تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     24-03-2014

چوبیس مارچ ‘ ہوشو شیدی اور ٹوڈی بچوں کے بچے

آج چوبیس مارچ ہے۔۔۔ جنرل ہوش محمد عرف ہوشو شیدی کی شہادت کا دن ، آزاد سندھ کا آخری محافظ اور جیالا سپوت ، صدیوں پہلے افریقہ سے ہجرت کر کے سندھ میں آباد ہونے والے شیدی قبیلے کا فخر۔ ہوش محمد‘ جو سندھ کے تالپور حکمرانوں کی فوج کا جنرل تھا، 24 مارچ 1843ء کو ڈابوکی جنگ میں شہید ہوا۔ آج اس کی شہادت کو ایک سو اکہتر سال ہو گئے ہیں۔ لوگ ہوش محمد کو شاید بھول گئے ہیں لیکن جنگ سے قبل اس کا میدان جنگ میں لگایا ہوا نعرہ آج بھی زندہ ہے، ہو شو شیدی اپنے نعرے کی وجہ سے امر ہو چکا ہے۔
سندھ کی آزادی کا سورج حقیقتاً ہوشو شیدی کی شہادت سے ایک ماہ سات دن پہلے 17فروری 1843ء کو میانی میں غروب ہو چکا تھا‘ لیکن خراب ترین حالات میں بھی سندھ کی آزادی کے لیے سر ہتھیلی پر رکھے‘سندھ کے بیٹوں نے جنرل ہوش محمد شیدی کی قیادت اور میر شیر محمد تالپور کی معیت میں سرفروشی کی ایک داستان رقم کی۔ یہ جنگ وقت کی دُھول اور تاریخ کے صفحات میں ویسے ہی گم ہوتی جا رہی ہے جیسے 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران ملتان میں ہونے والی جدوجہد آزادی دھندلی پڑگئی ہے۔ڈابو یا ڈبا کی جنگ کے بارے میں کسی سے پوچھا تو اس نے لاعلمی کا اظہارکر دیا۔ ڈابو کا مقام پوچھا تو سب نے انکار میں سر ہلا دیا۔ یہ جنگ حیدر آباد کے مشرق میں محض پچیس کلو میٹر دور میر پور خاص روڈ پر ناری جانی گائوں کے مقام پر لڑی گئی۔ یہ جنگ دراصل میانی کی جنگ میں ہونے والی شکست کے بعد سندھ کو آزاد کروانے کے لیے سندھی سرفروشوں کی دوسری کوشش تھی جو رائیگاں گئی۔
ہندوستان میں دھوکے اور فریب کاری سے آہستہ آہستہ پھیلتی ہوئی ایسٹ انڈیا کمپنی کی نظریں اب سندھ پر تھیں اور وہ کسی نہ کسی بہانے سے سندھ پر قبضہ کرنا چاہتی تھی۔ برطانوی راج کی اس 
توسیع پسندی کو برطانوی جنرل سرچارلس نیپئر (کراچی کے بازار حسن نیپئر روڈ والا) کی سرپرستی حاصل تھی۔ بہانہ یہ تھا کہ سندھ کے تالپور امیروں نے 1839ء سے 1842ء کے درمیان ہونے والی اینگلو افغان جنگ میں انگریزوں کا ساتھ نہیں دیا تھا ۔ چارلس نیپئر نے بمبئی ریذیڈنسی میں تعینات انگریز فوج کو ساتھ لیا اور نہایت سرعت سے سندھ میں داخل ہو گیا۔ تالپوروں کی فوج جو زیادہ تر رضا کارانہ طور پر اکٹھے ہونے والے سپاہیوں پر مشتمل تھی اور جو جنگ کی صورت میں طلب کر لیے جاتے تھے‘ اس دوران اکٹھے کر لیے گئے‘ لیکن اسی دوران جنرل چارلس نیپئر اور تالپور امیروں کے درمیان مذاکرات شروع ہوگئے جن کے نتیجے میں فریقین کے درمیان حیدر آباد میں ایک معاہدہ طے پاگیا۔ اس معاہدے کے مطابق حیدر آباد کے تالپور امیر، میر ناصرخان تالپور نے چارلس نیپئر کی بعض شرائط مان لیں اور جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔افراتفری میں اکٹھی کی گئی رضا کار فوج واپس روانہ ہوگئی۔ نیپئر کی فوج واپس بمبئی چلی گئی اور حیدر آباد کی طرف آتی ہوئی میر شیر محمدکی فوج بھی راستے سے پلٹ گئی۔اسی دوران نیپئر نے خیر پورکے تالپور حکمران کو باقی تالپور امیروں سے علیحدہ کر کے اپنے ساتھ ملا لیا۔ سقوط سندھ میں میر علی مراد خان تالپور آف خیر پورکی غداری کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
چارلس نیپئر بمبئی کی طرف روانہ ہوچکا تھااور سندھی فوجی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے تھے لیکن چارلس نیپئر اپنی تربیت یافتہ اوراس وقت کے جدید ترین آلات حرب سے لیس فوج کے ساتھ اچانک راستے سے واپس پلٹا اور نہایت تیزی سے سفرکرتا ہواحیدر آباد آن پہنچا۔ حیدر آباد کے تالپور امیر نے دوبارہ فوج اکٹھی کرنا چاہی مگر وہ اپنی سندھ بھر میں پھیلی ہوئی فوج کا محض ایک تہائی اکٹھاکر سکا۔اس دوران میر شیر محمد اپنے آٹھ ہزار سپاہیوںکے ہمراہ تمام ترکوشش کے باوجود حیدر آباد نہ پہنچ سکا۔ تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں طرف برابرکی افواج تھیں۔انگریزی اور سندھی فوج کی تعداد سے قطع نظر جو دونوں طرف تقریباً آٹھ ہزار کے لگ بھگ تھی‘ بنیادی فرق تربیت اور سامانِ حرب کاتھا۔ایک طرف جزوقتی لڑنے والے رضا کار تھے جن کی اکثریت محض تلواروں‘بھالوں اور برچھیوں سے مسلح تھی اورگنتی کے چند سپاہیوںکے پاس''بھرمار‘‘ بندوقیں تھیں‘ چند پرانی اور متروک قسم کی ایرانی توپیں اور بس۔ دوسری طرف پیشہ ورانہ تربیت اور ایک سو پچاس گز تک درست نشانہ لگانے والی مسکٹ رائفلوں سے مسلح اٹھائیس سو انگریز افسر اور سپاہی اور ان کے ہمراہ پانچ ہزار سے زائد منظم اور تربیت یافتہ ہندوستانی سپاہی۔انگریز دونوں اطراف کی افواج کی تعداد بتاتے ہوئے بڑی مبالغہ آرائی کرتے ہیں اور اپنی فوج کی تعداد محض اٹھائیس سو بتاتے ہیں جو صرف انگریز تھے اور اپنی ہندوستانی سپاہیوں پر مشتمل فوج کی تعدادکا ذکر ہی نہیں کرتے۔ جنگ شروع ہوئی تو ایک طرف بہادری‘سرفروشی اور جذبہ آزادی تھا‘ دوسری طرف تربیت‘اسلحہ اور ٹیکنالوجی تھی۔ بہادروں کو شہادت اور اسلحے کو فتح نصیب ہوئی۔
تالپوروںکی فوج کی شہادتیں ناقابلِ یقین ہیں۔آٹھ ہزار کے لشکر میں سے پانچ سے چھ ہزارکے درمیان سندھی سرفروش شہید ہوئے۔ چار سے پانچ گھنٹے کی اس جنگ میں تالپور فوج کے باسٹھ سے پچھتر فیصد تک فوجی شہید ہوئے۔ تالپوروں کی فوج کے سپاہی تلواریں سونتے‘برچھیاں اٹھائے برطانوی فوج کی طرف بڑھتے تھے اور سامنے سے آتی ہوئی گولیوں کی باڑ اورتوپوں کے گولوں سے اپنی دھرتی کو سرخ کرتے ہوئے خاک کا حصہ بنتے تو پیچھے سے ایک اور قطاراسی جوش اورجذبے سے خاک و خون کا حصہ بننے کے لیے آگے آ جاتی۔انگریزوں کی فوج کا کتنا نقصان ہوا؟اس بارے مختلف آرا ہیں جو دو سو چھپن سے دو ہزارکے درمیان بتائی جاتی ہیں مگر یہ بات شاید اتنی اہم نہیں جتنی اہم بات تالپور فوج کی شہادتوں کی ہے جنہوں نے بہادری اور جانفروشی کی تاریخ رقم کی۔ میر ناصر علی خان خودگھنٹوں گھوڑے پر سوار تلوار چلاتا رہا تا وقتیکہ کہ دن ڈھلے اس کا خون سندھ کی سرزمین کو رنگین کرگیا۔17فروری 1843ء کو سندھ کی آزادی کا سورج غروب ہوگیا۔اس دن میر ناصر علی خان کے ہمراہ میر شداد خان ‘میر حسین علی خان‘میر رستم خان تالپور‘اور دیگر سردار بھی شہید ہوئے ۔
گو میانی کی جنگ بڑی فیصلہ کن تھی اور بظاہر سندھ میں مزاحمت نظر نہیں آتی تھی مگر یہ اندازہ غلط ثابت ہوا اور سندھ کے جذبہ آزادی سے سرشار بیٹے جنرل ہوش محمد شیدی کی قیادت میں اکٹھے ہوئے اور حیدر آباد کی طرف چل پڑے جہاں حیدرآبادکے قلعے میں جنرل چارلس نیپئر قلعہ بند تھا۔ڈابو کے مقام پردونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا۔یہ بھی میانی جیسی جنگ تھی جس میں ہوشو شیدی کی فوج کے پاس محض جذبہ تھا اور لڑنے کے لیے تلواریں ، قطار در قطار شہید ہونے کے منتظر جنگجو اور سامنے بندوقوں‘رائفلوں اور توپوں سے مسلح قتل عام کے لیے تیار فوج۔ جنرل ہوش محمد نے تلوار ہوا میں لہراتے ہوئے گھوڑے کی پشت سے نعرہ لگایا''مرویسوں پر سندھ نہ ڈیسوں‘‘ (مر جائیں گے مگر سندھ نہیں دیں گے) قطار در قطار شہید ہوتے ہوئے آزادی کے متوالے‘ افریقہ سے ہجرت کر کے سندھ میں آباد ہونے والے شیدی قبیلے کا گھوڑے پرداد شجاعت دیتا ہوا آبنوسی رنگ کا بہادر سپوت اور توپوں کی گھن گھرج ۔۔۔۔۔گھنٹوں تک غیر معمولی وزنی تلوار چلانے والے ہوشو شیدی نے اپنے نعرے کا پہلا حصہ سچ ثابت کیا اور سندھ کی آزادی پر قربان ہوگیا ؛ تاہم وہ سندھ کی آزادی کی حفاظت نہ کر سکا۔ شہادت سے قبل جب اسے مکمل شکست کا اندازہ ہوا تو اس نے میر شیر محمد تالپورکو میدان جنگ سے چلے جانے کا کہا تاکہ آزادی کی جنگ کو جاری رکھا جا سکے۔ 24مارچ 1843ء کو سقوطِ سندھ پر آخری مہر لگ گئی۔
ہوشو شیدی کی بہادری کے اعتراف میں جنرل چارلس نیپئر نے جنرل ہوش محمدکو پورے فوجی اعزازکے ساتھ دفن کیا‘ لیکن آج نئی نسل ہوشو شیدی کے نام سے بھی آشنا نہیں۔ صرف ہوشو شیدی کیا؟ ہم تو احمد خان کھرل‘ موکھا ونہی وال‘ نادرشاہ‘مہر دلیل فتیانہ اور لال خان بلوچ‘سب کو بھول چکے ہیں۔مسند اقتدار پر بیٹھے ہوئے انگریزوں کے ٹوڈی بچے اور پھر ان کے بچے یہ نہیں چاہتے کہ آزادی کی جنگ کے ہیرو قوم کے ہیرو ٹھہریں کہ اس طرح غداروں کے اقتدارکا سورج غروب ہو جائے گااور مراعات یافتہ طبقے کو یہ کہاں منظور ہو سکتا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved