تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     24-03-2014

جمہوریت زندہ باد

تھر کا سانحہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بڑے پیمانے پر عوامی ردِ عمل کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ معلوم ہو تا ہے کہ ہمارے ہاں کوئی ایسی سماجی تبدیلی آ چکی ہے جس کی اہمیت سے ہم پو ری طرح باخبر نہیں، یہ تبدیلی جمہوریت ہے۔
وڈیرے اور پیرہماری سماجی بنت کا حصہ ہیں۔سماجی اور معاشی استحصال کے یہ ادارے صدیوں سے یہاں مو جود ہیں۔ عام آدمی، مادی اور روحانی طور پر ان کے ہاتھوں جس عذاب سے گزرتا ہے،اسے معاشرے نے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا تھا۔ہمارے ہاں اگر اس کا کہیں ذکر ہوا بھی تو تمثیل کی زبان میں۔ ہمارے ادب نے اسے مو ضوع بنا یا، بالخصوص ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر۔ اس سے پہلے اگر چہ اقبال ہمیں اس جانب متو جہ کر چکے تھے لیکن اُن کے فکر کا یہ پہلو دیگر پہلوؤں کے مقابلے میں کم زیرِ بحث آیا۔دینی جماعتوں نے بھی اسے کم ہی قابلِ اعتنا خیال کیا۔ایک وقت میں جب یہاں ملکیتِ زمین کی حد اورمزارعت وغیرہ کے مسائل پر گفتگو ہوئی تو دینی استدلال بھی جاگیرداروں کی حمایت ہی کر تادکھا ئی دیا۔ صحافت کو بھی ایسے مسائل سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔حکومت تو تھی ہی اس طبقے کے ہاتھ میں۔ یوں تھر اور دوسرے محروم علاقوں کے مکینوں کے پاس ،اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ اس ظلم کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کریں اور اس پر صبر کیے رہیں۔
اب ایسا نہیں ہے۔ تھر کے باسیوں کا المیہ اب مقا می نہیں رہا۔ان کا نو حہ اب ریت کے ذروں کے ساتھ مل کر صحرا کی خاموشی کا حصہ نہیں بنا۔اس کی صدائے بازگشت ملک کے ہر گوشے میں سنی گئی ہے۔جاگیر دار اور پیر کو اب وضاحت دینا پڑی، جس کا وہ عادی نہیں ہے۔ بحث، افراد سے اداروں کی طرف منتقل ہوئی ہے اور یہ سوال اٹھا ہے کہ جاگیر داری اور پیری کے اس فرسودہ نظام نے سماج کو کیا دیا۔میں نے پی ٹی وی کے اپنے دو پروگراموں میں اسے مو ضوع بحث بنا یا۔اس پروگرام میںعلما کو یہ موقف اختیار کرنا پڑا کہ مزارعت جیسے مسائل میں ہمیں امام ابو یوسف کے بجائے امام ابو حنیفہ کی طرف دیکھنا ہو گا۔ بزرگوارم فتح محمد ملک نے آل انڈیا مسلم لیگ کے منشور کی طرف متوجہ کیا جس سے معلوم ہو تا ہے کہ مسلمانوں کی آزادی کے راستے میں انگریز اور کانگرس ہی نہیں، جاگیرداری جیسے ادارے بھی حائل تھے۔یہ مباحث ہمارے ہاں پہلے کب اٹھائے جا تے تھے؟ عوامی سطح پر تو شاذ ونادر۔ علمی سطح پر اگر کبھی زیرِ بحث آئے بھی تو اسلام اور اشتراکیت کی بحث کی نذر ہوگئے۔اسلام پسند اگر جاگیر داری کے خلاف تھے تو کھل کر مذمت سے اس لیے گریزاں تھے کہ کہیںاس کا فائدہ اشتراکیت کو نہ پہنچے۔حدود آرڈیننس کے بارے میں مباحثہ جاری تھا کہ جماعت اسلامی کے ایک رہنما سے بات ہوئی۔عرض کیا کہ اس کی بعض دفعات اسلام کے درست فہم پر مبنی نہیں ہیں۔انہوں نے مجھ سے اتفاق کیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ ان قوانین پر اس لیے تنقید نہیں کرتے کہ اس کا فائدہ سیکولر طبقے کو ہوگا۔شاید یہی اندازِ نظر تھا جس کے باعث مذہبی طبقات نے ان سماجی اداروں کے ظلم کے خاتمے کو اپنا ہدف نہیں بنا یا۔ 
آج اگر جاگیر داری اوردوسری فرسودہ اور مذموم روایات پر بات ہو رہی ہے تو یہ آزاد میڈیا کی وجہ سے ہے ۔آزاد میڈیا جمہوریت کا ایک ناگزیر نتیجہ ہے۔اب شاہ رخ کا قتل اس وجہ سے چھپ نہیں سکتا کہ قاتل وڈیرے کا بیٹا ہے۔آج پولیس ایک سردار ایم این اے کی گرفتاری کے لیے سرگرداں ہے جو کاروکاری کے نام پر مبینہ طور پرخواتین کے قتل میں ملوث ہے۔ اب آمنہ پر ڈھائے جانے والا ظلم وڈیرے کی حویلی تک محدود نہیں رہ سکتا۔اب علما بھی دین کی بات کرتے وقت سوچیں گے کہ وہ سماجی حقائق سے کس طرح ہم آہنگ ہے۔ اب مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی جیسی جماعتوں کے لیے ،دن بدن مشکل ہوتا جائے گا کہ وہ ایسے لوگوں کو انتخابات میں اپنا امیدوار بنائیں جن کے ہاتھ مظلوموں کے لہو سے رنگے ہیں۔آئین کی دفعہ 62,63 پر اصرار کی بھی ضرورت نہیں رہے گی کیونکہ یہ الیکشن کمیشن نہیں، سیاسی جماعتیں نافذکریں گی۔یہ مطالبہ کرنے والے بھی جان جا ئیں گے کہ نفاذِ اسلام کا تعلق قانون سے پہلے، سماج سے ہو تا ہے۔ سماجی تبدیلی پہلے آتی ہے، قانون بعد میں اس کی حفاظت کے لیے بنتا ہے۔ یہ تبدیلی ابھی مکمل نہیں ہوئی ، ابھی اس شجر پر برگ وبار آرہے ہیں۔ جیسے جیسے جمہوریت کا یہ درخت توانا ہوتا جا ئے گا،عوام کا سیاسی،اقتصادی اور روحانی استحصال مشکل سے مشکل تر ہو تا جائے گا۔
اگر آزادیٔ فکر و عمل کو باقی رکھنا ممکن ہوا تو سماج کے دوسرے تضادات بھی نمایاں ہو تے جائیں گے۔مثال کے طور پرہمارے معاشرے میںآمنہ سمیت مقامی ظلم کا شکار بچیوں کے لیے اضطراب اور ہمدردی کی وہ لہر نہیں اٹھتی جو عافیہ صدیقی کے لیے اٹھی تھی۔ عافیہ کے لیے ہزاروں لوگ سڑکوں پہ تھے، آمنہ کے لیے شاید ہی کوئی گھرکی دہلیز پارکر نے پر آمادہ ہوا ہو ۔ ظلم کو جانب داری کے ساتھ دیکھنا ایک تضادہے جسے کوئی منصف پسند زیادہ دیر نبھا نہیں سکتا۔۔۔ فرد نہ سماج ۔ اس کی مثال مغرب کا سماج ہے۔عراق پر امریکہ نے حملہ کیا تو لاکھوں لوگ سڑکوں پہ تھے۔اس ظلم کے خلاف انسانی ضمیر خا موش نہیں رہ سکا ، یہ جمہوریت کی وجہ سے ممکن ہوا۔ اگر ہمارے ہاں بھی جمہوریت کو پنپنے کا موقع ملا تو یہ تضادات کم سے کم ہوتے جائیں گے۔ پھر لوگ یہ بھی جان سکیں گے کہ کون ظلم کے خلاف اٹھاہے اورکون سیاسی فائدے کے لیے۔
یہ عجیب بات ہے کہ جو لوگ میڈیا اورجمہوریت کے سب سے بڑے ناقد ہیں،انہیں سب سے زیادہ یہ موقع ملتا ہے کہ وہ میڈیا پراپنا موقف پیش کریں۔ اگر کوئی سروے ہو اور یہ دیکھا جائے کہ کس کس کا کالم اور مضمون سب سے زیادہ اور نمایاں طور پر شائع ہوتاہے اورکون سب سے زیادہ ٹی وی سکرین پر دکھائی دیتے ہیں تو وہ جمہوریت اور آزاد میڈیا کے مخالفین ہو ں گے۔ان کا موقف بھی اگر آج استدلال کی کمزوری کے باوصف، پذیرائی رکھتا ہے تواس کا بڑا سبب یہ میڈیا ہے۔ اس لیے آزاد میڈیا سب کے لیے رحمت ہے۔ جمہوریت سماج کے ارتقا کا دروازہ کھولتی ہے اور عام آ دمی کو یہ موقع دیتی ہے کہ وہ کھلی آ نکھوں اورکانوں کے ساتھ دیکھے، سنے اورپھر سمجھ کر کوئی رائے قائم کرے۔ یہی حکمرانوں کو بھی خود احتسابی پرآ مادہ کر تی ہے۔اب حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں رہا کہ کسی واقعے کی من پسند تعبیر پورے سماج پر نافذکردے۔کوئی اس کو سمجھنا چاہے تو اسلام آباد کچہری میںجج کے قتل کا واقعہ جان لے۔ وزیر داخلہ نے حکومتی تحقیقات پر انحصار کرتے ہوئے ایک بات کہہ دی ،اگلے ہی دن تصویرکا دوسرا رخ سامنے آ گیا۔ 
جمہوریت صرف ووٹ دینے کا نام نہیں ، یہ ایک سماجی تبدیلی کا نام ہے۔ایسی تبدیلی جس میں لوگوں کو اپنی بات کہنے کا حق ہوتا ہے اور سماج کو بھی یہ حق ہو تا ہے کہ وہ بحیثیت مجموعی جس راستے کا انتخاب کرے،اس پر آزادانہ چل سکے۔اسی سے انسانی رویے کے تضادات سامنے آتے ہیں اور یوں اصلاح کا امکان رہتا ہے۔جمہوریت معاشرے کو افکارکا جوہڑ نہیں بننے دیتی۔ یہ 'آبِ رواں‘ ہے جو ظفر اقبال کی شاعری کی طرح نئی نئی زمینوں کوسیراب کرتا جا تا ہے۔اس کی حفاظت اور قدرکر نی چاہیے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved