ڈیڑھ ارب ڈالر جیسے '' فری لنچ ‘‘ سے ہمارے فکر مند وزیر اعظم کے چہرے کی رونقیں لوٹ آئی ہیں ،بہت ہی خوشی کی بات ہے کہ اب ان کی حس ِ مزاح بھی مزید چمک اٹھی ہے۔ ڈالر کی چمک ''مسلم آنکھوں ‘‘ کے لیے نہایت مرغوب ہے۔اب اس سے ہماری آنکھیں ''خیرہ ‘‘ نہیں ہوتیں بلکہ اس سے ہماری بینائی میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہمیں اپنی دھرتی ماں سے بے حد محبت ہے۔ ڈالر کے حوالے سے ہمیں یورپی گالیوں سے مشتعل نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے ہمیں توانگریزی کی ''ڈانٹ ڈپٹ ‘‘بھی اچھی لگتی ہے۔ ''امریکی ویزہ ‘‘ اور '' ڈالر ‘‘ ہماری '' بہترین‘‘ کمزوریوں میں شامل ہیں۔جن علاقوں میں کبھی بھوک رقص کیا کرتی تھی اور وہاں لوگوں کے پاس تمباکو اور نسوار کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے‘ اب وہاں ڈالر ''ڈانس‘‘ کرتا ہے۔امریکیوں کا بھلا ہو جو وہ ا فغانستان سے روس کا '' آسیب‘‘ دُور کرنے کے لیے ڈالروں کی بارش کرتے رہے اور ڈالروں کے کچھ چھینٹے ہم پر بھی پڑتے رہے۔ اب کافی دیر ہو چکی ہے اور ڈالر ہماری عادتِ ثانیہ بن چکے ہیںاور پھرجب '' ڈالر ‘‘منہ کو لگ جائے تو انسانیت ،دردمندی ،اخلاقیات جیسی باتیں ہضم بھی کہاں ہوتی ہیں۔ یہ اسی ڈالر ہی کی کرامت تھی کہ ہم نے اپنے آپ کو '' لہو لہان ‘‘ کر لیا ۔ وہ پہاڑ جہاں شاہین بسیرا کرتے تھے،وہاں گدھ آن بیٹھے ہیں۔یہ لمحہ فکریہ نہیں تو اور کیا ہے کہ شاہین کرگس میں بدلتے جاتے ہیں۔وطن کے پہاڑی بیٹے جن میں انسانیت ، غیرت، انصاف کی روایات کوٹ کوٹ کے بھری ہوتی تھیں‘ اب ان میں سے بھی بہت سے اپنا آپ تبدیل کر بیٹھے ہیں۔دشمنوں کی ایجنسیوں کی '' ڈالرانہ خیرات ‘‘ نے انہیں '' معذور‘‘ کر دیا ہے۔ اب ان کے حواس بھی کمزور ہو رہے ہیں۔ سوچنا ضروری ہے کہ وہ امن ،محبت اوررحم کے جذبوں سے عاری کیوں ہوگئے ہیں؟لیکن ٹھہرئیے ! یہ سارا قصور اُن کا بھی نہیں ہے۔کہتے ہیں کوئی سپہ سالارا گر کسی باغ سے گزرتے ہوئے ،درخت سے ایک پھل توڑ لے تو اس کی پیروی کرنے والا لشکر پورا باغ اجاڑ دیتا ہے۔کچھ ایسا ہی ہوا ہے ہمارے ساتھ بھی۔امریکہ نے روس کا آسیب بھگانے کے لیے ڈالر کی دھونی سلگائی تو ہمیں مزا آنے لگا۔ ہم نے فوراً اپنے بے روزگار غیور جوانوں کو انہی ڈالروں کے عوض اس '' پرائی آگ ‘‘ میں جھونک دیا۔ضیا ء الحق کے بعد آنے والوں نے بھی قوم کے اخلاقی انحطاط کے بارے میں کبھی کچھ نہ سوچا۔کلاشنکوف اور ہیروئن کا کلچر زہر بن کر پاکستان کی رگوں میں پھیلتا چلا گیا۔اوپر سے نام نہاد جمہوری حکومتوں کے جعلی ڈگری ہولڈرز ممبران اورکرپٹ سیاسی خانوادوں نے قانون کو موم کی ناک بنا کر رکھ دیا ۔جس ملک میں لوگ اپنی بات اربابِ اختیار تک پہنچانے کے لیے خود سوزی پر مجبور ہو جائیں‘ وہاں انصاف کی صورتِ حال کا اندازہ لگانا دشوار نہیں۔ جب حکمران صرف اسی صورت( آگ میں جل مرنے کے بعد) متوجہ ہوں تو کیا ہر مظلوم خود کو آگ لگا کر داد رسی کی فریاد نہیں کرے گا؟ قانون کی برف نظروں کے بعد یہی ہوتا ہے ، شاعر بھی یہی مشورہ دیتا ہے ؎
اس نے جب برف نظر ڈالی تھی تجھ پر بیدل
آگ کپڑوں میں لگا لینی تھی‘ مر جانا تھا
آپ اپنے اردگر د نگاہ ڈالیں‘ راستہ دکھانے والے آپ کو خود اندھے نظر آئیں گے ۔وہ تعیش اور زندگی کی چکا چوند میں اپنا آپ فراموش کر چکے ہیں۔موت تو ہم سب کو بھول چکی ہے ۔ عیش و آرام اور صرف ذاتی خوشحالی ہمارا '' ما ٹو ‘‘ ہے۔سڑک کسی بھی وجہ سے بلاک ہو ہمیں کسی نہ کسی طریقے سے گزر جانا ہے ، چاہے اس کے لئے ہمیں کسی کو روند کر گزرنا پڑے، صبر، برداشت، ایثار کی سوچ کہاں سے آئے گی۔ہماری روز مرہ کی خوراک بھی غیر فطری ہو چکی ہے۔تھانیدار مقتول کے گھر تفتیش کے لیے جاتا ہے تو لواحقین کو پولیس پارٹی کی '' سیوا ‘‘ کے لئے اعلیٰ طعام کابندوبست بھی کرنا پڑتا ہے۔قحط زدہ علاقوں کا دورہ کرنے والے، وزیروں، مشیروںاور اعلیٰ افسران کے لیے عمدہ پکوان تیار کیے جاتے ہیں۔ عوامی مسائل کے حل کے لیے کمیٹیاں اور ادارے، اجلاس منعقد کرتے ہیں تووہاں خورو نوش کا اعلیٰ انتظام کیا جاتا ہے۔ بہت سے علمی، ادبی، فلاحی ادارے موجود ہیں مگر بمشکل ان کی تنخواہیں اور مراعات ہی پوری ہوتی ہیں۔ ہمارے چاروں طرف کیا کیاہو رہا ہے؟
ہم اس لئے بھی ڈھل نہ سکے ایک قوم میں
قائد کے بعد کوئی قیادت نہیں ملی
اب سیاسی پارٹیوں کے اپنے اپنے '' دانشور ‘‘ ہیں۔کچھ بھی ہو جائے‘ ان کا فرض ہر حال میں اپنے لیڈروں کی حمایت کر نا ہے کہ انہیں اسی کام کے لیے رکھا گیا ہے۔ جس قوم کے شہ دماغ اور اہلِ دانش اپنے ''تعیش ‘‘کے لیے حکمرانوں کا پانی بھرنے لگیں‘ اس قوم کی بد نصیبی پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔جہاں تک ہماری اعلیٰ سیاسی قیادت کی سوچ اور فہم و ادراک کا تعلق ہے‘ اس کا اندازہ سیاسی رہنمائوں کی ملاقاتوں پر میڈیا میں آنے والی خبروں سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے درمیان کس '' پائے ‘‘کی گفتگو ہوتی ہے۔ ویسے زیادہ تر سری پائے کی باتیں ہوتی ہیں‘ بھلے موضوع کتنا ہی حساس اور اہم کیوں نہ ہو۔ حکومت اپوزیشن ملاقاتوں میں بھی اسی طرح کے ''چٹکلے‘‘ تخلیق ہوتے نظر آتے ہیں۔ ایسا غیر سنجیدہ ماحول جب میڈیا پر ''ہائی لائیٹ‘‘ ہو گا تو کون تسلیم کرے گا کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔وزیر اعظم نواز شریف نے عمران خان سے ملاقات کے دوران ان کی پشاوری چپل کے بارے میں سوال کیاکہ کیا یہ طالبان نے دی ہے؟جواب میں عمران نے یہ تو نہیں بتایا کہ انہوں نے چپل کہاں سے خریدی‘ البتہ یہ ضرور بتایا کہ اب لوگ انہیں طالبان خان ضرور کہتے ہیں۔نواز شریف کو عمران خان کی پشاوری چپل اچھی لگی ، انہیں '' چپلی کباب ‘‘ بھی اچھے لگتے
ہوں گے۔دوبڑے سیاسی رہنمائوں کی ملاقات ہونا خوش آئند ہے مگر اس سے عوام کو کیا فائدہ ہوا؟ اِس کے نتائج ابھی سامنے نہیں آئے‘ سوائے اس کے کہ ہمارے ایک بڑے اپوزیشن لیڈر نے اپنے گھر کے سامنے پارک کا قبضہ چھڑوانے کا بندوبست ضرور کر لیا ہے۔ عمران خان سے محبت کرنے والے تو اس بات کے منتظر تھے کہ وہ پینتیس پنکچروں کا تذکرہ بھی کریں گے۔ اچھی اپوزیشن کب اور کہاں سے آئے گی جو ہر حال میں صرف اور صرف عوام کے مسائل کو اولیت دے۔فی الحال تو قحط میں اموات کا سلسلہ جاری ہے ، کراچی میں قتل و غارت میں بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ میڈیا تھر پارکر کے لوگوں کے حالات دکھا رہا ہے مگر بحریہ ٹائون کے ملک ریاض اور جماعت الدعوۃ کے سوا امداد کرنے والوں میں اور کون ہے؟ کیا ہمارے ہاں سیاسی و دینی جماعتوں اور دیگر متمول لوگوں کی کمی ہے؟ اب تو انگلیوں پر گنے جانے والے ہمارے اینکر پرسنز اور حکومتی دانشور بھی اس قابل ہیں کہ وہ تھر کے لوگوں کے لئے ذاتی طور پر بھی کچھ نہ کچھ کر سکتے ہیں۔چلتے چلتے یوم پاکستان کے لئے منعقدہ ایک ٹی وی چینل پر پیش کئے گئے چند اشعار آپ کی نذرہیں:
تیرے یہ ستم ڈھانے پہ ہونا تو یہی تھا
ہونٹوں سے ہنسی چھین لی رونا تو یہی تھا
یہ دیس کہ چِیلوں نے جسے نوچ لیا ہے
لوگو! مری مٹی مرا سونا تو یہی تھا
جس شاخ پہ بیٹھے تھے اسے کاٹ رہے تھے
انجام پہ مت روئیے ہونا تو یہی تھا