یہ لوگ تو جمہوری جدوجہد پر ایمان رکھتے ہیں۔ انہیں شاید یہ یقین تھا کہ مغربی دنیا‘ جو اس وقت عالمی ضمیر کی ٹھیکیدار ہے، کے نزدیک دنیا میں جمہوریت اور جمہوری اقدار کا فروغ ہی وقت کی آواز ہے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ مغربی دنیا اور عالمی ضمیر منہ زور گھوڑے کی طرح ایک نعرہ بلند کرتی ہے، کہ عراق اور افغانستان میں چونکہ آمریت مسلط ہے، انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے، اس لیے وہاں پر حکمران ٹولوں کو بزور طاقت اتار کر جمہوریت قائم کی جائے۔ پھر اس کے بعد یہ عالمی برادری دندناتی، بم برساتی، قتل و غارت کرتی ان ملکوں میں داخل ہوتی ہے، لاکھوں لوگوں کو تہہ تیغ کرتی ہے، اپنی نگرانی میں ایک آئین تحریر کرتی ہے، جس طرح کا چاہیں‘ منظور نظر لیڈر عوام کے ووٹوں سے جتواتی ہے اور پھر وہاں کے کروڑوں عوام کو طاقت کے زور پر بتاتی ہے کہ اے جاہلو! تہذیب سے ناآشنا گنوارو! یوں ملک چلائے جاتے ہیں اور ایسے جمہوریت اور عوام کی بالادستی قائم کی جاتی ہے‘ ایسے زندہ رہا جاتا ہے۔ مصر کے آٹھ کروڑ تیس لاکھ عوام بھی شاید اسی فریب میں مبتلا تھے کہ اس دنیا کا سیکولر، جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کا علمبردار کہلانے والا طبقہ‘ جس میں صرف حکومتیں ہی نہیں، میڈیا، دانشور، تجزیہ کار، تاریخ دان اور بڑے بڑے فلسفی بھی شامل ہیں، وہ جو دنیا میں ہونے والے چھوٹے سے واقعہ پر سرتاپا احتجاج بن جاتے ہیں، ملالہ یوسف زئی کو امن کی علامت بنا کر اقوام متحدہ کے سٹیج سے خطاب کرواتے ہیں، انسانی حقوق کی پامالی پر بڑے بڑے جلوس نکالتے ہیں، اقوام متحدہ سے قراردادیں منظور کرواتے ہیں‘ یہاں بھی ان کا ساتھ دیں گے۔ مصر کے عوام کو کس قدر غلط فہمی تھی۔ عالمی ضمیر نام کی چیز تو مفادات اور منافقت کا ایک گورکھ دھندا ہے۔
مصری قوم کی فوج نے انہیں تین ڈکٹیٹر تحفے میں دیے: جمال عبدالناصر، انوارالسادات اور حسنی مبارک۔ فرعون کی سرزمین پر حکومت کرنے والے ان فرعونوں کو ہمیشہ کسی نہ کسی طور پر عالمی پشت پناہی حاصل رہی۔ جمال عبدالناصر کو کمیونسٹ روس کی اور انوارالسادات اور حسنی مبارک کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی بے پناہ حمایت حاصل رہی‘ لیکن ان تینوں ڈکٹیٹروں کے مقابلے میں سرفروشوں کی ایک جماعت ہے جو 1928ء سے سرگرم عمل رہی ہے۔ اخوان المسلمین‘ جسے ایک سکول کے استاد اور مذہبی سکالر حسن البنا نے قائم کیا۔ یہ تنظیم یوں تو مصر میں قائم ہوئی لیکن یہ سیّدالانبیاءﷺ کے ارشاد کے مطابق پوری امتِ مسلمہ کو ایک جسد واحد سمجھتی ہے۔ اخوان نے اپنا کام رفاہِ عامہ کی سرگرمیوں سے شروع کیا اور تھوڑی ہی مدت میں پوری عرب دنیا میں اپنی جدوجہد سے ایک مقام بنا لیا۔ اخوان کا فلسفہ قرآن اور سنت کی عمل داری ہے اور یہ اقبال کے اس شعر کی ہو بہو تفسیر ہے۔
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اخوان کی تحریک میں اس وقت نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوا جب پوری مغربی دنیا نے بالفور ڈیکلریشن پر عملدرآمد کرتے ہوئے عرب سرزمین کے ایک ٹکڑے پر اسرائیل کی ناجائز حکومت قائم کی۔ وہ اسرائیل جس نے اپنے قیام کے پہلے دن ہی یہ اعلان کیا تھا کہ پوری دنیا میں بسنے والے یہودی ایک قوم ہیں۔ یوں تو اخوان نے 1936ء ہی سے مصر پر برطانوی قبضے کے خلاف جدوجہد کا آغاز کر دیا تھا، لیکن اسرائیل کے قیام سے جو غم و غصہ پوری مسلم دنیا میں پھیلا تھا‘ اس کا اظہار اخوان کے کارکنان میں بھی نظر آنے لگا۔ اسرائیل کے بارے میں تو قائد اعظم جیسے محتاط رہنما نے بھی یہ لفظ استعمال کیے تھے کہ ''یہ مغرب کا ایک حرامی بچہ ہے‘‘۔ 1948ء میں عربوں کو اسرائیل کے مقابلے میں ذلت آمیز شکست کا سامنا ہوا تو مصر کی حکومت نے خود کو عالمی امن کا علمبردار ثابت کرنے کے لیے اخوان المسلمین پر پابندی لگا دی اور اس کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔ اس وقت تک اخوان کے مصر میں پانچ لاکھ ارکان تھے۔ 1952ء میں اخوان نے برطانوی سرپرستی میں قائم شاہ فاروق کی حکومت الٹنے کی تحریک میں حصہ لیا۔ یہ تحریک ان آزاد فوجی افسروں نے چلائی تھی جنہوں نے عرب اسرائیل جنگ میں حصہ لیا تھا۔ محمد نجیب برسرِ اقتدار آیا، لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد جمال عبدالناصر نے تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس نے اس فرعونی تخت پر بیٹھتے ہی اخوان پر پابندی لگائی۔ لاکھوں افراد کو قید خانوں میں اذیت ناک تشدد سے ہلاک کیا گیا اور اخوان کے سربراہ سید قطب کو پھانسی دے دی گئی۔ سید قطب ان مذہبی عالموں میں سے ایک تھے جن کا اثر و نفوذ پوری مسلم دنیا پر تھا۔ ان کی کتب اسلامی ممالک کی ہر زبان میں ترجمہ ہوئیں تھیں۔ 29 اگست 1966ء کو انہیں چھ ساتھیوں سمیت پھانسی دے دی گئی اور اگلے سال جمال عبدالناصر نے اسرائیل سے اس نعرے کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا کہ ہم فرعون کی نسل ہیں اور ہمیں موسیٰ کی نسل سے مقابلہ کرنا ہے۔ ذلت آمیز شکست کھائی۔ اخوان سیاست سے مصلحتاً دور ہو گئی۔ اس کے بہت سے کارکنان یا تو ہلاک کر دیے گئے تھے یا تشدد سے معذور۔ جمال عبدالناصر اپنے اعمال لے کر اللہ کے حضور جا پہنچا تو انوارالسادات کی آمریت کا آغاز ہوا۔ امریکی سرپرستی نے اسے اسرائیل کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا۔ 1979ء میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہوا اور 6 اکتوبر 1981ء کو ایک فوجی پر یڈ کے دوران اسے ہلاک کر دیا گیا۔ اب ایک اور ڈکٹیٹر حسنی مبارک تھا اور اخوان کی جدوجہد۔ 2005ء کو اخوان کو نہ جانے کہاں سے یقین ہو گیا کہ دنیا یا عالمی ضمیر جمہوریت کا علمبردار ہے۔ اس سال انہوں نے جمہوریت کے حق میں مظاہرے شروع کیے اور الیکشن میں آزاد امیدواروں کی حیثیت سے حصہ لیا۔ ان کے 88 ارکان الیکشن جیت گئے۔ اِس الیکشن پر دنیا بھر کے آزاد مبصرین نے بدترین دھاندلی کے الزامات لگائے۔ الیکشن آزاد ہوتے تو اخوان کی فتح یقینی تھی۔ اخوان نے شاید یہ خیال کر لیا تھا کہ یہ مبصرین جمہوریت کے خیر خواہ ہیں۔ یہ ان کی ایک اور غلط فہمی تھی۔
اخوان کا یہ یقین کہ پُرامن جدوجہد سے انقلاب کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے، عوام کی رائے عامہ سے بر سرِ اقتدار آ کر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی شریعت نافذ کی جا سکتی ہے، انہیں 2011ء میں سڑکوں پر لے آیا۔ یہ پوری دنیا کے لیے حیران کن بات تھی۔ صدیوں سے بادشاہت اور آمریت میں پسی ہوئی قوم ایک دم کیسے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ حسنی مبارک چلا گیا۔ پورا مغربی میڈیا اس انقلاب کو ایک سیکولر‘ انسانی حقوق اور جمہوریت کی جدوجہد بتاتا رہا لیکن الیکشن کی کوکھ سے اخوان واضح اکثریت سے نمودار ہوئی‘ تو اس انقلاب کو ختم کرنے کیلئے، فوج اور عدلیہ مقابل آ گئی‘ لیکن جیتنے والے صدر مرسی کو عوام کی حمایت حاصل تھی۔ وہ مضبوط رہے اور انہوں نے اسلامی شریعت پر مبنی آئین پر ریفرنڈم کروایا اور 63 فیصد ووٹوں کی اکثریت سے اسے نافذ کر دیا۔ اب پوری مغربی دنیا، سیکولر میڈیا اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کا اصل چہرہ سامنے آ گیا۔ چند ہزار لوگوں کو تحریر اسکوائر میں جمع کروایا گیا اور اسے عالمی میڈیا پر یوں پیش کیا گیا جیسے پورا مصر سڑکوں پر نکل آیا ہو۔ تین جولائی 2013ء کو فوج کے سربراہ عبدالفتح السیسی نے مصر پر پھر ایک دفعہ آمریت قائم کر دی اور سارے کے سارے انسانی حقوق کے علمبردار خاموش رہے۔ لیکن مصر کے عوام اس جمہوریت کے قتل پر سڑکوں پر نکل آئے۔ آٹھ ہزار لوگ اس احتجاج کے دوران اب تک شہید کر دیے گئے ہیں۔ ہزاروں گرفتار کر لیے گئے۔ فوجی نوعیت کی عدالتیں لگیں۔ نہ مدعی، نہ گواہ اور نہ وکیل اور اب اخوان کے 529 افراد کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں پھانسی کی سزائیں تو دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم ٹربیونل نے بھی نہیں دی تھیں۔ عالمی ضمیر اور میڈیا آج بھی خاموش ہے اور اگلے کئی سالوں تک خاموش ہی رہے گا۔ ہاں یہ اس وقت ضرور جاگے گا جب اس ظلم و بربربت اور وحشت سے کوئی القاعدہ جنم لے گی، کوئی لٹھ مار گروہ پیدا ہو جائے گا۔ کوئی انتقام کا نعرہ بلند کرے گا۔ پھر ان کی ڈاکومینٹریاں دیکھیں، بریکنگ نیوز دیکھیں، ٹاک شوز کی گرم جوشیاں ملاحظہ کریں۔