اپنے ابتدائی دو ر سے ہی انٹر نیٹ کو ایک ایسے نظام کے طور پر دیکھا گیا جہاں معلومات کے بہائو اور پیغامات کے تبادلے کو کوئی حکومت چیک کرسکے اور نہ ہی انہیں سنسر کرنا ممکن ہو، لیکن یہ تب کی بات ہے، آج ہم سائبر جاسوسی کی دنیا میں سانس لے رہے ہیں۔ آج ریاستوں کو شدت سے احساس ہورہا ہے کہ ای میل، ٹوئیٹر اور فیس بک کے ذریعے ان کی سرحدوں میںانتشار پھیلانے والے پیغامات بھیجے جارہے ہیں ؛ چنانچہ بہت سی حکومتیں شورش پسندی کی حامل ایسی معلومات کے تبادلے پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور بہت سے کیسز میں ایسے پیغامات کو بلاک بھی کردیا جاتا ہے۔
ہم پاکستان میں بھی نہایت احمقانہ طریقے سے سائبر سپیس میں ہونے والی پیغام رسانی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ زرداری حکومت میں ٹوئیٹر اور ایس ایم ایس کے ذریعے بھیجے جانے والے ایسے پیغامات کو بلاک کرنے کے لیے قانون سازی کرنے کی ناکام کوشش کی گئی جن میں''مردِ اول ‘‘ اورکچھ اہم ریاستی اداروں کا مذاق اُڑایا گیاتھا۔ جب سائبر سپیس کو کنٹرول کرنے کی کوشش ناکامی سے دوچار ہوئی تو پھر ایسے سافٹ وئیر اور ہارڈ وئیر حاصل کرنے کی سعی کی گئی جو ناپسندیدہ ویب سائٹس اور ای میلز کو بلاک کرسکیں۔ اس ضمن میں حکومت کا پہلاکلہاڑا یوٹیوب پر چلا اور بیک جنبشِ قلم پاکستانیوں کویوٹیوب پر موجود اربوں ویڈیوز سے استفادہ کرنے سے روک دیاگیا۔ چونکہ حکومت کے پاس ایسی مہارت اور ٹیکنالوجی نہیں تھی جس سے وہ صرف قابل اعتراض مواد پر مبنی پیج کو بلا ک کرتی، اس نے پوری یو ٹیوب کو بندکردیا،اب تک یہ پابندی برقرار ہے اورا س کی وجہ سے پاکستانی انٹر نیٹ صارفین کو‘ جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے،کرب کا سامنا ہے۔
مشکلات میں گھرے ترکی کے وزیراعظم طیب اردوان نے بھی ٹوئیٹر پر پابندی لگاتے ہوئے لاکھوںترک باشندوں کو ناراض کر دیا۔ چونکہ ترک رہنماکو بدعنوانی کے سنگین الزامات کا سامنا تھا اور یہ الزامات سوشل میڈیا یعنی فیس بک اور ٹوئیٹر کے ذریعے برق رفتاری سے عوام میں پھیل رہے تھے، اس لیے اردوان نے 'قاصد‘ کو ہلاک کرنے کا قصدکیا، لیکن ایسا کرتے ہوئے اُنہوںنے گویا اپنے ہی پائوں پرکلہاڑا مار لیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انٹر نیٹ کو جاننے والے افراد جوسوشل میڈیا کو استعمال کرنا چاہیں‘ وہ اُنہیں بلاک کرنے کی سرکاری کوششوں کو ناکام بنا سکتے ہیں ، اس لیے ترکی، ایران اور پاکستان کے انٹر نیٹ صارفین بڑی آسانی سے یوٹیوب یا سوشل میڈیاکوکھول سکتے ہیں۔اصل مسئلہ ایسی پابندیوں کا نہیں بلکہ ریاستوںکی طرف سے سائبر ٹریفک کی جاسوسی کرنے کا ہے، جیسے ایڈورڈ سنوڈن کے دلیرانہ اعتراف سے ظاہرہوا کہ این ایس اے (نیشنل سکیورٹی ایجنسی) خفیہ پروگرام کے ذریعے ہرروز دنیا بھر میں بھیجی گئی کروڑوں ای میلز اور ٹیلی فون کالزکو ریکارڈ کرتی ہے۔ اپنے دفاع میں این ایس اے کا موقف ہے کہ وہ اس Metadata کو سٹور توکرتی ہے لیکن صرف مشکوک گروہ یا افراد، جن پر دہشت گردی کا شبہ ہو‘ کے پیغامات تک ہی رسائی حاصل کی جاتی ہے۔ این ایس اے یہ مواد برطانوی ادارے GCHQ اور دیگر ایجنسیوں کوبھی فراہم کرتی ہے۔
سنوڈن کے اس انکشاف کے بعد بہت شور مچاکیونکہ حکومتوں کو علم ہوا کہ ان رہنمائوں کی جاسوسی کی جارہی ہے اور ان کی ای میلز اور فون کالز کی پرائیویسی ختم ہوچکی ہے۔ این ایس اے کو اپنا بھانڈا پھوٹنے پر خفگی تو ہوئی لیکن اس نے کہا کہ تمام ممالک ہی جاسوسی کرتے ہیں، اس لیے اسے کسی معذرت خواہی کی ضرورت نہیں ؛ تاہم اس پر سب سے سخت رد ِ عمل گوگل، فیس بک اور یاہو کی طرف سے آیا ۔ یہ بڑی فرمیں عدالت کے خفیہ احکامات کی روشنی میں این ایس اے کے ساتھ تعاون کررہی تھیں لیکن سنوڈن کی طرف سے انکشاف کرنے کے بعد انہیں احساس ہو اکہ اُنہوں نے اپنے صارفین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ اب وہ اوباما انتظامیہ پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں کھل کر سامنے آئیں اور بتائیں کہ اُنہیں افراد کے ذاتی مواد سے کیا غرض ہے؟اس ضمن میں وہ کمرشل صارفین جو امریکی سرورز پر اپنا مواد ذخیرہ کرتے ہیں، اُن کی پریشانی دوچند ہے۔ان میں سے بہت سوںنے دیگر غیر ملکی سرورز استعمال کرنا شروع کردیے ہیں۔ اس سے کچھ فرموں کوکچھ عرصے کے لیے اربوں ڈالر کا نقصان بھی ہوسکتا ہے۔
اگرچہ سنوڈن کے انکشافات پر امریکہ میں تیز وتند بحث کا تبادلہ دیکھنے میں آیا لیکن اس کے برعکس برطانیہ میں اس کی وجہ سے کوئی طوفان نہیں اٹھا۔اگرچہ لندن کے ''گارڈین‘‘ جیسے معتبر اخبار نے یہ کہانی شائع کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ریاست کی طرف سے شہریوں کے ذاتی مواد تک رسائی کے پروگرام میں اصلاح کی ضرورت ہے لیکن کیمرون حکومت نے الزام لگایا کہ سنوڈن کے انکشافات محض 'سازش‘ ہیںاورگارڈین نے ملک کی سکیورٹی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔ زیادہ تر برطانوی شہری اس بات سے اتفاق کرتے دکھائی دیے کہ جب ان کے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں تو پھر اُنہیں کسی بات کی فکر نہیںہونی چاہیے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ریاستیں ہمیشہ سے ہی شہریوں اور دیگر ریاستوں کی جاسوسی کرتی رہی ہیں۔ 1871ء میں جب پیرس کا محاصرہ کیا گیا تو جرمن افواج فرانس کے دارالحکومت سے پروازکرنے والے 'مشتبہ‘ کبوتروں کو مارگرانے کی کوشش کرتیں‘ مبادا ان کے ذریعے کوئی پیغام بھیجاجارہاہو۔ قدیم زمانے سے ہی حریف گروہوں کے خفیہ کوڈ کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے تاکہ ان کے عزائم سے باخبر رہا جائے۔
دوسری جنگِ عظیم میں جرمنی کی شکست کی ایک وجہ یہ تھی کہ برطانوی ماہرین ان کے پیغامات کے تبادلے کو جاننے کے قابل ہو گئے تھے۔ جرمن کمانڈر یہ سمجھتے ہوئے آپس میں تبادلہ خیالات کرتے کہ ا ن کی لائن محفوظ ہے لیکن برطانوی افواج ان کے خفیہ منصوبوں کو جان لیتیں۔گیارہ ستمبرکے بعد جب دنیا پر اس حقیقت کا انکشاف ہواکہ القاعدہ اوردیگر جہادی گروہ اپنے منصوبوںکے لیے سائبر سپیس کو استعمال کرنے کے ماہر ہیں تو اُنہوںنے فوری طور پر انٹر نیٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے قوانین بنانا شروع کردیے۔ جب میں اپنی کتاب 'Fatal Faultliness‘ کے لیے مواد اکٹھا کررہا تھا تو مجھے احساس ہواکہ سائبر سپیس پرکس طرح کا جہاد جاری ہے۔ اس کی تفصیل کسی اگلے کالم میں بیان کروںگا۔