میاں نوازشریف
مذاکرات ناکام ہونے پر دل پکڑ کر بیٹھ گئے۔ عطاالحق قاسمی نے مرثیہ لکھا اور اسے پڑھتے ہوئے دم دے دیا۔ مشترکہ نمازِ جنازہ خواجہ آصف نے پڑھائی جو اسی دوران فرطِ غم سے بیہوش ہو گئے اور ابھی تک اُسی عالم میں ہیں۔ طالبان نے اس سانحہ پر غم و غصہ کا اظہار کیا اور سوگ میں ایک گھنٹے کے لیے دہشت گردانہ کارروائیاں بند کردیں۔ مرحوم نے آخری وقت تک امن پسندی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور اس کا انجام بھی دیکھ لیا۔
مر گیا پھوڑ کے سر غالبِؔ وحشی ہے ہے
بیٹھنا اُس کا وہ آ کر تری دیوار کے پاس
عمران خان
اپنے ہی لائے ہوئے سونامی میں ڈوب کر اللہ کو پیارے ہوئے‘ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں مشیتِ ایزدی ہرگز نہیں تھی۔ بالآخر مولانا فضل الرحمن سے فتویٰ حاصل کر کے نمازِ جنازہ پڑھائی گئی اور خدا خدا کر کے یہ تنازع ختم ہوا۔ قبر پر مٹی ''پانے ‘‘ کے لیے چودھری شجاعت حسین کو زحمت دی گئی جو واپسی پر پرویز خٹک میں وجّے اور ان کا کام تمام کیا۔ وصیت کے مطابق ایک بیٹ ان کے ہمراہ دفن کیا گیا۔ مرحوم کے لیے ایک دن‘ اور وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے لیے سات دن تک سوگ کا اعلان کیا گیا۔
دلا غافل نہ ہو یکدم یہ دنیا چھوڑ جانا ہے
بغیچے چھوڑ کر خالی زمیں اندر سمانا ہے
ڈاکٹر طاہر القادری
انقلاب کے لیے دو کروڑ افراد کی جماعت کھڑی کی ہی تھی کہ بم دھماکہ ہو گیا اور بھگدڑ کی زد میں آ کر جان جاں آفریں کے سپرد کی جس سے پہلے عزرائیل کے ساتھ پُرزور مباحثہ کیا جس نے آرڈر دکھا کر بڑی مشکل سے چپ کرایا۔ اپنی نمازِ جنازہ خود ہی پڑھ چکے تھے اس لیے آہوں اور سسکیوں کے درمیان قبر میں اُتار دیا گیا اور جملہ انقلابی سینہ کوبی کرتے ہوئے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ حکومت نے بعداز مرگ ستارۂ جرأت سے نوازا۔ غم زدگان نے دس روز کے لیے ہڑتال کا اعلان کیا اورقبر پر یادگار تعمیر کرنے کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم شروع کردی گئی جو ہنوز جاری ہے۔
سب کہاں‘ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہو گئیں
آصف علی زرداری
اچھے بھلے رات کو سوئے تھے لیکن صبح دیکھا تو اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچ چکے تھے۔ غم سے نڈھال ہوجانے کے خوف سے دس روز تک یہ جانکاہ سانحہ قوم سے پوشیدہ رکھا گیا لیکن بابر اعوان نے ایک دن بھانڈہ پھوڑ دیا۔ نمازِ جنازہ میاں منظور وٹو نے پڑھائی اور خصوصی دعائے مغفرت فرمائی۔ وصیت کے مطابق سرے محل کے لان میں دفن کیا گیا۔اُن کے لیے بیش قیمت مقبرہ تعمیر کروانے کا اعلان ہوا۔ نیب والوں نے سال بھر کے لیے سوگ کا اعلان کیا۔ مخدوم امین نے مرثیہ لکھا جو لوحِ مزار پر کندہ کروا دیا گیا۔ سید قائم علی شاہ اس وقت سے کومے میں ہیں:
سُنے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے
کفن سرکائو میری بے زبانی دیکھتے جائو
پرویز مشرف
عدالت سے ملک چھوڑنے کی اجازت ملنے پر شادیٔ مرگ میں مبتلا ہو کر اس جہانِ فانی سے عالم جاودانی کی طرف بذریعہ دبئی کوچ کیا۔ صدمے سے احمد رضا قصوری اس وقت سے بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں‘ بیرسٹر سیف جنہیں پورے انہماک سے سننے میں مصروف ہیں اور ان کا مطلب بھی نکال نکال کر بیان کر رہے ہیں۔ نمازِ جنازہ اکرم شیخ نے پڑھائی اور فرطِ غم سے چارپائی کے اوپر گر پڑے جو ٹوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی لیکن میت محفوظ رہی۔ میاں نوازشریف نے آسمان سے خصوصی تعزیتی پیغام ارسال کیا اور شہباز شریف سے سات دن کے سوگ کا اعلان کروایا۔
یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں جانور
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اُڑ جائیں گے
اسحق ڈار
میاں نوازشریف کا غم ابھی تازہ ہی تھا کہ ڈالر کی قیمت ایک بار پھر اوپر چڑھ جانے کی تاب نہ لا سکے اور اسی صدمے میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ شیخ رشید نے شرط نہ ہارنے کی خوشی میں نمازِ جنازہ پڑھانے کی پیشکش کی لیکن ان سے معذرت کرلی گئی؛ چنانچہ قرعۂ فال خواجہ آصف کے نام کا نکلا جو پڑھاتے پڑھاتے بھول گئے اور نمازِ جنازہ خواجہ سعد رفیق نے مکمل کرائی۔ سوگ میں سٹیٹ بینک نے دس دن کام بند رکھنے کا اعلان کیا جس کی وجہ سے حکومت کے لیے اربوں روپے کے نوٹ نہ چھاپے جا سکے جس پر گورنر بینک ہٰذا کو فارغ کردیا گیا۔
مُند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ہے ہے
خوب وقت آئے تم اس عاشقِ بیمار کے پاس
پرویز رشید
مذاکرات کے طول پکڑنے کے غم میں اٹوانٹی کھٹوانٹی لے کر پڑ گئے اور اسی عالم میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا حالانکہ فی الحال ان کا ایسا کوئی پروگرام نہ تھا‘ یہ فوتیدگی چونکہ بہت مشکوک تھی اس لیے نبض کے چل پڑنے کا دو دن تک انتظار کیا گیا لیکن یہ معجزہ رونما نہ ہوا۔ نمازِ جنازہ طوعاً و کرہاً سابق حکمران کمیٹی کے ایک رکن نے پڑھائی اور دعا کرتے وقت اپنے مخصوص انداز میں گلہائے عقیدت پیش کیے جو مذاکرات کے مشکوک ہو جانے پر دوبارہ کالم نویس کا پیشہ اختیار کر چکے تھے۔ مرحوم کے جلسۂ تعزیت میں ان کی نرم نرم تقریروں کے کیسٹ چلوا کر سنائے گئے۔ سوگ میں ایک دن کی خاموشی کا اعلان کیا گیا اور پندرہ منٹ کے لیے پارٹی کا جھنڈا سرنگوں کیا گیا۔
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریٔ دل نے آخر کام تمام کیا
آج کا مطلع
وصل کا رنگ جمایا نہیں جاتا مجھ سے
یہ وہ کھانا ہے جو کھایا نہیں جاتا مجھ سے