تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     28-03-2014

ہنسا جائے یا رویا جائے؟

شاہ جی نے کسی بات پر کہا کہ ''اب سمجھ نہیں آتی کہ بندہ اس بات پر ہنسے یا روئے‘‘۔ ساتھ بیٹھا ہوا چودھری بھکن یہ جملہ سن کر کہنے لگا شاہ جی! میں آپ کو سمجھدار سمجھتا تھا مگر آپ بھی ڈاکٹر پھجے کی طرح ماشاء اللہ عقل سے فارغ ہو چکے ہیں۔ بھلا اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے؟ اگر بات ہنسنے والی ہے تو ہنس لیں اور رونے والی ہے تو رو لیں‘ یہ کیا بات ہوئی کہ آپ کو سمجھ ہی نہیں آ رہا کہ روئیں یا ہنسیں۔ رونے اور ہنسنے والی باتوں میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ دونوں علیحدہ علیحدہ ہوتی ہیں۔ جیسے وہ انور مسعود صاحب کی شاعری ہے۔ جب وہ ''تو کیہ جانے بھولیے مجھے‘‘ سناتے ہیں تو ہنسی آتی ہے اور جب وہ ''امبڑی‘‘ سناتے ہیں تو رونا آتا ہے۔ اللہ جانے کس دانشور یا عقلمند کا قول ہے کہ انسان واحد جاندار ہے جو ہنس اور رو سکتا ہے۔ اور تم واحد انسان ہو جو ان دونوں خداداد صلاحیتوں کے بروقت استعمال کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو۔ 
شاہ جی ناراض ہونے کے بجائے مسکرانے لگے اور چودھری کو مخاطب کر کے کہنے لگے۔ چودھری صاحب! اگر آپ ایسی باتیں نہ کریں تو بھلا آپ کو یہاں کون بیٹھنے دے؟ آپ کی یہی احمقانہ عقلمندی سے بھرپور باتیں ہیں جن کو سننے کی غرض سے ہم آپ کا منہ دیکھتے رہتے ہیں۔ آپ وہ عظیم شخصیت ہیں‘ الفاظ جن کے سامنے بے معنی ہو جاتے ہیں اور آپ وہ عالم بے بدل ہیں‘ محاورے جن کے سامنے ذلیل و رسوا ہو جاتے ہیں۔ اردو زبان بعض اوقات آپ کے سامنے بے بس اور لاچار ہو جاتی ہے۔ محاورے‘ کہاوتیں اور ضرب الامثال آپ کی زبان دانی کے سامنے پانی بھرتے ہیں۔ اب آپ اس ''پانی بھرنے‘‘ کو بالٹی یا لوٹے میں پانی بھرنا قرار دے سکتے ہیں۔ آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ چودھری بھکن یہ باتیں سن کر گرمی کھا گیا اور کہنے لگا ''شاہ جی! میں آپ کی کسی اور وجہ سے عزت کرتا ہوں۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ میں آپ کے ساتھ تو تڑاک میں بات اس لیے نہیں کرتا کہ آپ کوئی بڑے عالم یا پڑھے لکھے شخص ہیں تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ میں سیّد ہونے کی وجہ سے آپ کا لحاظ کرتا ہوں وگرنہ مجھے پتہ ہے کہ آپ کتنے پڑھے لکھے اور اردو دان ہیں‘‘۔ ڈاکٹر پھجا کافی دیر سے خاموش بیٹھا تھا اور کافی مشکل میں تھا۔ بالآخر اس سے رہا نہ گیا اور کہنے لگا۔ ''چودھری! تم نہ صرف یہ کہ ایک نالائق شخص ہو بلکہ تمہیں اپنی اس عظیم الشان نالائقی کا علم بھی نہیں ہے۔ تمہیں لوگوں نے خوامخواہ سر پر چڑھا رکھا ہے۔ تمہاری الٹی سیدھی باتوں‘ احمقانہ تجزیوں اور لایعنی و بے معنی تبصروں سے لوگ اسی طرح باطنی مفہوم نکال لیتے ہیں جس طرح فاترالعقل اور مجذوب قسم کے فقیروں اور ملنگوں کی باتوں سے ضعیف الاعتقاد لوگ اپنی مرضی کا مطلب نکال لیتے ہیں۔ تم نہ صرف یہ کہ ایک نالائق شخص ہو‘ بلکہ باقاعدہ علم دشمن شخصیت بھی ہو۔ تمہارے ہی جیسے ایک بچے کی ماہانہ رپورٹ لکھتے ہوئے کلاس انچارج نے لکھا تھا کہ بچہ نہ صرف یہ کہ انتہائی بدتمیز ہے بلکہ کبھی غیر حاضر بھی نہیں ہوا‘‘۔ 
چودھری اس دوران مسکراتا رہا۔ جب ڈاکٹر خاموش ہو گیا تو چودھری کہنے لگا ''ڈاکٹر! میں روز نماز کے بعد دعا مانگتا ہوں۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ جب میں دعا مانگتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میری دعا قبول ہو گئی ہے۔ اندر سے آواز اٹھتی ہے۔ دل گواہی دیتا ہے کہ عرضی بارگاہ رب العزت میں منظور ہوگئی ہے۔ میں نے بارہا تیری ہدایت کی دعا مانگی ہے۔ اللہ جانتا ہے کبھی بھی قبولیت کا احساس نہیں ہوا۔ کبھی دل کو اندر سے تسلی نہیں ملی۔ تجھے ہدایت ملنا معجزہ ہوگا۔ یہ کام دعائوں سے نہیں معجزے سے ممکن ہے۔ اللہ کرے کہ یہ معجزہ ہو جائے‘‘۔ پھر وہ شاہ جی سے کہنے لگا۔ ''شاہ جی! آپ تو ناراض ہو گئے ہیں۔ بھلا یہ بات دل کو لگانے کی تھی جو آپ نے اس طرح مائنڈ کر لیا؟ میں تو ذرا اس بات کا پورا مطلب سمجھنا چاہتا تھا۔ آپ کو گرمی دلا کر کوئی واقعہ سننا چاہتا تھا۔ بیک وقت ہنسنے اور رونے کی صورتحال پر کوئی قصہ سننے کا منتظر تھا۔ درمیان میں اپنا ڈاکٹر پھجا آ گیا اور بات کاٹ دی۔ یہ جب کسی بات کے درمیان میں دخل اندازی کرتا ہے تو اس بات کا سارا مزا کرکرا ہو جاتا ہے۔ بات کا تسلسل برباد ہو جاتا ہے۔ اس کا کسی بات کے درمیان دخل دینا‘ کسی بات کو کاٹنا بالکل ویسا ہی منحوس ہوتا ہے جیسے کالی بلی راستہ کاٹ لے تو نحوست سمجھا جاتا ہے‘‘۔ پھر چودھری نے شاہ جی کی طرف دیکھا اور کہنے لگا ''شاہ جی! دیکھیں میں نے یہ محاورہ کیسا درست استعمال کیا ہے‘‘۔ 
کہانی باز کہنے لگا ''چودھری! تم نے کوئی قصہ سننا ہے کہ وہ کیسی صورتحال ہوتی ہے جب سمجھ نہ آئے کہ ہنسا جائے یا رویا جائے۔ تو سنو! اس ساری سٹوری کا راوی پیپلز پارٹی کا ایک ضلعی صدر ہے۔ راوی بڑا معتبر اور معقول ہے۔ نام بتانا ضروری نہیں۔ مگر یہ بات طے ہے کہ قصہ سو فیصد سچا ہے کیونکہ راوی معزز اور شریف شخص ہے اور واقعہ وہ کسی اور سے روایت نہیں کر رہا‘ بلکہ یہ سارا واقعہ خود اس کے ساتھ پیش آیا ہے۔ اس ضلعی صدر نے بتایا کہ اس نے ایک آدھ بار اپنے ایک جاننے والے وزیر کو موبائل پر فون کیا مگر اس نے فون نہ اٹھایا۔ آدمی شریف اور عزت دار تھا‘ اس نے دوبارہ فون نہ کیا کہ اس سے اس کی عزت نفس مجروح ہوتی تھی۔ ایک آدھ ماہ کے بعد وہی وزیر ملا تو بڑے تپاک سے ملا۔ حال چال پوچھا اور رابطہ نہ کرنے کا گلہ کیا۔ اب اس سے رہا 
نہ گیا اور کہنے لگا‘ مخدوم صاحب! میں نے آپ کو ایک مرتبہ فون کیا مگر آپ نے فون اٹینڈ ہی نہیں کیا تھا لہٰذا میں نے دوبارہ نہیں کیا۔ وزیر موصوف کہنے لگے کہ میں آپ کا فون کیوں نہ اٹھائوں گا؟‘ میری مجال ہے کہ آپ کا فون نہ اٹھائوں۔ آپ مجھے فون کریں۔ میں نے آپ کا نام اور نمبر اپنے فون میں محفوظ کیا ہوا ہے۔ جب راوی نے فون کیا تو وزیر صاحب کے فون پر ان کا نمبر تو آیا مگر نام نہ آیا۔ وزیر صاحب کہنے لگے کہ انہوں نے پچھلے ماہ فون تبدیل کیا ہے۔ پی اے نے ان کے پرانے فون سے نمبر شفٹ کرتے ہوئے غالباً ان کا نام نہیں شفٹ کیا۔ راوی کہنے لگا کہ مخدوم صاحب اب یہ نمبر اپنے پاس محفوظ کر لیں اور میرا نام فیڈ کر لیں۔ وہ وزیر صاحب پریشان ہو گئے۔ پھر راوی وضاحت کرتے ہوئے کہنے لگا یہ وزیر ''وفاقی وزیر‘‘ تھے اور کسی للو پنجو وزارت پر نہیں بلکہ ملک کی پہلی ایک دو اہم ترین وزارتوں میں سے ایک پر فائز تھے۔ وزیر صاحب نمبر فیڈ کرنے کا سن کر پریشان ہو گئے اور کہنے لگے کہ یہ فون نیا ہے اور میری سمجھ سے باہر ہے۔ مجھے نمبر محفوظ کرنا نہیں آتا۔ پھر ساتھ کھڑے ہوئے ایک اور نوجوان سے کہنے لگے کہ آپ یہ نمبر فیڈ کردیں۔ ساتھ کھڑا ہوا یہ نوجوان وزیراعظم (سید یوسف رضا گیلانی) کے ساتھ ایک انتہائی اہم منصب پر کام کر رہا تھا۔ کہنے لگا کہ میرے پاس جس کمپنی کا فون ہے‘ مجھے صرف اس پر نمبر فیڈ کرنا آتا ہے۔ وزیر صاحب کہنے لگے۔ آپ فکر نہ کریں میں یہ نمبر محفوظ کروا لوں گا۔ 
چار چھ گھنٹے بعد وزیر صاحب کے نمبر سے مس کال آئی۔ راوی سمجھا کہ شاید غلطی سے کال آئی ہوگی جو وزیر صاحب نے فوراً بند کردی ہے۔ رات بارہ بجے پھر اسی طرح ایک مس کال آئی۔ وہ بڑا پریشان ہوا کہ وزیر صاحب پر یہ نوبت آ گئی ہے کہ مس کال مار رہے ہیں۔ صبح سویرے جب تیسری بار مس کال آئی تو وہ رہ نہ سکا اور جوابی کال کردی۔ آگے سے وزیر موصوف نے فون اٹھایا۔ جب ان سے تین مرتبہ مس کال کرنے کا سبب پوچھا تو کہنے لگے۔ سائیں! مجھے نمبر فیڈ کرنا نہیں آتا اور بیس کالز کے بعد نمبر ڈیلیٹ ہو جاتا ہے۔ میں اس نمبر کو محفوظ رکھنے کے لیے مس کال کر دیتا ہوں۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ دوپہر کو میرا بیٹا آ جائے گا اسے نمبر فیڈ کرنا آتا ہے۔ وہ جب آپ کا نمبر فون میں فیڈ کردے گا پھر مجھے فکر نہیں رہے گی کہ آپ کا نمبر کال لاگ سے ختم ہو گیا ہے۔ یہ ایک اہم ترین وزارت پر فائز شخص کا قصہ ہے۔ 
اب ایک اور واقعہ سنو۔ ضلع لیہ میں ایک سکول ہے Al-Shata پبلک سکول۔ کوٹ سلطان میں واقع یہ سکول انگلش میڈیم ہے۔ اس سکول میں ایک تقریب تھی اور مقامی ایم پی اے کو‘ جو سٹینڈنگ کمیٹی کا رکن بھی ہے‘ اس تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر بلایا گیا۔ موصوف نے بچوں کے سکول کی اس تقریب میں جانے سے پہلے اپنے ڈرائیور کو وہاں بھیجا اور کہا کہ وہ وہاں کا حال بتائے۔ ڈرائیور نے واپس آ کر بتایا کہ تقریب کی ساری کارروائی انگریزی میں ہو رہی ہے۔ بچہ بچہ ا نگریزی بول رہا ہے اور تقریب شروع ہو چکی ہے۔ ایم پی اے موصوف نے جب یہ سنا کہ تقریب کی کارروائی انگریزی میں ہو رہی ہے اور وہاں بچہ بچہ انگریزی بول رہا ہے تو انہوں نے تقریب میں جانے کا ارادہ ملتوی کردیا۔ موصوف بی اے ایل ایل بی ہیں‘ قانون سازی پر مامور ہیں اور ایک اہم سٹیڈنگ کمیٹی کے رکن ہیں۔ اب یہ وہ صورتحال ہے جس پر سمجھ نہیں آتا کہ ہنسا جائے یا رویا جائے۔ 
یہ دونوں واقعات تو محض دیگ میں سے چند چاول چکھنے والا معاملہ ہے۔ آدھی اسمبلی اور اسی تناسب سے وزراء‘ سب کا اسی طرح کا حال ہے۔ تعلیم پر لعنت بھیجیں۔ اوسط سے کہیں نیچے کی سمجھ بوجھ‘ آئی کیو اور فہم و فراست۔ یہ ہمارے قائدین‘ نمائندے‘ قانون ساز اور حکمران ہیں۔ ایسی صورتحال پر ہنسا جائے یا رویا جائے؟‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved