کو مسخ کر کے آج کی نوجوان نسل سے یہ جاننے کا حق بھی چھین لیا ہے کہ ان کے پرکھوں نے کس آزادی کے لیے کس کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔ بے روزگاری، بیگانگی، مذہبی بنیاد پرستی اور سماج جبر کے شکار نوجوانوں کو حقیقی تاریخ کا مکمل ادراک ہوجائے تو حکمران طبقات کا اقتدار اور دولت کے انبار خطرے میں پڑ جائیں گے ، اس لیے سیاست اور تاریخ سے لے کر ثقافت اور'اقدار‘ تک ، سماج کا ہر پہلو اس نظام کو قائم رکھنے کے مقصد کے تحت تشکیل دیااور پروان چڑھایا جاتا ہے۔ تاریخ کے تلخ حقائق کو بے نقاب کرنا ایک جرم بن چکا ہے، لیکن ہر عہد کے انقلابی یہ جرم کرتے رہے ہیں اور تب تک کرتے رہیں گے جب تک انقلاب کے ذریعے غربت، ذلت، محرومی اور جبر کو مسلط کرنے والے اس نظام کا خاتمہ نہیں کردیا جاتا!