تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     24-03-2014

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں

جس دن سے اس ملک میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ؐ کے مطابق قوانین شرعیہ کے نفاذ کے مطالبے اور گفتگو کا آغاز ہوا ہے‘ دو طبقات ایسے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور خلفائے راشدین کے دور سے ایسی مثالیں ڈھونڈ کر سامنے لاتے ہیں جس سے یہ جواز پیدا کیا جا سکے کہ اللہ کی بتائی گئی سزائیں یا احکامات وقت اور حالات کے تحت تبدیل کی جا سکتی ہیں۔ ان میں ایک تو وہ سیکولر طبقہ ہے جس کا مقصد قرآن و سنت کو ناقابل عمل اور سزائوں کو وحشیانہ ثابت کرنا ہوتا ہے‘ دوسرے وہ دانشور اور علماء ہیں جو مغرب کی تہذیب و ثقافت سے اس قدر متاثر ہیں کہ اسلام میں جو چیز مغرب کے قانون‘ تہذیب یا اخلاق پر پوری نہیں اترتی اسے اول تو توجیہات سے اسلام سے خارج کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر ایسا ممکن نہ ہو سکے تو اس کی تبدیلی کا اختیار حکمران‘ عوام یا پھر پارلیمنٹ کو دینے کے لیے تاریخی حوالے ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ سیدنا عمرؓ کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ کوئی ان کے فیصلوں کو بغیر سیاق و سباق ایسے پیش کرتا ہے جیسے مجتہد عصر ہو۔ یہ مجتہدین ٹیلی ویژن پروگراموں اور بحثوں میں ایک دلیل ٹھونک بجا کر دیتے ہیں اور وہ یہ کہ حضرت عمرؓ نے چوری کی سزا میں ہاتھ کاٹنے کا صریح حکم قحط کے زمانے میں معطل کر دیا تھا۔
اس سے پہلے کہ اس حکم کی شرعی باریکیوں کی جانب آئوں مجھے ان ماہرین علم دین و دنیا سے ایک سوال کرنا ہے: اگر سیدنا عمرؓ کے اس حکم پر اتنا زور دیتے ہو تو کیا ان کے باقی تمام احکام بھی اسی طرح نافذ کرنا چاہو گے؟ ایسے لگتا ہے کہ ملک میں مکمل شریعت نافذ ہو چکی ہے، زانی کو سنگسار کیا جا رہا ہے، سود کا خاتمہ ہو چکا ہے، پردے کے احکامات نافذ ہیں، ذخیرہ اندوزی پر سزا اور جھوٹے الزام (قذف) پر کوڑے لگ رہے ہیں، بس اچانک قحط آ گیا ہے اور اب قرآن کا حکم معطل کر دینا چاہیے کیونکہ سیدنا عمرؓ ابن خطاب نے ایسا کیا تھا۔ کیا سیدنا عمرؓ نے صرف یہی حکم جاری کیا تھا کہ ہاتھ کاٹنے کی سزا پر عمل نہ ہو؟ کیا عمرؓ ابن خطاب کے سوئس بنکوں میں اربوں ڈالر اور بیرون ملک کاروبار کے باوجود قحط آیا تھا؟ کیا اربوں روپے ذاتی تعیش پر اڑانے‘ عالیشان محلات میں رہنے‘ وسائل اور سرمائے پر چند افراد کے قابض ہونے اور لاکھوں ٹن غلہ ذخیرہ ہونے کے باوجود قحط آیا تھا؟ سیدنا عمرؓ کا طرز عمل دیکھیں، حضرت عمرؓ کی رنگت انتہائی سفید تھی‘ آپ گھی اور دودھ استعمال کرتے تھے‘ لیکن جب لوگ قحط میں مبتلا ہوئے تو دونوں چیزیں اپنے اوپر حرام کر لیں‘ جس کی وجہ سے ان کی رنگت سیاہ پڑ گئی (علی بن حسن، تاریخ مدینہ‘ دمشق) ان کے غلام اسلم کے بقول ''ہمیں اندیشہ تھا کہ اگر قحط کا خاتمہ نہ ہوا تو حضرت عمرؓ شدت غم سے انتقال کر جائیں گے‘‘ (المصرفۃ التاریخ) یہ رویہ صرف حضرت عمرؓ نے اپنی ذات تک لازم قرار نہ دیا بلکہ ''حضرت عمرؓ نے کھاتے پیتے گھرانوںکو فقراء اور مساکین کے کھانے کے انتظام کرنے کا حکم دیا (ابن رجب، فتح الباری) ''مسلمانوں کے گھروں میں جتنے لوگ موجود ہوتے حضرت عمرؓ اتنے ہی اور بھیج دیتے اور فرماتے کہ انسان آدھی غذا سے ہلاک نہیں ہوتا‘‘ (فتح الباری) اور وہ اس کا استدلال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے لیتے: ''ایک فرد کا کھانا دو کے لیے‘ دو کا چار اور چار کا کھانا آٹھ کے لیے کافی ہوتا ہے‘‘۔ (مسلم) یہ قحط 17 ہجری کے آخر میں اور 18ہجری کے آغاز میں آیا تھا، اسے ''عام امر مادہ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ قحط اس قدر شدید تھا کہ بہت سے لوگ لقمہ اجل بن گئے‘ یہاں تک کہ وحشی درندے بھی گھبرا کر انسانوں کے پاس پناہ لیتے تھے۔ (العینی) چوری کی سزا کے موقوف کرنے کا ستدلال بھی سیدنا عمرؓ نے قرآن پاک کی سورۃ المائدہ کی اس آیت سے لیا: ''پس جو شخص شدت کی بھوک میں بے قرار ہو جائے بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور مہربان ہے‘‘(3:5) حضرت عمرؓ سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے اور انہیں علم تھا کہ اضطرار کی حالت میں آپؐ کا کیا طرز عمل تھا۔ وہ طرز عمل ملاحظہ ہو۔ 
حضرت عبادہ ؓ بن شرجیل کہتے ہیں: ''ہمارے علاقے میں قحط پڑ گیا تو میں بھوک سے مجبور ہو کر مدینہ کے ایک باغ میں گھس گیا اور وہاں سے کچھ خوشے توڑ کرکھا لیے اور کچھ اپنے کپڑے میں باندھ لیے۔ اتنے میں باغ کا مالک آ نکلا، اس نے مجھے مارا اور میرا کپڑا بھی چھین لیا۔ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور سارا قصہ ذکر کیا۔ آپؐ نے باغ کے مالک سے فرمایا: اگر یہ بھوکا تھا تو تُو نے اسے کھانا نہیں کھلایا اور اگر یہ نادان تھا تو تُو نے اسے تعلیم نہیں دی، پھر اس کوکپڑا واپس کرنے کا حکم دیا اور حضرت عبادہ کو ایک نصف وسق غلہ دینے کا حکم دیا‘‘ (سنن ابن ماجہ) یہ تھا رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل، وہ جو شارع قرآن ہیں۔ یہ قرآن ان پر نازل ہوا تھا، اس ملک کے کسی ماڈرن مولوی یا جدید دانشور پر نہیں اترا تھا۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قحط زدہ شخص پر حد نافذ نہیں کرتے تو وہ شہر جس پر بحیثیت مجموعی قحط ہو‘ وہاں حد کو موقوف کرنے پر حضرت عمرؓ کو نئی شریعت کا بانی کیسے کہا جا سکتا ہے؟ جہاں تک زمینوں کے بارے میں حضرت عمرؓ کا فیصلہ تھا وہ قرآنی تعلیمات اور رسول اکرمﷺ کے طرزِ عمل کے عین مطابق ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اس ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے لکھا ہے: ''نبی اکرمﷺ نے یہ فیصلہ نہیں فرمایا کہ مفتوحہ زمینیں ہمیشہ مجاہدین میں تقسیم کی جانی ہیں۔ اگر ایسا کوئی حکم حضورؐ نے دیا ہوتا اور
حضرت عمرؓ نے اس کے خلاف عمل کیا ہوتا تو آپ کہہ سکتے تھے کہ انہوں نے حضورﷺ کا فیصلہ بدل دیا یا پھر یہ دعویٰ اس صورت میں کیا جا سکتا تھا جبکہ حضرت عمرؓ نے اپنی زمینوں کو مجاہدین سے واپس لے لیا ہوتا جنہیں حضورﷺ نے اپنے عہد میں تقسیم کیا تھا‘ لیکن ان دونوں میں سے کوئی بھی بات پیش نہیں آئی تھی۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ منقولہ زمینوں کو لازماً مجاہدین میں تقسیم کر دینا سرے سے کوئی اسلامی قانون تھا ہی نہیں۔ نبی اکرمﷺ نے مفتوحہ اراضی کے معاملے میں حسبِ موقع و ضرورت مختلف موقعوں پر مختلف فیصلے فرمائے تھے‘ بنونضیر، بنی قریظہ، خیبر‘ فدک‘ وادی القریٰ‘ مکہ‘ طائف کی مفتوحہ اراضی میں سے ہر ایک کا بندوبست عہدِ رسالتؐ میں الگ الگ طریقوں سے کیا گیا تھا اور ایسا کوئی ضابطہ نہیں بنایا گیا تھا کہ آئندہ ایسی اراضی کا بندوبست لازماً فلاں طریقے یا طریقوں سے کیا جائے۔ اس لیے حضرت عمرؓ نے اپنے عہد میں صحابہؓ کے مشورہ سے اراضی مفتوحہ کا جو بندوبست کیا‘ اسے حضورﷺ کے فیصلوں میں ردوبدل کی مثال قرار نہیں دیا جا سکتا‘‘ (سنت کی آئینی حیثیت) 
میرے محدود مطالعہ کے مطابق حضرت عمرؓ کا کوئی فیصلہ ایسا نہیں جو کتاب اللہ‘ سنتِ رسولﷺ کے مطابق نہ تھا اور اگر دونوں کسی سلسلے میں خاموش ہوتے تو وہاں بھی حضرت عمرؓ رسول اکرمﷺ کی ان ہدایات پر عمل کرتے جو آپؐ نے معاذ بن جبلؓ کو گورنر بناتے وقت کی تھی‘ یعنی اہلِ الرائے سے مشورہ کر کے عمل کرنا۔ اگر یہ صرف ایک علمی بحث ہوتی تو شاید میں اس بحث میں نہ پڑتا، لیکن کم از کم پانچ ''عظیم‘‘ دانشوروں نے اپنی تحریروں سے ایسے نتیجے اخذ کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت عمرؓ کے مقامِ اجتہاد پر موجودہ حکمرانوں کو بٹھا دیا جائے۔ علمی بحث بھی گزشتہ چودہ سو سالوں میں اس امت نے کبھی نہیں کی بلکہ حضرت عمرؓ کے اقدامات سے اس طرح کے نتائج سب سے پہلے ڈاکٹر صبی محمصانی نے اپنی کتاب ''فلسفہ تشریع الاسلامی‘‘ میں اخذ کیے۔ اس عرب سکالر کی کتاب 1945ء میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد مولوی تقی امین کی ''احکام شریعہ میں حالات و زمانہ کی رعایت‘‘ محمد حنیف ندوی کی ''مسئلہ اجتہاد‘‘ اور غلام احمد پرویز شامل ہیں۔ ان لکھے گئے کالموں میں یہ چند نکات انہی کتابوں میں پہلی دفعہ پیش کیے گئے جنہیں ان لوگوں نے اپنے مقاصد کے لیے درج کر دیا۔ ان نکات کا مختلف علماء نے اپنی کتابوں میں سیر حاصل جواب دیا ہے، لیکن اس ملک کا سیکولر طبقہ‘ کارپوریٹ جمہوریت کے علمبردار اور اسلام کو کھینچ تان کر مغربی اقدار کے تابع کرنے والے اور اینگلوسیکسن قانون کے عشاق وکلاء انہیں بار بار پیش کرتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اس ملک میں شریعت مکمل طور پر نافذ ہو چکی ہے اور تمام حکمران امیرالمومنین ہیں‘ پارسا ہیں اور بس صرف انہی چند تعبیروں کا مسئلہ باقی رہ گیا ہے۔ جو لوگ شریعت کے قانون کو فرسودہ‘ وحشیانہ اور دقیانوسی کہتے نہیں تھکتے ان کے قلم سے سیدنا عمرؓ کو ایک نئی شریعت کے بانی کی حیثیت سے پیش کرنے کی مقاصد پوشیدہ نہیں۔ مقصد ایک ہی ہے کہ پارلیمنٹ کے کرپٹ اور بے علم ارکان کو فقیہ بنایا جائے اور بھٹو‘ بے نظیر‘ نوازشریف کو امیرالمومنین۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved