1980ء کے عشرے کے اوائل میں جب میں لاہور ریڈیو سٹیشن پر سینئر پروڈیوسر کے طورپر تعینات تھا تو مجھے کہا گیا کہ 23مارچ کے لیے ایک خصوصی فیچر تیار کرو جو قومی نشریاتی رابطے پر نشر ہوگا۔ پروڈیوسر کا کام تخیل سے شروع ہوتا ہے۔ پہلے پروگرام اس کے ذہن میں بنتا ہے پھر وہ ٹیپ پر منتقل ہوتا ہے۔ ایسے ہی مجھے خیال آیا کہ اگر 1940ء میں براہ راست رواں تبصرہ نشر کرنے کی سہولت ہوتی تو مارچ کے مہینے میں منٹوپارک لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کی کارروائی کا احوال کیا ہوتا۔ اس مرکزی خیال پر پروگرام بنانے کے لیے میں نے ظہور عالم شہید ، میاں محمد شفیع (م ش) اور ابو سعید انور سے رابطہ کیا۔ یہ تینوں بزرگ جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں، 1940ء کے اس جلسے کے عینی شاہد تھے۔ ان تینوں کا تحریک پاکستان کا انتہائی گہرا مطالعہ تھا۔
مجھے ان تینوں ہستیوں سے الگ الگ بار بار ملاقاتوں کا شرف حاصل رہا جو گھنٹوں پر محیط ہوتی تھیں۔ یہ لوگ بولتے رہتے تھے اور میں نوٹس لیتا رہتا تھا۔ ان تینوں کو مسلم لیگ کی جدوجہد سے اس قدر محبت تھی کہ وہ کبھی بور نہیں ہوتے تھے۔ میرا عالم یہ تھا کہ مجھے زندگی میں پہلی بار معلوم ہورہا تھا کہ برصغیر کی اس دور کی سیاست کا اصل نقشہ کیا تھا۔ 23مارچ 1940ء کے جلسے پر تصوراتی رواں تبصرہ کے عنوان سے میں نے فیچر ریکارڈ کرکے جب نشر کیا تو ہمارے ڈائریکٹر آف پروگرامز نے تو تعریف کی ہی مگر مجھے زیادہ تعریف ان تینوں بزرگوں کی اچھی لگی۔ م ش کا کہنا تھا کہ ''اوئے منڈیا توں تے مینوں اُنی سو چالی وچ پچا دتا ‘‘ یعنی '' نوجوان تم نے تو مجھے 1940ء میں پہنچا دیا ‘‘۔ اسی طرح ظہور عالم شہید اور ابو سعید انور نے بھی اس پروگرام کی بہت تعریف کی۔
اس فیچر کی پروڈکشن کا معاملہ تو دو تین ہفتے میں ختم ہوگیا لیکن مجھے جو قائداعظم کی جدوجہد جاننے میں دلچسپی پیدا ہوئی وہ آج تک ختم نہیں ہوئی ؛تاہم ان دنوں جوش کچھ زیادہ تھا اور ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ ضرور ان بزرگوں میں سے کسی ایک کی خدمت میں حاضر ہوتا اور اپنے ذہن میں جو سوالات ہوتے ،وہ ان سے پوچھتا۔
ایک مرتبہ میرا ظہور عالم شہید سے سوال تھا کہ 1915ء میں گاندھی جی برصغیر میں آئے۔ اس وقت یہاں محمد علی جناح صف اول کے لیڈر تھے اور ہندو مسلم اتحاد کے داعی مانے جاتے تھے تو پھر پانچ برس میں کیا ہوا کہ ناگپور کے کانگرس کے اجلاس میں محمد علی جناح تنہا رہ گئے اور تمام ہندو مسلم گاندھی جی کے پیچھے کھڑے نظر آئے۔
شہید صاحب بہت تحمل سے گفتگو کرتے تھے ۔ان دنوں وہ غالباً رائل پارک میں رہائش پذیر تھے۔ بھائی جی کہہ کر بات شروع کرتے تھے۔ کہنے لگے وہ پانچ سال اصل میں ہماری برصغیر کی تاریخ میں بہت اہم ہیں۔ ان پانچ برسوں میں گاندھی جی نے ایسی سیاست کھیلی کہ ہندوئوں کو رام راج کا چکر دیا۔ مسلمانوں کاخلافت موومنٹ میں ساتھ دیا اور ہر ایک کو اپنے پیچھے لگالیا۔ قائداعظم غالباً وہ پہلے شخص تھے جو گاندھی جی کی اس سیاست کو سمجھے اور وہ تنہا رہ گئے مگر راستہ اپنا جدا کرلیا۔ بھائی جی گاندھی جی ہوں گے برصغیرکے بڑے لیڈر مگر تاریخ نے ثابت کردیا کہ مسلمانان برصغیر کے وہ لیڈر نہیں رہے تھے حالانکہ تقسیم کے وقت گاندھی جی نے مسلمانوں کے حقوق کے لیے برت بھی رکھے جن پر ناراض ہوکر راشٹریہ سیوک سنگھ کے ایک جانثار نے گاندھی جی کو گولی مار کر ہلاک بھی کردیا؛ تاہم مسلمانوں کے دل میں آخر کو وہی سوچ آکر بسی ،جو ناگپور میں کانگرس کو خیرباد کہتے وقت محمد علی جناح کے دل میں ابھری تھی۔
بھائی جی میرے خیال میں پاکستان اس وقت ہی بن گیا تھا جب ناگپور میں محمد علی جناح جیسا مخلص مسلمان کانگرس سے علیحدگی پر مجبور ہوگیا تھا۔قائداعظم کے بارے میں یہ بحث تو ہمیشہ سے چل رہی ہے کہ وہ لبرل سیکولر خیالات رکھتے تھے یا پھر اسلامی نظریات کے داعی تھے۔ اس موضوع پر ابو سعید انور کا کہنا تھا کہ قائداعظم اگرچہ ساری زندگی نہیں تو اس کا زیادہ حصہ انگریزوں والا لباس پہنتے تھے اوران کا برٹش جنٹلمین والا حساب تھا مگر ان کا کردار ایسا تھا کہ انہوں نے کبھی جھوٹ کا سہارا نہ لیا ،منافقت نہیں کی،غیبت بالکل نہیں کرتے تھے، لین دین کے کھرے تھے اورقوانین کے پابند رہتے تھے، یعنی مزاج تو سارا سچے مومن مسلمان والا تھا۔ کیونکہ تعلق مسلم گھرانے سے تھا، لہٰذا اپنے مسلمان ہونے پر فخر تھا۔ شادی کی تو پارسی مذہب سے تعلق رکھنے والی خاتون کو پہلے حلقہ اسلام میں لائے ۔ عمر کے آخری حصے میں تو ایسے شواہد موجود ہیں کہ انہوں نے قرآن پاک کا مکمل ترجمہ پڑھ رکھا تھا۔ اب آپ خود سوچیں ، محمد علی جناح کس قدر ذہین تھے۔ جب انہوں نے قرآن پاک کا ترجمہ پڑھا ہوگا تو مجھے یقین ہے کہ اللہ کا پیغام ان کے دل میں اتر گیا ہو گا۔ تاہم علامہ اقبال سے قائداعظم کے متاثر ہونے سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اسلام کی اسی تعبیر کے قائل تھے جس کے اقبال قائل تھے۔ یعنی مذہبی فکر کی تشکیل نو ہونی چاہیے اور اسلام کو جدید دورسے ہم آہنگ کرنا چاہیے۔
وہ جب بھی قرآن سے رہنمائی کی بات کرتے تھے تو ان کے پیش نظریہی چیز ہوتی تھی کہ پاکستان کا آئین مذہبی فکر کی جدید تشکیل نو کی روشنی میں بننا چاہیے۔اب آپ قائداعظم کو بھلے مولوی کہہ لیں یا پھر لبرل سیکولر، میری نظر میں تو وہ ایک آئیڈیل مسلمان تھے۔
اسی طرح ایک روز گاندھی جی اور قائداعظم کے اختلافات کے ضمن میں بات کرتے ہوئے میاں محمد شفیع (م ش) کا کہنا تھا کہ جب گاندھی جی ابھی برصغیر میں نہیں آئے تھے اور جنوبی افریقہ میں برصغیر کے لوگوں کے حقوق کے لیے لڑرہے تھے اوروہاں جب ان لوگوں پر ظلم و ستم کی خبریں آئیں تو 1910ء میں سنٹرل لیجسلیٹو کونسل (Central Legislative Council)کے کلکتہ میں ہونے والے اجلاس میں محمد علی جناح نے لارڈ منٹو کے سامنے اس ظلم و ستم کی مذمت کی، حالانکہ کونسل کے اس اجلاس میں موتی لال نہرو بھی موجود تھے مگر گاندھی جی کی جنوبی افریقہ میں تحریک پر ہونے والے برطانوی مظالم کے خلاف آواز محمد علی جناح نے اٹھائی تھی ،تو جناب قائداعظم کا دل تو شیشے کی طرح صاف تھا البتہ گاندھی جی نے 1915ء میں برصغیر میں آکر جو کھیل کھیلا ،اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ ان کا دل شیشے کی طرح صاف تھا۔
ان بزرگوں کی گفتگو سے میرے نزدیک قائداعظم کی Legacyتو یہی بنتی ہے کہ وہ جھوٹ ، منافقت اور غیبت وغیرہ سے دوررہیں ۔ لین دین میں کھرے ہوں، قوانین کی پابندی کریں اور جدید دور سے ہم آہنگ اسلامی فکر کی تشکیل نو کرکے اپنی زندگیاں سنواریں۔ آج جو کچھ ہم اپنے اردگرد اور اپنے لیڈروں میں دیکھ رہے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم کس منہ سے قائداعظم کو اپنا کہتے ہیں؟