آج کے زمانے میں ہمارے وزیرخزانہ‘ ڈیڑھ ارب ڈالر کی ایک سے دوسری جگہ منتقلی کو چھپانا چاہتے ہیں۔ پوری حکومتی پلٹن ان کی ہمنوائی میں بیانات جاری کر رہی ہے۔ ڈیڑھ ارب ڈالر کی وصولی تو مانی جا رہی ہے۔ کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ کہاں سے آئے یہ ڈالر؟ کس نے دیئے یہ ڈالر؟ کیوں دیئے یہ ڈالر؟ پاکستانی حکومتوں کی رازداریاں بھی کمال کی ہوتی ہیں۔ جب پاکستان کے خریدے ہوئے اسلحہ کی تفصیل متعدد جریدوں اور اخباروں میں شائع ہو چکی ہوتی تھی‘ تب بھی ہمارے سرکاری ترجمان کہا کرتے تھے کہ ہم نے تواسلحہ نہیں خریدا۔ جب ہمارے علاقوں میں دہشت گردی کے مراکز تھے۔ ''مجاہدین‘‘ افغانستان جا کر توڑپھوڑ کرتے تھے‘ ہم اس وقت بھی نہیں مان رہے تھے کہ ان کارستانیوں میں ہمارا کوئی ہاتھ ہے۔ یہ تو مانا جا سکتا ہے کہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں پراسرار موجودگی کا تمام حکومتی اداروں کو علم نہ ہو‘ لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دنیا بھر کو مطلوب نامور دہشت گرد ہمارے ملک میں چھپا رہے اور کسی کو پتہ نہ ہو؟ خصوصاً پرویز مشرف کو‘ جو دھڑلے سے کہتے تھے کہ'' اسامہ ہمارے پاس ہے ‘تو جگہ بتائو۔ ہم پکڑ لیتے ہیں۔‘‘ امریکیوں کو پتہ چلا تو انہوں نے بہتر سمجھا کہ جنرل صاحب کو ٹھکانا بتا کر‘ اسامہ کو ٹھکانا بدلنے کا موقع دینے سے بہتر ہے کہ خود ہی کوئی بندوبست کر لیں۔ ڈار صاحب کا خیال ہے کہ سسپنس ابھی تک باقی ہے۔ میں نے کئی روز پہلے عرض کر دیا تھا کہ ہو نہ ہو‘ یہ ڈیڑھ ارب ڈالر بحرین سے آیا ہے۔ جس روز یہ کالم شائع ہوا‘ اس روز بحرین والے بھی تشریف لے آئے اور پہلی فرصت میں میزبانوں سے کہا ''رقم تو آپ کے پاس آ گئی‘ آیئے! باقی بات کرتے ہیں۔‘‘
''باقی بات‘‘ کو وہیں چھوڑتے ہوئے ‘ ان ضرورتوںکے شوکیس میں جھانکتے ہیں‘ جہاں وہ مال محفوظ پڑا ہے جس کی خریداری کے لئے ڈیڑھ ارب ڈالر ہمارے کھاتے میں منتقل ہوئے۔ کہانی ملفوف شکل میں ظاہر ہونے لگی ہے۔ آج جمعہ کے روز‘ جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہیں‘ صدر اوباما چند ہی گھنٹوں کے بعد سعودی فرمانروا کنِگ عبداللہ سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ یوں تو وہ مصر‘ شام اور ایران کے حوالے سے بات چیت کریں گے۔ ان کے لئے فوری فکرمندی کا مقام ان تینوں ملکوں میں نہیں۔ امریکہ کے لئے سلگتا ہوا زخم بحرین میں ہے۔یہ چھوٹا سا جزیرہ کئی سالوں سے فسادات اور لاقانونیت کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ یہاں کے حکمران ‘ ایران کو الزام دے رہے ہیں کہ وہ شیعہ مسلک کے جنگجوئوں کو تربیت اور اسلحہ دے کر‘ بحرین میں بھیج رہا ہے۔ وہ مقامی شیعہ آبادی کے ساتھ مل کرجزیرے میں گڑبڑ پھیلا رہے ہیں۔بحرین کے پاس بدامنی پھیلانے والوں کے مقابلے کے لئے مطلوبہ سکیورٹی فورسز موجود نہیں۔ کئی مراحل پر سعودی عرب کے فوجی دستوں کو انتظامیہ کی مدد کے لئے بحرین بلانا پڑا۔ یہاں کے حکمران سُنی اور آبادی کا بڑا حصہ‘ شیعوںپر مشتمل ہے۔پارلیمنٹ نامی چیز بھی پائی جاتی تھی۔ اب دکھائی نہیں دے رہی۔ امریکہ چاہتا ہے کہ شیعوں میں اپنے ہمنوا ڈھونڈ کر‘ انہیں پارلیمنٹ میں بٹھایا جائے اور ''منتخب‘‘ نمائندوں سے حسب ضرورت فیصلے حاصل کر کے‘ باغیوں کو غیرموثر پوزیشن میں شریک اقتدار کر دیا جائے۔ امریکہ اور سعودی عرب‘ دونوں کے پاس اتنی طاقت نہیں کہ ایران کے پڑوس میں شیعہ آبادی کی متوقع بغاوت پر قابو پانے کے لئے اپنی فورسز بھیج سکیں۔ جواب میں جارح بیرونی قوتوں کے خلاف‘ شیعہ آبادی میں ردعمل پیدا ہو گا‘ جس کے اثرات‘ شام‘ عراق‘ ایران اور سعودی عرب کے ان علاقوں تک پھیل جائیں گے‘ جہاں شیعہ آبادی بڑی تعداد میں موجود ہے اور پھر یہ بے چینی شرق اوسط میں کیا حالات پیدا کرے گی؟ اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔
امریکہ کی فکرمندی کی اصل وجہ کیا ہے؟ یہ وجہ بحرین کی جغرافیائی پوزیشن ہے۔ یہ چھوٹا سا جزیرہ متحدہ عرب امارات‘ سعودی عرب اور ایران کے درمیان واقع ہے۔ قریب ترین ملک سعودی عرب ہے۔ سعودی عرب نے سمندر کے اوپر 95کلومیٹر کی سڑک بنا کر دونوں ریاستوں کو جوڑ رکھا ہے۔ دوسرا‘ نزدیک ترین ملک قطر ہے۔ آمدورفت کا ذریعہ سمندری راستہ ہے۔ جبکہ دوسری سمت میں ایران ہے۔ اس جزیرے سے نکالی گئی سڑک‘ سعودی عرب میں دہران‘ الخبر اور دمام کو بحرین سے ملاتی ہے۔انہی علاقوں میں تیل کے ذخیرے ہیں۔ آبادی میںشیعہ مسلک رکھنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے‘ جس میں بے چینی پائی جاتی ہے اور ایسی خبریں بھی ہیں کہ ایران‘ وہاںکے باغیوں کو تربیت اور اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ امریکہ کے پانچویں بحری بیڑے کاہیڈکوارٹر ‘ بحرین میںہے۔ یعنی شرق اوسط کے تیل کے تمام ذخیروں کے عین درمیان۔ بحرین میں پھیلتی ہوئی بغاوت‘ مقامی سکیورٹی فورسز کے قابو میں نہیں آ رہی۔ گزشتہ دنوںباغیوں نے امریکہ کے پانچویں بیڑے کے لئے تعمیرشدہ رہائشی کالونی پر بھی حملے کئے۔ جس پر امریکہ سخت
پریشان ہے۔ ڈیڑھ ارب ڈالر نے یہیں کہیں سے اُڑان بھر کے‘ ہمارے بینک میں لینڈ کیا۔ امریکی سکیورٹی فورسز ‘تیل کے خطے کے مرکز میں اتر کے عوام کے خلاف جارحیت نہیں کر سکتیں۔ وجہ پہلے عرض کر چکا ہوں۔ سعودی عرب کو اپنی فکر ہے کہ بحرین کی شیعہ آبادی کے خلاف امریکیوں کی کارروائی کا ردعمل سعودی عرب میں ہو سکتا ہے اور وہاں امریکیوں کے خلاف دہشت گردی شروع ہو گئی‘ تو سعودی عرب سے تیل کی سپلائی جاری رکھنا دشوار ہوتا جائے گا۔ خطرہ فوری بھی ہے اور شدید بھی۔ اگر کہیں سے بحرین کی حکومت کو سہارا دیا جا سکتا ہے‘ تو وہ پاکستان ہے۔ واضح رہے کہ بحرین کی جو ننھی سی سکیورٹی فورس ہے‘ اس میں بھی بہت سے پاکستانی کام کر رہے ہیں۔جن میں زیادہ تعداد ریٹائرڈ فوجیوں کی ہے۔ بھڑوں کے جس چھتے میںہاتھ ڈالنے سے امریکہ اور سعودی عرب ہچکچا رہے ہیں‘ میں نہیں سمجھتا کہ پاکستانی حکومت وہاںملوث ہونے کی غلطی کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ سٹریٹجک معاملات میں بھولے بھالے وزراء مبہم بیانات جاری کر کے‘ بلاوجہ شبہات اور الجھائو پیدا کر رہے ہیں۔ جس ملک میں حکومتوں کی ساکھ نہ اندر قابل رشک ہے اور نہ باہر قابل فخر‘ اس کی طرف سے جاری ہونے والے ایسے بیانات ‘ جو غیرمنطقی اور پراسرار ہوں‘ مزید تجسس پیدا کرتے ہیں۔ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے وہ سارا پس منظر ظاہر کر کے بتا سکتے تھے کہ ہم بحرین کے عوام کے خلاف کچھ نہیں کریں گے۔ہم سے کہا گیا تو دونوں فریقوں یعنی حکومت اور باغیوں کے درمیان سمجھوتے کے لئے پرامن فضا پیدا کرنے میں فریقین کو سہولت مہیا کر سکتے ہیں۔ جس کا مقصد صرف یہ ہو گا کہ طے شدہ سمجھوتے کے تحت پرامن انتخابات کرائے جائیں اور پارلیمنٹ اورحکمران خاندان کے مابین‘ تقسیم اختیارات کا موقع دیا جائے۔ ہو سکتا ہے‘ سوچنے والوں نے یہی سوچا ہو۔ اگر خطے کی حساسیت اور نئے ابھرتے ہوئے تضادات کو دیکھا جائے‘ تو یہ کام ڈیڑھ ارب ڈالر‘ جیب میں ڈال کرمُکر جانے کی طرح نہیں ہو سکتا۔ شام میں افغان اور پاکستانی طالبان اور القاعدہ کے جنگجوئوں کے جانے پر‘ دنیا اس لئے خاموش رہی کہ ان غیرریاستی عناصر پر کسی کا کنٹرول نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ہم اپنے ملک میں بھی انہی دہشت گردوں کی کارروائیوں سے پریشان ہیں۔ ہم کسی غیر ملک میں امن و امان کی بحالی کے لئے محض اقوام متحدہ کی درخواست پر ہی جا سکتے ہیں۔ اگر ایسا کوئی انتظام ہو جائے‘ تو یہ ڈیڑھ ارب ڈالر کسی کام آ سکتا ہے۔ اگر ہمیں کسی ایک فریق کی مددکرنے کے لئے کہا جائے‘ تو یہ ڈیڑھ ارب ڈالر ہاتھ جوڑ کے اصل مالک کو واپس کر دیئے جائیں ۔ بے شک نام نہ بتایا جائے۔ دوسروں کی جنگیں لڑتے لڑتے ہم جس حال کو پہنچے ہیں؟ اس سے زیادہ برا حال کرنے کی ہمارے پاس گنجائش نہیں۔