انجمن ترقیٔ اردو برصغیر کے قدیم ادبی اور ثقافتی اداروں میں سے ہے۔ اس انجمن کی بنیاد سرسید احمد کے رفیق کار نواب محسن الملک اور ان کے ہم عصر اکابرین ادب نے رکھی۔ دیگر میں قائداعظم محمد علی جناح‘ علامہ اقبال‘ لیاقت علی خان‘ سردار عبدالرب نشتر‘ مولانا حسرت موہانی‘ مولانا ظفر علی خاں‘ پیر الٰہی بخش‘ ڈاکٹر محمد شہید اللہ‘ سر غلام حسین ہدایت اللہ اور پیر حسام الدین جیسے اکابرین کے نام شامل ہیں۔ یہ 1903ء عیسوی میں علی گڑھ میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے ایک شعبے کے طور پر قائم کی گئی تھی۔ 1912ء میں ایجوکیشنل کونسل کے اجلاس میں مولوی عبدالحق کو اس کا معتمد مقرر کیا گیا تھا جنہیں انجمن اور اردو کے لیے ان کی خدمات کی بنا پر خواص و عوام نے بابائے اردو کا خطاب دیا۔ انہوں نے انجمن کو غیر معمولی ترقی دی‘ اس کی خدمات کے دائرے کو وسیع تر کیا اور جدید تقاضوں کے مطابق علمی و ادبی منصوبے بنائے۔ انہوں نے اپنے آپ کو انجمن کے لیے وقف کردیا تھا اور کراچی کے جناح ہسپتال میں بستر مرگ پر بھی لکھنے کا کام کرتے رہے۔ ان کی وفات کے بعد جمیل الدین عالی جو رکن منتظمہ تھے‘ معتمد اعزازی مقرر ہوئے۔
جمیل الدین عالی مولوی عبدالحق کے صحیح جانشیں ثابت ہوئے۔ انجمن ترقیٔ اردو کے اس عظیم ورثے کو جو مولوی عبدالحق حیدرآباد دکن سے دہلی اور پھر کراچی لے کر آئے تھے‘ عالی جی نے ایک شاندار ادارہ بنانے میں عمر صرف کردی۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ انجمن کی نئی عمارت کا نقشہ بن چکا ہے اور جلد تعمیر کا کام شروع ہونے والا ہے۔ اس کی لائبریری میں ہزاروں کتابیں ہیں جن سے طلبہ استفادہ کرتے ہیں۔ جمیل الدین عالی کا عظیم کارنامہ اردو آرٹس اور اردو سائنس کالج کی وسعت ہے۔ ان کا قیام تو مولوی عبدالحق کے زمانے میں ہو گیا تھا مگر 12 اگست 1961ء کو مولوی صاحب کے انتقال کے بعد عالیؔ جی نے جب ذمہ داری سنبھالی تو ان تھک کوششوں سے اس کالج کے لیے یونیورسٹی کا درجہ حاصل کیا۔ یہ مولوی عبدالحق کی ایک بڑی خواہش تھی جو پوری ہوئی۔
جمیل الدین عالی جو مشہور شاعر ہیں‘ خصوصاً اپنے دوہوں کی بنا پر اردو ادب میں ایک مقام رکھتے ہیں۔ طویل عرصے سے اخبار میں کالم بھی لکھ رہے ہیں‘ انجمن کی سینکڑوں کتابوں پر 'حرفے چند‘ کے عنوان سے تقریظ لکھتے رہے ہیں‘ ایک بے حد کامیاب منتظم بھی ہیں جس کا ثبوت انجمن کی مضبوط بنیادوں پر ترقی و توسیع ہے۔ ایک اعلیٰ منتظم صفت‘ دوراندیشی ان میں نمایاں ہے۔ اب جبکہ پیرانہ سالی اور صحت کی خرابی نے انہیں عملی خدمات کے قابل نہیں رکھا ہے‘ انہوں نے ایک مشیر اعلیٰ کا منصب اپنے پاس رکھتے ہوئے ڈاکٹر فاطمہ حسن کو صدر انجمن ڈاکٹر آفتاب احمد خاں کی منظوری سے اپنی جگہ معتمدِ اعزازی مقرر کر دیا ہے۔ ان کے ساتھ ہی جاوید منظر کو جو نائب معتمد کی خدمات سرانجام دے رہے تھے‘ مشیرِ مالیات مقرر کردیا۔
ڈاکٹر فاطمہ حسن اردو ادب میں جانا پہچانا نام ہے۔ آج کل وہ جامعہ کراچی میں جزوقتی تدریسی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ اس لیے ان سے بجا طور پر یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ انجمن کے جملہ امور سنبھالنے میں اپنا زیادہ وقت صرف کریں گی۔ انہیں انتظامی عہدوں پر کام کرنے کا طویل تجربہ ہے۔ وہ آرٹس کونسل کراچی کی مجلس انتظامیہ میں شامل رہی ہیں‘ وہاں عالمی اردو کانفرنس منعقد کرنے میں محرک و معاون رہی ہیں۔ مختلف این جی اوز کی ٹرسٹی ممبر بھی ہیں۔
ان کی ادبی تصانیف میں تین شعری مجموعے ''بہتے ہوئے پھول‘‘۔ ''دستک سے درکار فاصلہ‘‘، ''یادیں بھی اب خواب ہوئیں‘‘ اور ان تینوں پر مشتمل کتاب بعنوان ''یاد کی بارشیں‘‘ کے علاوہ ایک کہانیوں کا مجموعہ ''کہانیاں گم ہو جاتی ہیں‘‘ اور ہم عصر ادیبوں و شعرا پر لکھے جانے والے مضامین ''کتابِ دوستاں‘‘ شامل ہیں۔ ان کا ایک بہت اہم کام پی ایچ ڈی کا وہ مقالہ ہے جو بیک وقت ادب اور صحافت دونوں کی تحقیق میں گرانقدر اضافہ ہے۔ یہ تحقیق اردو رسائل میں چھپنے‘ ان کی مالی و فکری معاونت کرنے والی ایک ایسی نابغہ ہستی پر ہے جو ایک کمرے میں خود کو اور اپنے نام کو پوشیدہ رکھ کر ساری دنیا کے علوم و سیاسی و سماجی حالات پر لکھتی رہیں اور چھپتی رہیں۔ز خ ش جو زادہ خاتون شروانیہ کا مخفف ہے‘ کی حیات و خدمات پر یہ تحقیقی مقالہ انجمن ترقی اردو ہی نے شائع کیا تھا جس کا پہلا ایڈیشن جلد ہی ختم ہو گیا۔ اس تحقیق میں ز خ ش کی شاعری کی مکمل شاعری کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ حیرت ہے کہ خوبصورت نظمیں لکھنے والی باشعور شاعرہ جو حالی‘ شبلی‘ اقبال‘ آزاد اور جوش کی ہمعصر تھی‘ تاریخ ادب اردو میں سو برس تک جگہ نہ پا سکی۔ ان کی معرکۃ الارا نظم ''سپاس نامہ اردو‘‘ کے یہ اشعار دیکھیں:
میں شانے سے درگزری آیئنے سے باز آئی
اب دل ہی نہیں جس میں ہو ذوقِ خود آرائی
ہر چند کہ صورت میں ہوں نور کی صورت میں
ناظر نہ ہو جب کوئی کس کام کی زیبائی
اور اب آخر میں فاطمہ حسن کی تازہ اور غیر مطبوعہ غزل کے یہ اشعار:
یہ جو مجھ کو اس کا خیال ہے
یہ اسی کا کوئی کمال ہے
اسے سوچ لوں میں بساط پھر
اسے جاننا تو محال ہے
کوئی رابطہ کوئی لفظ اب
نہ جواب ہے نہ سوال ہے
مجھے ابتدا کی خبر نہیں
مری انتہا بھی سوال ہے
اسے دیکھ لو یہ بہت ہے اب
یہی انتہائے وصال ہے
کہیں گم ہوں اس کے وجود میں
وہ جو آپ اپنی مثال ہے
ہے وہ بے پناہ‘ پناہ بھی
وہی اُوج اور زوال ہے
آج کا مطلع
خالی خولی غبار نکلا
اس گرد سے جو سوار نکلا