تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     29-03-2014

صنم خانے کے مکین کا ملتِ اسلامیہ کو انتباہ

جس ملک کا یہ سچا اور کھرا شخص 26 جون 2012ء کو مسلمانوں کے خلاف ہونے والی مغرب کی سازشوں سے پردہ اٹھا رہا تھا، اسی ملک نے جنگ عظیم اوّل کے بعد عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر مشرق وسطیٰ میں ایک چھوٹا سا ملک اس طرح تخلیق کیا تھا کہ اس میں ہر وقت فساد اور کشت و خون کا ہولناک سلسلہ جاری رہے۔ آزاد کرنے سے پہلے اس کا آئین مرتب کیا گیا جس میں صدارت کا حقدار انتہائی مختصر اقلیت سے تعلق رکھنے والا عسیائی، وزیر اعظم سنی مسلمان اور سپیکر کا عہدہ شیعہ مسلمان کے لیے وقف کیا گیا۔ یہ ملک لبنان ہے جس کی سرحدیں اسرائیل کے ساتھ ملتی ہیں۔ اسی ملک میں فلسطینی مہاجرین آج بھی صابرہ اور شطیلہ کے کیمپوں میں بدترین زندگی گزار رہے ہیں۔ اس ملک نے کئی دہائیاں کشت و خون اور جنگ و جدل میں گزارے۔ آج سے دو سال قبل برطانیہ کے زیر تسلط سکاٹ لینڈ کے شہر ڈنڈی میں پیدا ہونے والا جارج گیلوے اسی ملک کے شہر بیروت میں مسلم امت کو آگاہ کر رہا تھا کہ ایک طوفان تمہاری جانب بڑھ رہا ہے جسے پوری مغربی دنیا نے ایک سوچے سمجھے منصوبے سے تیار کیا ہے۔ ساٹھ سالہ جارج گیلوے یکم مئی 1987ء سے برطانوی پارلیمنٹ کا رکن چلا آ رہا ہے اور اس نے مغرب، یہودی صہیونیت، امریکی استعمار اور نام نہاد لبرل سیکولر میڈیا کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر رکھا ہے۔ لبرل سیکولر میڈیا کا یہ دستور ہے کہ جب وہ کسی شخص کے کردار میں کوئی خامی تلاش نہ کر سکے، اس کی گفتگو اور دلائل کے سامنے اس کی زبانیں گنگ ہو جائیں تو پھر وہ بے بنیاد اور جھوٹے الزامات کا آغاز کر دیتا ہے، گالی گلوچ پر اتر آتا ہے اور مخالف کو بدکردار و بد دیانت ثابت کرنے کی مہم کا آغاز کر دیتا ہے۔
اس شخص نے 1991ء میں عراق پر امریکی حملے کی مخالفت سے مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا شروع کی۔ جب اس جنگ کے بعد عراق پر پابندیاں لگیں تو اس نے مریم اپیل (Mariam Appeal) کے نام پر ایک مہم کا آغاز کیا جس کا مقصد عراق کے عوام کو دوائیاں، طب کا سازوسامان اور طبی امداد پہنچانا تھا۔ یہ مہم اس بچی کے نام سے منسوب کی گئی جسے جارج گیلوے عراق سے خون کے کینسر کے علاج کے لیے برطانیہ لایا تھا۔ گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد اس نے جنگ بند کرو اتحاد (Stop the war Coalition) کا آغاز کیا اور تقریروں، جلسوں اور جلوسوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اس نے اپنے ایک انٹرویو میں برطانوی فوجیوں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ ٹونی بلیئر کے غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار کر دیں اور عراق پر حملہ نہ کریں۔ اسے برطانیہ کا غداّر کہا گیا۔ اس کی لیبر پارٹی نے اسے پارٹی سے نکال دیا۔ جب سات جولائی 2005ء کو لندن کے مشہور دھماکے ہوئے تو اس نے کہا کہ یہ مسلمانوں کے اندر پائے جانے والے اس غصے اور نفرت کا نتیجہ ہیں جو برطانوی حکومت کی عراق اور افغانستان میں جنگ اور قتل و غارت کی پالیسی سے پیدا ہوا ہے۔ اس نے صہیونیت کو دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔ اس نے کہا کہ صہیونیت کے علمبردار مغربی ممالک ہیں اور وہ یہودیوںکو استعمال کر رہے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے ملکوں سے یہودیوںکو ایک ریوڑ سمجھ کر بھگایا اور اسرائیل کی صہیونی حکومت قائم کی۔ امریکی ریڈیو کے مشہور براڈ کاسٹر ایلکس جونز کو اس نے ستمبر 2005ء میں صہیونیت کے بارے میں انہی خیالات پر مبنی انٹرویو دیا تو ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔ اس کے خلاف صہیونی میڈیا متحد ہو گیا۔ جب اسرائیل نے 2008-09ء میں غزہ کا محاصرہ کیا اور وہاں کے عوام گندم کے دانے دانے کو ترسنے لگے تو وہ 120 گاڑیوں کا قافلہ لے کر غزہ پہنچ گیا۔ ان میں 12 ایمبولینسیں، خوراک، کھیلوں کا سامان، دوائیں اور بچوں کے کھلونوں سے بھرے ٹرک شامل تھے۔ یہ قافلہ بلجیم، فرانس، سپین، مراکش، الجزائر، تیونس اور مصر سے ہوتا ہوا پانچ ہزار میل کا سفر طے کر کے غزہ پہنچا۔ 2009ء میں کینیڈا نے اس کے داخلے پر پابندی لگا دی اس لیے کہ کینیڈا نے فلسطین میں الیکشن جیتنے والی سیاسی پارٹی حماس کو دہشت گرد گروہ قرار دیا تھا۔
صہیونی، لبرل اور سیکولر میڈیا نے اس کے خلاف مہم کا آغاز کیا تو سب سے پہلے ڈیلی ٹیلیگراف نے 22 اپریل 2003ء کو اسے ''تیل برائے خوراک‘‘ پروگرام سے تین لاکھ پچھتر ہزار پونڈ حاصل کرنے کا ملزم ٹھہرایا۔ جارج گیلوے عدالت گیا، ڈیلی ٹیلیگراف کے تمام کاغذات جعلی نکلے اور انہوں نے گیلوے کو ایک لاکھ پچاس ہزار پونڈ ہرجانہ ادا کیا۔ ڈیلی ٹیلیگراف کی خبر کے تین دن بعد 25 اپریل 2003ء کو ''کرسچیئن سائنس مانیٹر‘‘ نے الزام لگایا کہ جارج گیلوے نے عراق کی حکومت سے ایک کروڑ ڈالر لیے ہیں۔ اس وقت تک گیلوے ٹیلیگراف کے خلاف عدالت جا چکا تھا۔ اپنی رپورٹ کے خلاف 20 جون کو کرسچیئن سائنس مانیٹر نے ایک خبر شائع کی کہ جو دستاویزات انہیں ملیں وہ اعلیٰ سطح کی جعل سازی تھی، لیکن گیلوے نہ مانا اورکہا کہ یہ میری عزت کو نقصان پہنچانے کی سازش ہے۔ وہ عدالت چلا گیا اور اخبار نے اس کو بیرون عدالت ہرجانہ ادا کر کے معاملہ ختم کرایا۔
جارج گیلوے سچائی کی ایک تاریخ ہے۔ اقبال کے اس مصرعے کی تفسیر کہ ''پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘‘۔ اس شخص نے آج سے اٹھارہ ماہ قبل بیروت میں مسلم امہ کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا: '' برطانوی پارلیمنٹ کے ان ارکان نے‘ جنہیں یہ تک علم نہیں کہ عالمی نقشے میں سعودی عرب نام کا ملک کہاں واقع ہے، گزشتہ ایک سال سے مجھ سے پوچھنا شروع کیا ہے، خصوصاً چند ہفتے پہلے زیادہ زور سے پوچھتے ہیں کہ حجاز کون سا علاقہ ہے اور نجد کون سی سرزمین؟ میں حیران ہو گیا کہ یہ نام انہیںکہاں سے پتہ چلے۔ انہوں نے اچانک یہ سب کیسے سیکھا اور کس لیے سیکھا، اس لیے کہ وہ بہت پہلے سے اس بات پر غور کر رہے تھے کہ سعودی عرب کو کیسے تقسیم کیا جائے اور اس کے مشرقی علاقوں میں بسنے والے شیعہ حضرات کو کیونکر یقین دلایا جائے کہ ہم ان کے لیے علیحدہ ملک حاصل کرنے میں مدد دے سکتے ہیں؟ انہیں کیسے باور کرایا جائے کہ ساری تیل کی دولت تمہارے علاقے میں ہے اور ہمیں مکہ اور مدینہ میں کوئی دلچسپی نہیں۔ میری بات پر یقین کیجیے کہ مغرب کو مکہ اور مدینہ عربوں اور مسلمانوں کے پاس رہنے پر کوئی اعتراض نہیں، ان کی دلچسپی صرف سعودی عرب کے تیل میں ہے اور جب وہاں بے چینی کی کیفیت پیدا ہو گی تو آپ دیکھیںگے کہ اچانک پورے مغرب کے دل میں شیعہ اقلیت کے لیے ایک نئی محبت جاگ چکی ہو گی۔ اب یہ سب شروع ہو چکا ہے اور آپ جلد سنیں گے کہ مغرب یہ پروپیگنڈا کرے گا کہ سعودی عرب کے مشرقی صوبوں میں شیعہ حضرات پر ظلم ہو رہا ہے۔ آپ کے سامنے سیکنڈل منظر عام پر آئیںگے کہ ان پر شدت پسند حکمرانی کر رہے ہیں۔ یاد رکھو، اس طرح کی تقسیم میں کوئی ملک بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ یہ ساری مسلم دنیا کو لپیٹ میں لے لے گا اور اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ اس وقت 23 عرب ممالک کی جگہ 33، 43 یا 63 ممالک وجود میں آئیں گے۔ یہ ملک نہیں ہوں گے چھوٹی چھوٹی امارتیں ہوںگی، بالکل ویسی امارتیں جیسی لیبیا پر نیٹو حملے کے بعد بن رہی ہیں۔ یہ سب ان مغربی طاقتوں کے مفاد میں ہے کیونکہ وہ اس طرح عربوںکو تقسیم کر کے مزید سو سال ان پرحکومت کر سکتی ہیں‘‘۔ 
دو سال پہلے کی گئی یہ باتیں آج حقیقت بنتی جا رہی ہیں۔ اس حقیقت کو سچ بنانے میں جو لوگ ممدومعاون ہیں وہ ہمارے مذہبی رہنما ہیں۔ ایک مسلک کے لوگ چاہتے ہیں کہ شام میںگلی گلی لڑائی ہو اور ملک تباہی کی جانب بڑھے، دوسرے وہ جو سعودی عرب، کویت اور بحرین میں یہی حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ کوئی عراق میں اس جنگ کو ہوا دے رہا ہے تو کوئی ایران میں۔ یہ بات ایک حقیقت ہے کہ عرب ممالک میں غیر نمائندہ حکومتیں ہیں۔ ان کی جگہ عوام کی نمائندہ حکومت ہونی چاہیے۔ یہ جو مسجدوں، مدرسوں اور امام بارگاہوں میں چودہ سو سال سے قرآن و حدیث پڑھتے اور پڑھاتے آئے ہیں، انہوں نے یہ کہاں سے سیکھا ہے کہ پوری امت ریاستوں میں تقسیم کی جائے۔ کیا ان ملکوںکی حدود اللہ اور اس کے رسول ؐکی شریعت میں شامل ہیں؟ یہ اس امت کو ایک امت ہونے کا درس کیوں نہیں دیتے؟ جن لوگوں نے مغرب میں آج سے کئی دہائیاں پہلے ایک یورپی یونین کا خواب دیکھا تھا اس وقت دنیا اسے دیوانے کی بڑ سمجھتی تھی، آج یورپی یونین ایک حقیقت ہے۔ ہمارے علماء تو اتحاد کا خواب بھی نہیں دیکھتے۔ جہاں ایک مسلک کا ظالم حکمران ہے اس مسلک والے اُس کی حمایت کرتے ہیں اور جہاں دوسرے مسلک کا ظالم حکمران ہے وہاں اس مسلک والے اس کے حامی بن جاتے ہیں، لیکن شاید یہ نہیں جانتے کہ مسلکی منافرت کی آندھی میں جبّہ و دستار ہوا میں اڑتے ہیں اور عمامے خون میں رنگین ہو جایا کرتے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved