تحریر : شمشاد احمد تاریخ اشاعت     26-03-2014

تعلق جو تبدیل نہیں ہوسکتا

کسی ملک کی خارجہ پالیسی کو پرکھنے کا ایک پیمانہ‘ قریب ترین ہمسایوں کے ساتھ اس کے تعلقات کی نوعیت ہے۔ اگر اس پیمانے کا اطلاق پاکستان کی خارجہ پالیسی پر کیا جائے تو مِلا جُلا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ وہ چار ممالک جن کے ساتھ ہماری بین الاقوامی سرحدیں ملتی ہیں‘ ان میں سے ایران اور چین کے ساتھ ہمارے تعلقات کشیدگی اور تصادم سے پاک ہیں جبکہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ زیروبم کا شکار رہے۔ ان کشیدہ تعلقات کے ہماری سیاست اور ترقی پر اثرات سب پر عیاں ہیں۔
آزادی کے پہلے عشرے کے دوران چین کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات شکوک کی زد میں رہے جس کی بنیادی وجہ مغرب کی سربراہی میں سیٹو اور سینٹو معاہدوں میں ہماری شرکت اور چین بھارت تعلقات میں ہمارا موقف تھا۔ اس طرح ایران واحد ملک ہے جس کے ساتھ آزادی کے وقت سے ہمارے دوستانہ تعلقات استوار ہیں۔ سربراہان مملکت میں سے شاہ ایران کا سب سے پہلے پاکستان کے دورے پر آنا محض اتفاق نہیں تھا۔
دونوں برادر ممالک کے قریبی اور باہمی تعاون پر مبنی تعلقات کا استقرار کئی مثبت اور بنیادی عوامل کا مرہون منت ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ افغانستان اور بھارت کے برعکس ایران کے ساتھ ہمارا کوئی زمینی اور بحری تنازع نہیں ہے۔ ہمارے صوبہ بلوچستان کے ساتھ ایران کی 978 کلومیٹر طویل سرحد واضح طور پر متعین ہے اور یہی صورت حال سمندری حدود کی بھی ہے۔ دوسری بڑی وجہ باہمی مفاہمت اور ایک دوسرے کی تزویراتی گہرائی کا احترام ہے۔ ایران عراق جنگ کے دوران جب خلیج فارس کی بندرگاہیں عراقی حملوں کے نشانے پر تھیں‘ پاکستان نے کراچی کی بندرگاہ کا ایک حصہ اور فضائی پٹی ایرانی ضروریات کے لیے مختص کر دی تھی۔ اس سے قبل ایران نے بھی 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں کے دوران پاکستان کے ساتھ اسی طرح کا برتائو کیا تھا۔ پاکستان کے جنگی جہازوں کو نہ صرف ایرانی فضائی مستقر استعمال کرنے کی اجازت دی گئی بلکہ ان کے ایندھن کی ضروریات بھی پوری کی گئیں۔
دوسرا عامل جو دونوں ملکوں کو قریب لاتا ہے، وہ ان کے اپنے اپنے بلوچستان میں پریشان کن حالات ہیں جو ان کے قومی مفادات کے خلاف بیرونی عناصر کے پیدا کردہ ہیں۔ جغرافیائی و تزویراتی حالات کے علاوہ گہرے تاریخی‘ تہذیبی اور مذہبی روابط کی بدولت ایران کو ہماری خارجہ پالیسی میں کلیدی مقام حاصل ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ایران خطے کا نہایت طاقتور اور تزویراتی طور پر ایک اہم ملک ہے۔ تزویراتی پہلوئوں کے اعتبار سے دونوں اسلامی جمہوری ممالک کے عوام کے درمیان بے شمار مشترک اقدار پائی جاتی ہیں جن کا تعلق مذہب‘ تاریخ‘ کلچر‘ آرٹ‘ فن تعمیر‘ ادب‘ تہذیبی روایات اور سماجی رسوم و رواج سے ہے۔ دونوں ممالک میں تزویراتی یکسانیت سے لے کر تہذیبی قُرب تک وسیع مشترکات کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے تعلقات کی نوعیت ٹھوس اور فعال ہو، لیکن اس معنوی استعداد اور حقیقت کے درمیان خلیج موجود ہے جس کی وجوہ میں کئی جیوسٹریٹیجک مفادات اور ترجیحات کارفرما ہیں۔ ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں پاک ایران تعلقات عروج پر تھے۔ اس زمانے میں دونوں ممالک کی خارجہ پالیسی کے اہداف یکساں تھے جن کی وجہ سے تمام بڑے شعبوں میں ان کے درمیان وسیع تعاون پایا جاتا تھا۔
1979ء میں رضا شاہ کی حکومت کا تختہ الٹنے اور اُسی سال اپریل میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور دسمبر میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے سے خطے کی تزویراتی حرکیات میں بنیادی تبدیلی واقع ہو گئی اور ان واقعات کا پاک ایران تعلقات پر بھی اثر پڑا۔ ان کے تعلقات محدود ہونے میں خطے اور عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں خصوصاً افغانستان کی خانہ جنگی اور پاکستان میں لڑی جانے والی فرقہ وارانہ پراکسی وار کا بڑا دخل ہے۔ جغرافیائی محل وقوع، دونوں ملکوں کو جہاں ایک خاص جیوپولیٹیکل اہمیت عطا کرتا ہے وہیں یہ نہ صرف ان کے باہمی تعلقات بلکہ بیرونی طاقتوں کے ساتھ روابط میں بھی خلل کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ پاکستان اور ایران دونوں سرد جنگ اور اس کے بعدکے زمانے میں اپنے جغرافیے کی بڑی قیمت چکاتے رہے ہیں۔ ایران کو نوّے کی دہائی میں پاکستان کی طالبان پالیسی کی وجہ سے سنگین مسائل کا سامنا رہا جس پر اسے امریکہ کی سی آئی اے اور ایک عرب ملک کے ساتھ مل کر عمل کرنا پڑا۔ نتیجتاً اس کا پاک ایران تعلقات پر انتہائی منفی اثر مرتب ہوا۔
پاکستان کی طرح ایران کا بھی افغانستان کی سکیورٹی سے متعلق صورت حال سے براہ راست واسطہ ہے اور یہ بات قابل فہم ہے کہ وہ افغانستان کو آزاد اور مستحکم دیکھنا چاہتا ہے نیز اس کی یہ بھی خواہش ہے کہ تہران کے آئندہ بننے والی نسلی اعتبار سے متنوع کابل حکومت کے ساتھ دوستانہ مراسم ہوں۔ بدقسمتی سے تہران اور اسلام آباد دونوں اپنے اپنے محدود تزویراتی مفادات کی خاطر کئی بار متقابل رہے جس سے دوسروں نے فائدہ اٹھایا۔ وسط ایشیائی ریاستیں آزاد ہوئیں تو دونوں میں نو آزاد جمہوریتوں پر ایک دوسرے سے زیادہ اثر انداز ہونے کے لیے مسابقت شروع ہو گئی۔ پاکستان نے گوادر بندرگاہ تعمیر کی تو ایران نے اس سے 190 کلومیٹر مغرب میں چاہ بہار بندرگاہ بنا ڈالی جو اسی مسابقت کا ایک اور مظاہرہ تھا۔ ایران نے ایک دریا پر پل تعمیرکر لیا جو افغانستان اور ایران کی سرحد کو متعین کرتا ہے‘ اس کے علاوہ اس نے زارنگ سے چاہ بہار تک شاہراہ کو بھی اپ گریڈ کر لیا۔ ادھر بھارت نے افغانستان میں دلارام زارنگ روڈ تعمیر کی جس کا مقصد ایران، بھارت اور افغانستان میں تعاون بڑھانا اور ان کا وسطی ایشیاء، جنوبی ایشیاء اور مغربی ایشیاء کے ساتھ زمینی رابطہ استوارکرنا ہے۔ دونوں ہمسایہ ملکوں کی خطے اور عالمی سطح پر خارجہ پالیسی کی یہ متخالف سمت تھی جس نے گزرتے برسوں کے ساتھ پاک ایران تعلقات کو متاثر کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک دوسرا عامل جو پاک ایران تعلقات کے فروغ میں حائل ہوا وہ ایران کے عرب دنیا کے ساتھ غیر یقینی تعلقات ہیں۔ اس صورت حال نے پاکستان کو ایران اور اس کے حریف عرب ممالک میں سے کسی ایک کو چُننے میں مشکل سے دوچار کر دیا۔ ایران عراق جنگ کے دوران بار بار یہ صورت حال پیش آتی رہی لیکن ہم نے کسی ایک فریق کا ساتھ نہ دیا، یہاں تک کہ ایران کے بحرین اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ خلیج کے تین جزیروں پر تنازع کے دوران بھی پاکستان غیر جانبدار رہا۔
اس دگرگوں پس منظر میں سعودی عرب اور بحرین کے اعلیٰ سطح کے دوروں نے‘ جو مالی تعاون سے مملُو تھے، پاکستان اور ایران کے تعلقات میں نئی مشکلات پیدا کر دیں۔ اس پیش رفت پر تہران میں بے چینی اور بے سکونی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ پاکستان کے لیے سعودی عرب کی سربراہی میں عرب ممالک اور ایران کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھنا ہمیشہ نازک معاملہ اور کئی بار ایک دشوار مرحلہ رہا ہے۔ بہرحال، ہم نے ہمیشہ اس بات کو یقینی بنایا کہ ایران اور عرب دنیا کے ساتھ ہمارے تعلقات کسی کی مخالفت کی بنیاد پر نہ ہوں۔
افغان جنگ کا تین دہائیوں سے زیادہ عرصے تک حصہ رہنے کے بعد ہم عرب ایران تصادم میں ملوث ہو کر ایک اور آفت بداماں صورت حال میں گرفتار ہونے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہمیں ان تنازعات سے دور رہنا چاہیے اور خلیج کی بعض امارتوں کے ساتھ تعلقات میں جو ہماری حالیہ پیش رفت ہوئی ہے اس پر ایرانی تشویش کو دور کرنا چاہیے۔ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات ناقابل تبدیل ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف‘ جو پہلے تہران کا دورہ ملتوی کر چکے ہیں‘ انہیں لازمی طور پر پہلی فرصت میں تہران جا کر صورت حال کو سنبھالنا چاہیے۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved