تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     24-03-2014

مگر!

مگر بے حسی کا علاج کیسے ہو‘ کل گجر خان جاتا ہوں اور عارف سے پوچھتا ہوں۔ بدحال بلوچستان‘ خون آلود کراچی اور بھوک سے سسکتے تھر نے مسافر کو برباد کر دیا ؎ 
بارہا پلکوں سے کرنیں باندھ کر 
کھینچنے لگتا ہوں سورج کو... مگر! 
سخت گیر آدمی کا دل پگھل گیا۔ الوداع کہتے ہوئے اس نے مجھ سے کہا: مجھ سے اور میرے لوگوں سے اگر کوئی کوتاہی سرزد ہوئی تو ہمیں معاف کر دو۔ 
پہلی نظر ہی میں‘ جان گیا تھا کہ کس کڑے مزاج کا وہ فوجی افسر ہے۔ پوچھا: چائے پیو گے یا کافی؟ عرض کیا‘ کچھ بھی نہیں۔ نظروں میں اس نے مجھے تولا اور یہ کہا: میں اصرار نہ کروں گا... چٹان سے آتی ہوئی آواز۔ صوابی کے پٹھان کو ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ 24 گھنٹے بعد الوداع کہنے‘ اخبار نویس‘ اس کی خدمت میں حاضر ہوا تو اتوار کی دوپہر‘ بات سنی۔ سبز چائے پہ اصرار کیا اور پیالی لا کر ملازم نے رکھی تو یہ کہا: ہارون صاحب ذرا ٹھنڈی چائے پیتے ہیں‘ وقت ان کے پاس ہے نہیں‘ کر کے لائو۔ یہی نہیں‘ ایک نہایت ہی عمدہ بریفنگ دی‘ کم از کم ایک دن کے لیے مسافر کو اذیت سے رہا کر دیا۔ 
یہ پاکستانی فوج ہے‘ جسے دانشور سمجھ پائے اور نہ سیاستدان۔ رہے‘ بھارتی امریکی اور عالمی میڈیا‘ جن کا اثر مجروح معاشرے پر روز افزوں ہے‘ تو خواہ وہ سمجھتے ہوں‘ سمجھائیں گے کیوں۔ دشمن سے رحم کی امید رکھنا‘ احمقوں کا کام ہے‘ تقدیر سے جو ہار چکے ہوں۔ 
ایک دن کراچی میں باخبر لوگوں سے طویل صلاح مشورے اور ایک دن تھر کے دور دراز دیہات میں گزارنے کے بعد‘ سب سے حیران کن انکشاف یہ ہے کہ مصیبت کے ماروں کی مدد فوج کر رہی ہے‘ اس کا اٹھارواں ڈویژن۔ میجر جنرل انعام الحق تو براہِ راست نگران ہیں۔ موم بتی کے دونوں سروں کی طرح جلتے ہوئے۔ کور کمانڈر سجاد غنی بھی‘ کڑھتے اور ریاضت پہ تُلے رہتے ہیں۔ در آں حالیکہ دردِ سر اور بھی ہیں اور کچھ تھر کی سلگتی ریت سے زیادہ زخم لگانے والے۔ 
کل شام‘ جب ہیلی کاپٹر پر اذیت ناک سفر کے اختتام پر‘ جنرل کے فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف بحریہ ٹائون کے ملک ریاض تھے۔ ہر کام میں تعجیل کا شکار۔ انہوں نے کہا: یہ بتایئے کہ تھر کے لیے کتنا روپیہ درکار ہے۔ ایک ارب‘ دو ارب‘ تین ارب‘ پانچ ارب... جواب دینے کے لیے جنرل صاحب اتنی دیر بھی نہیں لگاتے‘ جتنا ایک پرندہ دانا چگنے میں۔ ترنت کہا: حکومت سے بات کیجیے۔ 
ذمہ داری حکومت سندھ کی ہے۔ بوجھ مگر فوج نے اٹھا رکھا ہے۔ صوبائی حکومت کا کردار ثانوی ہے۔ ان کے بعد‘ سب سے زیادہ ملک ریاض کا۔ صوبائی حکومت کے بارے میں سبھی کی رائے ہے کہ میڈیا اگر آسمان سر پہ نہ اٹھا لیتا تو وہ ٹس سے مس نہ ہوتی‘ حتیٰ کہ ہزاروں مر جاتے‘ ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مر جاتے۔ زیادہ باخبر لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں اور پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ کراچی کی صورتِ حال کو دانستہ وہ سنورنے نہیں دیتی۔ عدم استحکام اسے سازگار ہے‘ کھیل کھیلنے کی خاطر۔ 
جماعت اسلامی‘ جماعت الدعوۃ‘ ایدھی فائونڈیشن اور الرشید ٹرسٹ کہاں ہیں؟ پندرہ لاکھ افتادگان خاک کو مرنے کے لیے انہوں نے چھوڑ دیا۔ ایم کیو ایم‘ نون لیگ‘ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کہاں ہیں؟ سرخی پائوڈر والی این جی اوز کہاں ہیں؟ چیخنے والے بہت ہیں‘ ہاتھ بٹانے والا کوئی نہیں۔ سندھ حکومت کی بے حسی کا نوحہ لکھنے کے لیے کوئی سعدی شیرازی ہوتا ؎ 
چناں قحط سالی شد اندر دمشق
کہ یاراں فراموش کردند عشق 
اول اول مرکزی اور صوبائی حکومت کی امداد قبول کرنے سے اس نے انکار کر دیا تھا۔ جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان کا نام اکرام سے لیا جاتا ہے۔ کراچی کے میئر تھے‘ تب بھی اتوار کا دن تھر میں گزارا کرتے۔ ایک سو سے زیادہ کنویں انہوں نے کھدوائے تھے۔ ایک کنویں کا مطلب یہ ہے کہ ایک گائوں آباد رہے گا۔ دوسرے ارباب رحیم کہ ان کی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں‘ ترقیاتی منصوبے بنتے رہے۔ باقی سب چھان بورا۔ 
پیر صاحب پگاڑا شریف سید صبغت اللہ شاہ راشدی اور بازارِ حصص کے بادشاہ عقیل کریم ڈھیڈی مجھے روکتے رہے۔ اب وہاں جا کر کیا کرو گے۔ اناج اور پانی پہنچ چکا۔ ضرورت کچھ دن میں پڑے گی۔ جی ہاں‘ کچھ دن میں پڑے گی‘ مگر مسافر کے دل کا بوجھ۔ کم از کم خود کو وہ دھوکہ دے سکے کہ میں نے اپنا فرض پورا کیا۔ گوجرانوالہ کے شیخ اسلم (بھولا) سے کہا: دس لاکھ روپے درکار ہیں۔ کہا‘ ضرور۔ ڈاکٹر امجد ثاقب اور احسن رشید سے درخواست کی: چھ میں سے کم از کم ایک تحصیل کے لیے مستقل منصوبہ بندی اور سرمایہ۔ دونوں نے وعدہ کر لیا۔ عقیل کریم نے کہا: جتنا سامان کہو‘ بھجوا دوں۔ عرض کیا: ٹرک نہیں‘ مجھے کار پہ جانا ہے۔ لشکر کا لشکر درکار ہوتا ہے‘ ورنہ سب پانی چھلنی میں سے بہہ جاتا ہے۔ یہ وہی عقیل کریم ہیں‘ جو ان دنوں معتوب ہیں۔ گزشتہ ایک ہزار سال کی تمام خرابیوں کے ذمہ دار۔ نقاد پاکباز ہیں اور اس قدر کہ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔ 
ایک کے بعد دوسرا‘ دوسرے کے بعد تیسرا گائوں‘ حتیٰ کہ بھارتی سرحد کے قریب تر۔ میڈیا کے اکثر لوگ‘ صحرا کو چھُو کر چلے گئے۔ اتنی دیر میں تو ایک آدمی بھی حالِ دل نہیں کہتا۔ انگریزوں کے دور سے گندم کی مفت فراہمی کا نظام چلا آتا ہے اور نہایت اعلیٰ۔ ہر عشرے میں ایک دو بار خشک سالی ہوا کرتی ہے۔ بات بس اتنی تھی کہ بروقت نوٹیفکیشن جاری کر دیا جاتا۔ 
بارش اب کے برس دیر سے برسی اور ٹھنڈ دیر تک رہی۔ نمونیہ پھیلا اور کیوں نہ پھیلتا۔ 80 فیصد سے زیادہ مائیں کم خوراکی کا شکار ہیں۔ وہ لوگ دو ہزار برس سے‘ جو اپنی تقدیر پہ شاکر ہیں۔ تب یہ ویرانہ آباد تھا۔ پوٹھوہار کی طرح‘ اس سے زیادہ 
دل کے ویرانے کا کیا مذکور ہے 
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا 
بجھے ہوئے چہرے‘ اتنے بجھے ہوئے کہ آنکھوں تک میں زندگی نہیں۔ جلی ہوئی کھال اور مری ہوئی امید۔ ایک تھری سے پوچھا تمہارا حال کبھی کسی نے دریافت کیا‘ بولا: ہاں‘ بھٹو نے۔ ہم سندھی تو ہیں نہیں کہ ان کے وارث بھی ہماری فکر کریں۔ تھر کے مکین مرتے چلے گئے اور صوبے میں جشن برپا تھا ''مرسوں‘ مرسوں‘ سندھ نہ ڈیسوں‘‘۔ 
آدمی کی روح چیخ اٹھتی ہے۔ کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔ وہ پانی مانگتے ہیں‘ صرف پانی۔ کچھ بھی نہیں اور کچھ بھی نہیں۔ بہتی نہروں سے‘ چند سو کنویں۔ سمندر کا پانی صاف کر کے پہنچانا ہو تو ملک ریاض کا عطیہ ہی کافی رہے گا۔ موسمیات کے ماہر ڈاکٹر قمر زمان چودھری کہتے ہیں کہ ٹھٹھہ ا ور بدین کا مسئلہ بھی ساتھ ہی تمام ہو جائے گا۔ سنتا کوئی نہیں‘ کوئی نہیں سنتا۔ دل پتھر ہو گئے۔ سب کے سب پرویز اشرف ہو گئے۔ گیلانی اور زرداری ہو گئے۔ بلاول بھٹو کی چیخ پکار سے اگر چشمے ابل سکیں؟ 
چشمے صحرا میں بہت ہیں مگر نمکین پانی۔ یہ تو چند لاکھ ہیں‘ آدھی آبادی کو پانی بہرحال میسر ہے۔ امریکہ میں سالٹ لیک سٹی ایک عظیم الجثہ شہر ہے‘ ریگ زار کے قلب میں۔ سب سہولتیں نیویارک اور لاس اینجلس والی۔ تھر کے درماندہ تو صرف پانی مانگتے ہیں۔ اناج وہ کما لاتے ہیں۔ سندھ کے سرسبز حصوں میں گندم اور چاول کی فصلیں کاٹنے کے موسم میں مزدوری کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا: ہم شریف لوگ ہیں۔ جرائم برائے نام ہیں۔ ڈھور ڈنگر ویرانوں میں کھلے پھرتے ہیں۔ مکان سادہ‘ اتنے سادہ کہ خود ہی بنا لیتے ہیں۔ مٹی کا گوپا‘ شاخوں اور بیلوں سے‘ جو گرمی اور سردی سے محفوظ رکھتی ہیں۔ 
پانی کی تین بڑی پائپ لائنز ہیں اور سب فوج کی بچھائی ہوئی۔ دور دراز کے دیہات میں اکثر پانی کے بڑے ذخیرے بھی۔ صوبائی حکومت کیا کرتی ہے؟ بس حکومت کرتی ہے۔ اکثر دیہات میں‘ آدھا خاندان سارا دن پانی ڈھونے پہ لگا رہتا ہے۔ 
دھاگا کتنا ہی کیوں نہ الجھا ہو‘ اس کا سرا ہاتھ آ چکا۔ پانی‘ بس پانی۔ اس کے بعد؟ ہر غریب خاندان کے لیے‘ چند بکریاں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب‘ ہزاروں کو سود کے بغیر قرض دینے پر آمادہ ہیں۔ دس ہزار فی خاندان بہت ہوں گے۔ 
بکری کے بچے کی قیمت ہی کیا۔ میرا دل رو پڑا‘ میں نے کہا: ایک تعلقہ مجھے دو‘ امید ہے کہ میرے دوست اور قاری دس بیس کروڑ تو عطا کر ہی دیں گے۔ صرف کراچی کے دوست۔ 
خشک سالی کی بات دوسری ہے‘ وگرنہ ایسا بھی افلاس نہیں۔ بکریاں بہت ہیں‘ گائے اور بھیڑ بھی۔ ایک مور کی قیمت چالیس ہزار سے ایک لاکھ تک ہوتی ہے۔ ہرن پالے جا سکیں تو ساری دنیا کے چڑیا گھروں کو فراہم کیے جا سکتے ہیں۔ بارش برس جائے تو گوار کی فصلیں لہلہا اٹھتی ہیں۔ صحرا ہنسنے لگتا ہے۔ ہولی کے رنگ مہینوں تک سب اعصاب پہ طلوع رہتے ہیں۔ ایک ایکڑ سے چالیس پچاس ہزار کی آمدن۔ آلو‘ چاول اور گنے کے برابر۔ اسلام آباد شہر سے کم آبادی ہے اور لاکھوں مربع میل کا وسیع و عریض صحرا کہ کبھی مہربان بہت‘ کبھی بے نیاز بہت ؎ 
امید کا آنگن فرسودہ‘ وعدوں کی چھتیں کمزور بہت 
اور اب کے ہجر کے موسم میں برسی ہے گھٹا گھنگھور بہت 
روپیہ تو حکومت کے پاس ہے‘ پھر فوج یہ سب کچھ کیسے کر سکتی؟ 24 گھنٹوں میں تین بڑے‘ 37 چھوٹے ہسپتال۔ ایک ایک شہری تک دو بار مدد پہنچائی جا سکی۔ ہر چند کلو میٹر کے بعد ایک کیمپ اور باقیوں کے لیے ہیلی کاپٹر سے گرائے جانے والے تھیلے۔ آٹا‘ چینی‘ چائے اور گھی۔ 
جس کے دل میں درد ہے اور جو راتوں کو سو نہیں سکتا‘ اس سے پوچھا کہ مسئلے کی جڑ کیا ہے۔ بولا: بدانتظامی۔ بدانتظامی کا سبب کیا ہے۔ کہا: بے حسی۔ مگر بے حسی کا علاج کیسے ہو‘ کل گجر خان جاتا ہوں اور عارف سے پوچھتا ہوں۔ بدحال بلوچستان‘ خون آلود کراچی اور بھوک سے سسکتے تھر نے مسافر کو برباد کردیا ؎ 
بارہا پلکوں سے کرنیں باندھ کر 
کھینچنے لگتا ہوں سورج کو... مگر! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved