تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     27-03-2014

یہ صرف ثروت کا مسئلہ نہیں !

اس کا نام ثروت ہے۔ یہ فرضی نام ہے کیونکہ نام سے کیا فرق پڑتا ہے، اصل اہمیت اس کے کام کی ہے۔ وہ اپنی جیسی سینکڑوں پولیو ورکرز کی طرح پاکستان میں صحت کی ایک اہم مہم کا حصہ ہے۔ ثروت صوبائی دارالحکومت لاہور میں سمن آباد ٹائون کے علاقے میں اینٹی پولیو ورکر کے فرائض سرانجام دیتی ہے۔ جب سے لاہور میں ڈینگی حملہ آور ہوا ہے‘ اسے اینٹی ڈینگی مہم میں بھی اپنا کام کرنا ہوتا ہے۔ حکومت کی طرف سے اس کی تنخواہ 8ہزار روپے ماہوار مقرر ہے جبکہ اس کے حصے میں صرف سات ہزارروپے آتے ہیں۔ یہ کم ہی ہوتا ہے کہ مہینے کے مہینے اسے تنخواہ مل جائے ، ڈیڑھ دو یا ڈھائی ماہ اوپر ہو جانا ایک معمول ہے۔ اسے آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ اگر کاغذوں میں اس کی تنخواہ 8 ہزار ہے تو پھر اس کو سات ہزار کیوں دی جاتی ہے؟ ہرماہ ایک ہزار روپیہ کاٹ کیوں لیا جاتا ہے ؟ اگر وہ اور اس جیسی دوسری پولیو ورکرز اس پر صدائے احتجاج بلندکریں تو انہیں کہا جاتا ہے کہ اگراعتراض ہے تو یہ نوکری چھوڑ دیں۔ 
پولیو مہم کے تحت انہیں مہینے میں دو بار اپنے مقرر کردہ علاقے میں گھرگھرجاکر پولیو کے قطرے پلانے ہوتے ہیں۔ اس کام کا الائونس ڈبلیو ایچ او کی جانب سے گیارہ سو روپے مقررکیاگیا ہے جو ان کی تنخواہ کے علاوہ ہے۔ پولیو ورکرز بڑی تندہی اور جانفشانی کے ساتھ گھرگھرجاکر پولیوکے قطرے بچوں کو پلاتی ہیں لیکن اس کا معاوضہ ان کو بروقت نہیں ملتا۔ صورت حال یہ ہے کہ بعض اوقات چھ ماہ سے ایک سال کا عرصہ بھی گزر جاتا ہے اور متعلقہ با اختیار اہلکار یہ معاوضہ پولیو ورکرز کو نہیں دیتے۔ ثروت کو اس دفعہ پورا سال انتظار کرنے کے بعد صرف سال کے آخر میں ایک ہزار دیا گیا۔ ایسی صورت حال میں بہت ساری پولیو ورکرز نے احتجاج کیا تو ان کو شوکاز نوٹس دیے گئے اور کہا گیا کہ آپ نوکری چھوڑ دیں۔
ایسی مایوس کن صورت حال میں بہت ساری پولیو ورکرز نوکری چھوڑ چکی ہیں اور سمن آباد ٹائون میں پولیو ورکرز کی تعداد ایک سو پچاس سے کم ہو کر 70 رہ گئی ہے۔ 
یہ صورت حال لاہور کے صرف ایک ٹائون کی ہے۔ اگر صوبائی دارالحکومت میں پولیو مہم کا حال یہ ہے تو پنجاب کے چھوٹے شہروں‘ قصبوں اور دیہاتوں میں صورت حال کا اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اینٹی پولیو مہم جس طرح کے خطرات سے دوچار ہے‘ ان میں ثروت جیسے پُرعزم اینٹی پولیو ورکرز کے ساتھ سرکار کا یہ برتائو سمجھ سے بالا ہے۔ اس وقت اینٹی پولیو ورکرز ہمارے صحت کے نظام کا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں کیونکہ طالبان کی دھمکیوں اور خودکش حملوں کے خطرات کے باوجود وہ اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔بدقسمتی سے اس ''جہاد‘‘ کے ثواب میں انہیں ان کی جائز تنخواہ بھی بروقت نہیں ملتی۔ اگر پولیو ورکرز ان حالات میں اپنے کام سے ہاتھ روک لیں تو سوچیے‘ کون ہوگا جو اس کام کا بیڑا اٹھائے گا؟ پاکستان میں جہاں پولیو وائرس کا خاتمہ اب ایک چیلنج بن چکا ہے‘ ہم ایسے کسی ایڈونچر کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔ ایک طرف پولیو وائرس ختم ہونے کے بجائے پاکستان کے مختلف علاقوں میں سر اٹھا رہا ہے اور دوسری جانب اینٹی پولیو مہم کے سب سے اہم اور ضروری ارکان اس صورت حال میں کام کر رہے ہیں کہ اگر ڈبلیو ایچ اوکی جانب سے مقررکردہ الائونس بروقت ادا نہ ہونے کی شکایت کرتے ہیں تو انہیں محکمے کی طرف سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے حالانکہ ان کے لیے تو پہلے ہی ماحول سازگار نہیں۔ پشاورکے بعدکراچی میں بھی پولیو ورکرز کی شہادت‘ پولیو ٹیموں پر جگہ جگہ حملے‘ ان کے حوصلے پست کرنے کے لیے کافی ہیں۔ 
2013ء میں 19 پولیو ورکرز قتل کیے گئے اور 2014ء کے اب تک اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان بھر سے 25 اینٹی پولیو ورکرزڈیوٹی کے دوران دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ مجھے آج بھی وہ ٹی وی رپورٹ یاد آتی ہے جو قیوم آباد کورنگی ٹائون کراچی میں قتل ہونے والی ایک اینٹی پولیو ورکر کے بارے میں مرتب کی گئی تھی ۔ اس کے گھر کی خستہ حالی ، ماں سے محروم ہو جانے والے ننھے معصوم بچے اور درو دیوار سے عیاں غربت‘ ایک دلگداز کہانی سنا رہی تھی۔
انتہائی کم معاوضے پر کام کرنے والے پولیو ورکرز دو طرح کے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ایک جانب معاشی عدم تحفظ ہے تو دوسری جانب فرض کی ادائیگی کے دوران دہشت گردی کے سنگین خطرات کا سامنا ہے۔ اگر حکومت پاکستان عمر بھر کی معذوری دینے والے اس مرض کا خاتمہ جڑ سے کرنا چاہتی ہے تو پھر پولیو ورکرزکو معاشی تحفظ کے ساتھ ان کی جان کی حفاظت کو بھی یقینی بنائے، ان کی لائف انشورنس کرئی جائے، ان کے بچوں کی تعلیم مفت ہو ، ان کے معاوضے میں اضافہ ہو اور انہیں بغیر کسی کٹوتی کے بروقت تنخواہ دی جائے۔ پاکستان میں ایسے اقدامات کرنا ضروری ہیں کیونکہ پولیو وائرس کے حوالے سے پاکستان میں افغانستان اور نائیجیریا سے بھی زیادہ خطرناک صورت حال ہے۔ 
2012ء میں پاکستان میں 58 پولیو کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ افغانستان میں 30 پولیو کیسز رپورٹ ہوئے۔ 2013ء کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں 92 پولیوکیسز رپورٹ ہوئے اور افغانستان میں صرف 11 کیسزسامنے آئے۔ ڈبلیو ایچ او پولیو وائرس کے حوالے سے پاکستان کو High risk قرار دے چکا ہے جبکہ بھارت کی جانب سے پاکستان سے جانے والے مسافروں کے لیے چند شرائط رکھ دی گئیں ہیں کہ وہ بھارت آنے سے پہلے اپنی پولیو ویکسینیشن رپورٹ پیش کریں۔ 
پولیو وائرس کے حوالے سے پاکستان اور افغانستان کا تقابل شرمندگی کا باعث ہے کیونکہ افغانستان جنگ زدہ ملک ہے جہاں کا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے‘ پھر بھی وہ ملک پولیو وائرس پر قابو پانے میں پاکستان سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر چکا ہے۔ صرف ٹی وی اور اخبارات میں پولیو مہم کے اعلانات اور اشتہارات سے پولیو وائرس کا خاتمہ نہیں ہوگا اس کے لیے ثروت جیسی پر عزم اینٹی پولیو ورکرزکو معاشی تحفظ دینا ہوگا۔ اگر الائونسز اور تنخواہوں کی ادائیگی کے جواب میں انہیں شوکاز نوٹس ملتے رہیں گے اور وہ نوکری چھوڑتے رہیں گے تو پولیو مہم کا کیا ہوگا؟ اہلِ اختیارکو سوچنا چاہیے کہ یہ پاکستان کے مستقبل کا سوال ہے ، صرف ثروت کا مسئلہ نہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved