تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     28-03-2014

How much land does a man need?

اب سابق صدر زرداری چاہتے ہیں کہ سوئس حکام بیگم بینظیر بھٹو کا تیس لاکھ ڈالر کا ہیروں کا ہار واپس کریں۔ کچھ رقم پہلے ہی لے چکے ہیں۔ 
انسان کو ایک زندگی گزارنے کے لیے کتنا کچھ چاہیے؟ کوئی حد ہم نے خود زندگی میں مقرر کی ہے؟ ایک سال میں اپنے دو بھائیوں کو قبرستان میں اپنے ہاتھوں سے سلانے کے بعد مسلسل سوچ رہا ہوں‘ انسان کو آخر دفن ہونے کے لیے کتنی زمین درکار ہوتی ہے کہ ہم ساری عمر زمین کی گہرائیوں میں چھ فٹ جگہ پانے کے لیے بے ایمانی، ضمیر فروشی، کرپشن، بددیانتی اور لوٹ مار کے نہ جانے کتنے دریا، سمندر اور جنگل عبور کرتے ہیں۔ 
کئی دنوں سے سوچ رہا تھا کچھ ہمارے ایسے کرداروں کے بارے میں لکھا جائے جن کو میں اچھا سمجھتا تھا اور جب وہ گرنے پر آئے تو چند لاکھوں پر قدم ڈگمگا گئے اور اپنے ناموں کی لاج بھی نہ رکھ سکے۔ 
کرپشن دیکھ کر مجھے ٹالسٹائی یاد آتا ہے جو آخری دنوں میں شادی کے اس لیے خلاف ہوگیا تھا کہ اس کا کہنا تھا‘ اسے لگتا تھا انسان جیسے ایک دوسرے کو بھنبھوڑ اور نوچ رہے ہوں ۔ اس طرح مجھے لگتا ہے جو لوگ لوٹ مار کررہے ہیں، وہ دراصل اس ملک کو نوچ اور بھنبھوڑ رہے ہیں۔ اس ملک کو کوئی نہیں کھا رہا بلکہ ہم سب اسے ہڈی کی طرح چوس رہے ہیں اور پھر شام کو واک یا گالف کھیلتے یا پھر شادی جنازہ پر اکٹھے ہوتے ہیں تو چند لمحوں کے لیے افسردہ چہرہ بنا کر کہتے ہیں کہ یار اس ملک کا کیا بنے گا ۔ اپنے ضمیر سے بوجھ ہٹانے کے لیے ہم ان دانشوروں کی یہ باتیں سن کر بہت خوش ہوتے ہیں کہ جناب ہمارے اس عظیم ملک کے خلاف عالمی سازشیں ہورہی ہیں ۔ ایسے دانشوروں اور لیڈروں کے بیانات ہمیں سکون پہنچاتے ہیں کہ ہمارا ضمیر سو جاتا ہے کیونکہ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اس ملک کے مسائل کے ذمہ دار بھارت اور امریکہ ہیں ۔ ہم نے تو کچھ نہیں کیا۔ کوئی ہمارا نام نہیں لیتا کہ دراصل ہم اس ملک میں لوٹ مار کر کے اس کے خلاف سازش کررہے ہیں ۔ اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ اس لوٹ مار کے لیے ہم نے کئی جواز بنا رکھے ہیں ۔ ایک کی جیب سے پیسہ دوسرے کی جیب میں جاتا ہے۔ وہ کسی کو لوٹ کر آگے ادائیگی کرکے لُٹ جاتا ہے۔ دوسرا لٹیرا تیسرے سے لٹتا ہے۔ کاروباری اگر عام آدمی کو لوٹتا ہے تو بیوروکریٹ یا مختلف محکموں کے اہلکار اسے لوٹ لیتے ہیں ۔ بیوروکریٹ کسی اور سے لٹ جاتا ہے، سائیکل اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ سب کا کام چل رہا ہے‘ لہٰذا سب عالمی سازشیں تلاش کرتے رہتے ہیں اور میڈیا ان کا کام آسان کرتا ہے کہ پاکستان کے اصل دشمن امریکہ اور بھارت ہیں‘ وہ نہیں ہیں جو اس ملک کے خزانے کو باپ کا مال سمجھ کر لوٹ رہے ہیں ۔ 
خود میں نے کئی بیوروکریٹس کی بیگمات کو اسلام آباد میں کپڑوں کی دکانوں نئے ڈیزائن کی اندھا دھند خریداری کرتے اور ایک اجنبی کاروباری کو کریڈٹ کارڈ سے ان کے بھاری بلوں کی ادائیگی کرتے دیکھا ہے جب کہ خاوند بیوروکریٹ باہر گاڑی میں بیٹھے ہوتے ہیں ۔ اب کاروباریوں نے کریڈٹ کارڈ بنوالیے ہیں ۔ جس افسر کی بیگم نے شاپنگ کرنی ہے، وہ کارڈ لے کر پہنچ جاتا ہے۔ ایک لمٹ(Limit) طے کر لی جاتی ہے ۔ اگلے دن فائل کلیئر ہوجاتی ہے۔ بیگم صاحبہ بھی خوش ہے کہ اس نے سمجھداری سے کام لیتے ہوئے ایک بابو سے شادی کی تھی ۔ شکر ہے وہ کالج اور یونیورسٹی کلاس فیلو زکی محبت کے ڈرامے کے چکر میں نہیں پڑی وگرنہ خوارہوجاتی ۔ سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں۔ مختلف اور برتر وہ ہوتا ہے جس کے پاس دولت اور رعب دبدبہ ہو۔ 
یہی سرکاری بابو بڑے خوش ہوئے جب پالیسی بنائی گئی کہ یا سرکاری کار رکھ لو یا پھر نوے ہزار ماہنامہ لے لو ۔ پاکستانی بیورکریٹ نے کہا ہم دونوں لیں گے۔ اب کار بھی سرکاری اور نوے ہزار بھی ساتھ میں۔ 
اور سن لیں۔ سابق سیکرٹری خزانہ بابو واجد رانا ریٹائر ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ان کو توسیع مل جاتی ہے۔ اس دوران وہ بیٹھ کر مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہیں کہ کیوں نہ میں فیڈرل پبلک سروس کمشن میں ممبر لگ جائوں اور ملک کو نئے بابو چن کر دوں ۔ پہلے سمجھداری سے پتہ کرایا کہ ایک ممبر کی کیا تنخواہ کیا ہے۔ پتہ چلا ممبر کی تنخواہ صرف ترانوے ہزار روپے ہے۔ بابو واجد مایوس ہوئے۔ ایک سمری تیار کی اور اس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے پرنسپل سیکرٹری کو بھجوا دی کہ فیڈرل پبلک سروس کے ممبران کی تنخواہ کو ترانوے ہزار روپے سے بڑھا کر سوا چار لاکھ روپے کر دیا جائے۔ پرنسپل سیکرٹری خود تین ماہ بعد ریٹائرڈ ہونے والے تھے۔ انہوں نے فورا اس سمری کی منظوری لے لی اور ساتھ ہی تین ماہ پہلے ریٹائرمنٹ بھی۔ سب حیران ہوئے کہ پرنسپل سیکرٹری کیوں اتنی جلدی ریٹائرڈ ہوگئے۔ پتہ چلا انہوں نے راجہ صاحب کی مہربانی سے خود کو ایف پی ایس سی کا ممبر لگوا لیا تھا تاکہ اگلے چار سال محفوظ رہیں۔ سیکرٹری خزانہ واجد رانا نے بھی خود کو ممبر لگوالیا اور دونوں کی تنخواہ راتوں رات ترانوے ہزار سے سوا چار لاکھ روپے ہوگئی۔ اس طرح سمری بھیجنے اور اسے منظورکرنے والے‘ دونوں نے خود کو ممبر لگوا لیا۔ ان دونوں بیوروکریٹس کے لیے ضروری تھا کہ وہ سب کی تنخواہ بڑھوائیں تاکہ کسی کو اعتراض نہ ہو ۔ یہ وہی کام ہے جو فہمیدہ مرزا نے سپیکر کی کرسی سے ہٹنے سے پہلے کیا تھا کہ 15مارچ 2013ء کو اسمبلی نے ختم ہونا تھا تو 8مارچ کو فنانس کمیٹی کا اجلاس بلا کر اپنے لیے نوکر چاکر، مفت علاج اور دیگر تاحیات مراعات لینے کے لیے ان مراعات کا اطلاق سب سابق سپیکرز پر کرادیا ۔ یوں بیٹھے بٹھائے میرے ملتان کے صاحبزادہ فاروق علی خان، یوسف رضا گیلانی، حامد ناصر چٹھہ، الٰہی بخش سومرو، فخر امام وغیرہ کو بھی تاحیات مراعات دلوادیں تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ فہمیدہ مرزا نے صرف اکیلے تاحیات مراعات لے لی تھیں۔
یہی کچھ سیکرٹری خزانہ واجد رانا اور پرنسپل سیکرٹری نے کیا کہ سب کا بھلا کر دو۔ کون سا فہمیدہ مرزا یا بابو واجد نے جیب سے یہ اخراجات ادا کرنے تھے۔ 
دوسری طرف آڈیٹر جنرل آف پاکستان بلند اختر رانا آج کل پبلک اکائونٹس کمیٹی کے زیرعتاب ہیں کہ ان پر الزام ہے‘ انہوں نے ڈھائی برس قبل اپنی تنخواہ ستر ہزار روپے خود بڑھادی تھی۔ میری بات ہوئی تو بولے‘ قانون کے تحت وفاقی سیکرٹری کو جو تنخواہ ملتی ہے اس سے بیس فیصد مجھے زیادہ ملتی ہے۔ کب اور کس نے تنخواہ بڑھائی ہے؟ سیکرٹری قومی اسمبلی کرامت حسین نیازی کو 385,000 ماہنامہ ملتے ہیںا ور موصوف آٹھ دفعہ ریٹائرڈ ہو کر پھر سے توسیع لے لیتے ہیں۔ اگر آڈیٹر جنرل کو تین لاکھ ستر ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے تو اس پر پی اے سی کی انکوائری بیٹھ جاتی ہے اور انکوائری افسر نواز لیگ کے ممبر ہیں۔خود فہمیدہ مرزا ایک اجلاس میں انہی ارکان قومی اسمبلی کے الائونس ڈیڑھ لاکھ سے تین لاکھ روپے فی ممبر کرتی ہیں‘ تو کوئی انکوائری کمیٹی نہیں بیٹھتی۔ 
میں نے کہا‘ بلند اختر رانا صاحب آپ بھی گورنر اسٹیٹ بنک کو خط نہ لکھتے کہ جناب اسحاق ڈار نے ان سے جو پانچ سو ارب روپے کی ادائیگی بجلی گھروں کو کرائی ہے‘ جس میں سے ایک وزیر کے پارٹنر کے بجلی گھر کو بھی بارہ ارب روپے ملے ہیں‘ وہ غلط اور غیرقانونی ہے۔ آپ بھی نہ پوچھتے کہ پانچ سو ارب روپے کے بلوں کا پری آڈٹ کرائے بغیر وہ کیسے ادائیگی کر سکتے تھے تو آپ پر یہ الزام نہ لگتا۔ آپ بھی وہی کریں جو روم میں کیا جاتا ہے۔ حکمران خود کرپشن کرتے ہیں اور کرپٹ افسران کو پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کا ساتھ بھی دیتے ہیں اور پول بھی نہیں کھولتے۔ 
دوستو میرا خیال ہے آج کے لیے اتنا کافی ہے‘ وگرنہ ابھی میرے پاس ایک اور کہانی بھی ہے کہ کیسے ہمارے یاروں کے یار صدر زرداری کے ایوانِ صدر میں ان کے قابل بھروسہ بیوروکریٹس کے ذاتی بنک اکائونٹس میں غریبوں کے لیے مخصوص فنڈز میں سے کروڑوں گئے اور وہ معززین بیوروکریٹس آج کل کن عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کی دیگر سرگرمیاں کیا ہیں۔ 
یقین کریں ان کی داستان پڑھ کر ایک محاورہ ذہن میں آتا ہے کہ اونچی دوکان پھیکا پکوان۔ جتنے بڑے لوگ تھے اتنے ہی چھوٹے نکلے۔ ان چند ریٹائرڈ بیوروکریٹس کی کرپشن کی یہ گھنائونی داستان پڑھ کر مجھے اپنے اوپر غصہ آرہا ہے کہ میں خواہ مخواہ کچھ لوگوں کی عمر بھر عزت کرتا رہا ، وہ تو چند ٹکوں کی مار تھے اور چند ٹکے بھی وہ‘ جو غریب، یتیم، بے کس، اور بیوہ عورتوں کے تھے۔ ان بابوئوں نے ایوانِ صدر میں بیٹھ کر پہلے بجٹ سے غریبوں کے لیے حصہ لیا اور پھر خود ہی غریب بن کر سب کچھ چٹ کر گئے۔ 
آپ کالم پڑھ کر دل جلائیں اور میں عظیم روسی ادیب لیو ٹالسٹائی کی شاہکار کہانی"How much land does a man needs" پڑھنے لگا ہوں!! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved