تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     23-03-2014

’’نیند میں چلتے ہوئے‘‘ غلام حسین ساجدؔ کی نظمیں

''غلام حسین ساجدؔ کا ادبی سفر اب چالیس برس پر محیط ہے۔ وہ اردو اور پنجابی میں شاعری اور نثر کی سترہ کتابوں کے خالق ہیں اور آج بھی اسی تخلیقی وفور کے ساتھ سرگرمِ کار ہیں۔ 
''نیند میں چلتے ہوئے‘‘ ان کی اردو نظموں کا ایک قابلِ قدر انتخاب ہے جو ان کی زندگی اور فکر کی متنوع جہتوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ اگرچہ ان کے فکری منہاج کو سمجھنے کے لیے ان کی پنجابی نظمیں بھی کم کارآمد نہیں‘ پھر بھی ان نظموں کی اشاعت سے ان کا تمام تر شعری سفر ایک دلفریب مونتاج کے روپ میں سامنے آتا ہے اور شاعر کی ذات اور موجود اور غیر موجود سے اس کی پُرلطف یگانگت کی خبر دیتا ہے۔ 
پروفیسر جیلانی کامران نے اُن کی غزل کو ایک تسلیم شدہ صداقت کے طور پر اردو شاعری کا ایک واقعہ تسلیم کیا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ رائے ان کی نظموں کے بارے میں بھی اتنی ہی صداقت کی حامل ہے تو شاید مبالغہ نہ ہو‘‘ 
کتاب کے پسِ سرورق یہ تحریر اس ممتاز شاعر کی ایک جھلک دکھاتی ہے۔ کچھ لوگ شاعری کو اوڑھنا بچھونا بناتے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کو شاعری خود اپنا اوڑھنا بچھونا بناتی ہے۔ غلام حسین ساجد اسی دوسری قبیل کے شاعر ہیں۔ شاعر صرف اشارہ کرتا ہے۔ وہ اپنی شاعری میں چھپاتا زیادہ اور ظاہر کم کرتا ہے۔ مشہور جدید امریکی شاعر کارل سینڈ برگ نے شاعری کو جس طرح سے بیان کیا ہے اس کا اندازہ اس کی ایک نظم کے پہلے بند ہی سے ہو جاتا ہے جس کا آزاد ترجمہ کچھ اس طرح سے ہو سکتا ہے: 
شاعری ایک دروازے کو 
کھولنا اور بند کر دینا ہے 
دیکھنے والوں کو یہ اندازہ لگانے کے لیے 
چھوڑتے ہوئے 
کہ ایک لمحے میں وہ کیا کچھ دیکھ سکے ہیں! 
ہمارے مرحوم دوست مشفق خواجہ نے ساقیؔ فاروقی کے ایک شعری مجموعے کے سرورق پر رائے دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ساقیؔ نے اس شاعری میں اپنے جذبات و احساسات کا بھرپور اظہار کردیا ہے۔ جس پر میری رائے تھی کہ یہ بھرپور اظہار ہی ہے جس نے ہماری شاعری کو بے حد نقصان پہنچایا ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ 
اعلیٰ درجے کے سفید کاغذ اور عمدہ ٹائٹل کے ساتھ یہ تحفہ کتاب ''سانجھ‘‘ لاہور نے چھاپی ہے‘ اور 230 صفحات کو محیط اس کتاب کی قیمت 400 روپے رکھی گئی ہے۔ کتاب میں کُل 96 نظمیں ہیں۔ پیش لفظ ''میری نظمیں‘‘ کے عنوان سے شاعر کا خود نوشت ہے جبکہ اندرون سرورق مظفر اقبال اور سلیم الرحمن کے تحریر کردہ ہیں جو کینیڈا میں مقیم ہیں۔ کتاب کا انتساب شاعر نے اپنے چاروں بچوں کے نام کیا ہے جبکہ اس کا خوبصورت اور خیال انگیز ٹائٹل کبیر طالب نے بنایا ہے۔ اردو نظم سے پیار کرنے والے اس کتاب کا استقبال کھلے بازوئوں سے کریں گے کیونکہ غلام حسین ساجدؔ کی شاعری کا یہ رُخ ایک کتاب کی شکل میں پہلی بار اور بڑے انتظار کے بعد دیکھنے کو ملا ہے۔ کتاب میں زیادہ تر آزاد اور کچھ نثری نظمیں شامل ہیں۔ نظمیں ملاحظہ ہوں: 
نیند میں چلتے ہوئے 
مجھے مدت سے گہری نیند میں چلنے کی عادت ہے 
سو‘ اک مدت سے میرے پائوں میرے رہنما ہیں 
کبھی فردا کی غیبی سرزمینوں سے گزرتا ہوں 
کبھی ماضی کے خوابیدہ جہانوں سے 
کبھی پاتال میں جا کر خبر لاتا ہوں کھوئے آسمانوں کی 
کبھی بامِ فلک پر سیر کرتا ہوں زمانوں کی

 

کبھی جب نیند میں چلتے ہوئے 
میں اس گلی میں جا نکلتا ہوں 
جہاں اک گھر میں گزرا تھا مرا بچپن 
جہاں اک فصلِ حیرت سے ہوئی تھیں آشنا آنکھیں 
اٹھایا تھا جہاں اک دُھند میں پہلا قدم میں نے 
جہاں میں نے سُنا تھا زمزمہ دیوارِ گریہ کا 
جہاں چہکار چڑیوں کی ہوئی تھی مہرباں مجھ پر 
جہاں اُترا تھا کچھ گلنار خوابوں کا دھواں مجھ پر 
جہاں اُمڈا تھا پہلی بار نیلا آسماں مجھ پر 
تو مجھ کو نیند میں بھی جاگنے کا وہم رہتا ہے 
کسی بے چہرہ دکھ سے لڑکھڑاتے ہیں قدم میرے 
عجب اک بے کلی سے کانپنے لگتا ہے من میرا 
کسی انجان غم سے آنچ دیتا ہے بدن میرا

 

 

خیال آتا ہے گہری نیند میں چلنا نہیں اچھا 
کبھی اس سحر سے خود کو مجھے آزاد کرنا ہے 
خبر رکھنی ہے کچھ اپنی‘ نہ اُس کو یاد کرنا ہے 
ایک نظم 
شام پڑتے ہی یہ نیلا آسماں جب سبز کُہرے 
کی تہوں میں ڈوب جاتا ہے تو میں ڈرتا ہوں 
اور پہلے کی نسبت اور بھی آہستگی سے سانس لیتا ہوں 
یہ جتنے رنگ فرشِ شام کے سبزے سے ملحق ہیں 
مجھے بھی اچھے لگتے ہیں‘ مری آنکھوں کو جچتے ہیں 
مگر جب میرے ہونٹوں پر انہی رنگوں کے سایے ہیں 
اسی گُم سُم اندھیرے میں نمو پاتی سیاہی کا 
الائو جاگ اٹھتا ہے 
زباں ناآشنائی کے کسیلے ذائقے سے آشنائی کے 
سفر میں سوکھ جاتی ہے‘ چٹختی ہے تو میں ڈرتا ہوں 
اور پہلے کی نسبت اور بھی آہستگی سے سانس لیتا ہوں

 

 

کوئی دن ہو کہ میں اس شام کے اندھے بہائو میں 
کسی معصوم بچے کی ہنسی لے کر اُتر جائوں 
اور ان سیّال رنگوں کی طنابیں کھینچ کر کہہ دوں 
یہ اپنی لہر میں بہتے شکارے روک دو‘ اور 
آسماں کے سبز پڑنے سے ذرا پہلے 
مجھے اس تیرگی کے دوسری جانب اُترنے دو 
آج کا مقطع 
ظفرؔ، یہ بھوک بھی سازِ طلب کی ایک صورت ہے 
سو‘ میں ایسے میں خالی پیٹ کو نقّارہ کرتا ہوں 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved