علامہ اقبالؒ نے بہت پہلے فرما دیا تھا کہ ۔دین ملا فی سبیل اللہ فساد۔ قائد اعظمؒ نے ہٹ دھرمی اور انتہاپسندی سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا ''پاکستان میں تھیوکریسی نہیں ہو گی۔‘‘ دونوں کے اندازے درست ثابت نہ ہوئے۔ ہرچندیہ دونوں راست گو‘ صاف دل‘ غیرمتعصب اور تہذیبی و انسانی اقدار پر یقین رکھنے والی ہستیاں ہیں جو مسلمانوں کے علیحدہ وطن کے حصول کی جدوجہد‘ ملائوں کی بالادستی قائم کرنے کی خاطر نہیں کر رہی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہیں مسلمانوں کی بھاری اکثریت کی انسان دوستی اور فراخ دلی پراعتماد تھا اور وہ باور کرتے تھے کہ ان کے قائم کئے ہوئے آزاد وطن میں‘ تھیوکریٹس کی آمریت مسلط نہیں ہو گی۔ اعلان آزادی کے ساتھ ہی ہندومسلم فسادات شروع ہو گئے۔ ان فسادات سے پنجاب زیادہ متاثر ہوا۔ بہت بڑے پیمانے پر ترک وطن کرنے والے لاکھوں انسانوں کی دردناک کہانیوں نے پورے برصغیر میں فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکا دیا۔ بجائے اس کے کہ ہم نئے وطن سے محبت کا رشتہ استوار کرتے‘ فسادات کی پیدا کردہ تلخیوں اور شدید جذبات کی فضا میں ملائوں کو موقع مل گیا اور انہوں نے پاکستان کو ایک آزاد وطن سمجھنے کی بجائے‘ اپنی بالادستی اور اقتدار کے لئے اسلام کا نام استعمال کرنا شروع کر دیا۔ فسادات کی بھڑکائی ہوئی آگ کی تپش ابھی باقی تھی کہ مولانا حضرات نے نوزائیدہ مملکت میں کہنا شروع کر دیا کہ پاکستان اسلام کی خاطر بنایا گیا ہے۔ یہاں اسلامی نظام نافذ ہونا چاہیے۔ ملا حضرات کی بھاری اکثریت نے علیحدہ وطن کے قیام کی مخالفت کی تھی اور قیام پاکستان سے پہلے ہی کہنا شروع کر دیا تھا کہ مسلم لیگی قیادت‘ اسلام نافذ نہیں کر سکے گی۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ قائد اعظمؒ کا پاکستان‘ مسلمانوں کی ایک جمہوری اور فلاحی مملکت ہوگا۔ اس میں امور مملکت اعلیٰ ترین انسانی‘ اخلاقی اور اسلامی روایات کے تحت چلائے جائیں گے۔ ان دونوں بزرگوں کو کیا معلوم تھا کہ ان کے بعد ‘ ان کے بنائے ہوئے آزاد وطن پر ملائوں کا غلبہ قائم ہو جائے گا۔
آج ہم ملائوں کی آمریت کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ ہمارے سماج پر ان کی سوچیں اور تنگ نظری حاوی ہوتی جا رہی ہے۔ اقبالؒ اور قائدؒ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کے بنائے ہوئے پاکستان میں ایک دن ہندوئوں‘ سکھوں‘ عیسائیوںاور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے لئے زندگی گزارنا مشکل کر دیا جائے گا۔1956ء کا آئین نافذ ہونے کے بعد‘ جمہوریت نے قدم جمانا شروع کر دیئے تھے کہ مشرقی پاکستان کا سانحہ رونما ہو گیا۔ پاکستان کو شکست کے بحران سے نکالنے کی ذمہ داری ذوالفقار علی بھٹو نے قبول کی۔ پاکستان دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے لگا اور جمہوریت کی طرف ہمارا سفر شروع ہو گیا۔ ملا اور طالع آزما جنرلوں کے گٹھ جوڑ سے تنگ نظری کے ماند پڑتے ہوئے رجحانات میں دوبارہ زندگی کے آثار پیدا ہونے لگے۔ 1973ء کے آئین کے تحت ہونے والے پہلے عام انتخابات کو انتہائی چالاکی سے اسلام اور سیکولرازم کی جنگ بنا کر‘ انتہاپسندی کو بڑھانا شروع کر دیا گیا۔ بھٹو صاحب کے دورحکومت کی بہت سی خرابیوں کو جوازبنا کر مسجدوں اور میڈیا میں زبردست بھٹو مخالف مہم چلائی گئی اور ضیاالحق میں یہ حوصلہ پیدا کر دیا کہ وہ بھٹو صاحب کو ہمیشہ کے لئے راستے سے ہٹا دے۔ابھی ضیاالحق قدم جمانے کی کوشش میں تھا کہ افغانستان کے حالات تیزی سے بدلے ۔ امریکہ نے اس موقع کوویت نام کا حساب چکانے کے لئے استعمال کیا۔ ضیاالحق اور ان کے حامی ملائوں کو اندھا دھند ڈالر اور اسلحہ دینا شروع کر دیا۔ مسلمان ملکوں سے جو دولت فراوانی سے آئی‘ اس سے پاکستانی ملائوں کی طاقت میں اضافہ کیا گیا اور آج صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ ملائوں سے بھی زیادہ انتہاپسند اور ہٹ دھرم لوگوں نے‘ طالبان کے نام سے عام شہریوں پر تباہ کن حملے شروع کر دیئے ہیں۔ پاکستان میں اپنی سیاسی اور سماجی طاقت منظم کرنے والے مولوی حضرات ‘ دہشت گردی کرنے والوں کی درپردہ پشت پناہی کرنے لگے ہیں۔ ابتداء میں یہ قاتلوں‘ دہشت گردوں اور لوٹ مار کرنے والوں کی کھلی حمایت سے ڈرتے تھے‘ مگر جیسے جیسے پاکستان کی ریاست کمزور اور دفاعی پوزیشن اختیار کرتی گئی‘ طالبان اور ان کے حامیوں کے حوصلے بڑھتے گئے اور دنیا میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ ریاست جو عوام کو تحفظ دینے کی ذمہ دار ہے‘ اس کی قوت مزاحمت جواب دینے لگی اور آج ہم ایسے مقام پر آ پہنچے ہیں کہ ریاست جن لوگوں کو قانون کے شکنجے میں لا کرسزائیں دینے اور جیلوں میں رکھنے کی پابند تھی‘ وہ ان کے ساتھ برابر کی سطح پر آ کر مذاکرات پر تیار ہو گئی۔ دنیا حیرت سے دیکھ رہی ہے کہ قانون شکنوں اور قانون کے محافظوں میں‘ مفاہمت کا جذبہ کیسے پیدا ہو گیا؟ جو پاکستان کے آئین اور جغرافیائی سالمیت پر یقین نہیں رکھتے‘ ان کے ساتھ ریاست کے محافظوں کے رابطے کیوں ہونے لگے؟ اور مولوی حضرات میں یہ جرأت کیسے پیدا ہو گئی کہ انہوں نے وطن کی خاطر جان دینے والے پاکستان کے جنرل کو شہید کہنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا‘ دہشت گردوں کے لیڈر‘ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کو شہادت قرار دے کر‘ عوام اور سپاہ پاکستان کے زخموں پر سفاکی سے نمک چھڑکا۔
ملائیت کے اس حاوی ہوتے ہوئے رجحان کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان کی اقلیتیں خوفزدہ ہیں۔ سماج دشمن عناصر جیسے چاہتے ہیں‘ ان کی جان و مال سے کھیلنے لگتے ہیں۔ ان کی لڑکیاں زبردستی اٹھا کر ‘ انہیں جبراً مسلمان اور بیویاں بنا لیتے ہیں۔ پچھلے چند روز سے سندھ میں بہانے بہانے ہندوتاجروں کو لوٹنابھی شروع کر دیا گیا ہے۔ جھوٹے الزام لگا کر انہیں اتنا خوفزدہ کر دیا گیا ہے کہ اس بار کراچی میں انہیں ہولی منانے کا حوصلہ بھی نہیں ہوا۔ خود حکومت کا رویہ بھی اقلیتوں کے ساتھ غیرمنصفانہ ہو چکا ہے۔ اقلیتی لیڈر بے رحمی سے قتل کئے گئے‘ مگر
حکومت نے کوئی خاص اہمیت نہیں دی‘ نہ ہی قاتلوں کو پکڑنے کے لئے کچھ کیا گیا۔ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والوں کو بھی غیرمسلم قرار دے کر بے رحمی سے مارا جا رہا ہے۔ قومی سلامتی کے نام پر جو نئے قوانین نافذ کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں‘ ان کے تحت عوام کے جمہوری اور شہری حقوق بھی سلب کئے جائیں گے۔ ریاست کے باغیوں کے ساتھ اگر حکومت صلح صفائی پر اتر آئی اور اس نے اسلام کے نام پر طالبانی طرز کی پالیسیاں نافذ کرنا شروع کر دیں‘ تو ظلم اور جبر کا نشانہ بننے والے کروڑوں انسان کیا کریں گے؟ اکثریت کی آزادی و خودمختاری کا کیا بنے گا؟ اس وقت عراق‘ شام‘ فلسطین‘ لبنان‘ کویت‘ متحدہ عرب امارات‘ تیونس‘ مصر اور خود پاکستان میںمجموعی طور پر جو کروڑوں بے گھر مسلمان‘ امدادی خوراک اور سہولتوں پر زندگی گزار رہے ہیں‘ کیا ایسے پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہو گا؟ کیا حکومت کے حمایت یافتہ مسلح دہشت گرد اور بپھرے ہوئے مسلح انتہاپسند‘ مختلف بہانوں سے پرامن شہریوں کو مارنے اور لوٹنے کا بازار گرم نہیں کر دیں گے؟ کیا بے بس افراد‘ لاکھوں کی تعداد میں بے سروسامان گھرانے اپنے بچوں کو بچا کر اسی طرح پناہ لینے نکل کھڑے نہیں ہوں گے‘ جیسے مندرجہ بالا مثالوں میں بتایا گیا ہے۔ ملا حضرات کی طاقت اور حوصلے بہت بڑھ گئے ہیں۔ ان کی خواہشوں اور ہوس اقتدار کی حدیں بہت وسیع ہیں۔ بعض مذہبی لیڈروں کے عزائم کسی سے پوشیدہ نہیں کہ وہ بھارت پر قبضہ کریں گے۔ پاکستانی طالبان جو ملاعمر کی امارت پر ایمان رکھتے ہیں‘ کیا وہ پاکستان کی سرزمین کا ایک حصہ مانگ کرخود اپنی یا ملا عمر کی حکومت قائم کرنے کی کوشش نہیں کریں گے؟ اور جب ہمارے وطن میں ہرکمزور اور مظلوم کے خون سے ہولی کھیلنے کا سلسلہ پھیلے گا‘ توکیا دنیا خاموش تماشائی بن کر بیٹھی رہے گی؟ بھارت میں ہندو تنگ نظری تیزی سے پھیل رہی ہے اور آر ایس ایس اور ویشوا ہندو پریشد کی لیڈرشپ نے‘ بی جے پی کے پردے میں ہندو انتہا پسندوں کو اقتدار میں لانے کا معرکہ سر کر لیا‘ تو نہ بھارت کے مظلوم عوام کے جان و مال محفوظ رہیں گے اور نہ پاکستانی عوام کے۔ نفرتوں کا ایسا خوفناک بازار گرم ہو گا‘ جس کا تصور کر کے بھی خوف آتا ہے۔ آج یہ باتیں آپ کو ناممکنات نظر آ رہی ہوں گی۔ اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں‘ تو پاکستان کے ان 23جوانوں کی شہادت کے مناظر یاد کر لیں۔ کس طرح ان کی گردنیں کاٹی گئیں؟ کس طرح ان کے سربریدہ جسموں کو نفرت اور بیدردی کے ساتھ گاڑی سے زمین پر پھینکا گیا؟ اور کس طرح سروں کو فٹ بال بنا کر کھیلا گیا؟ آج میری باتیں آپ کو خرافات معلوم ہوں گی‘ لیکن پاکستانی حکمرانوں کا چہرہ مشرقی پاکستان میں ہم دیکھ چکے ہیں۔ہمارے حکمران اپنی کرپشن‘ اقتدار اور طاقت میں اضافے کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کی صلاحیت کیا؟ خواہش رکھتے ہیں۔ فوجی قبضوں کا زمانہ گزر چکا ہے۔ اب خطرے سرحدیں پار کر کے نہیں آتے‘ سرحدوں کے اندر ہی جنم لینے لگتے ہیں۔ لبیا اور شام کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔ افغانستان اور عراق کے معاشروں کو بیرونی فوجوں نے تباہ و تاراج کیا۔ ہماری تباہی اور تاراجی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ میں مایوس ہونا نہیں چاہتا۔ پرامید رہنا چاہتا ہوں۔ مگر کیسے؟