تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     30-03-2014

بدلتے رشتے

ہم پاکستانیوں کی طرح‘ عربوںکا مزاج بھی قبائلی ہے۔ وہ ریاستوں کے باہمی تعلقات کو وفا اور بیوفائی‘ محبت اور نفرت ‘ دوستی اور دشمنی کے خانوں میں تقسیم کر کے دیکھتے ہیں اور جب حقائق کی دنیا میں ان تصورات کو ٹھیس لگتی ہے‘ تو پھر شکوے شکایت پر اتر آتے ہیں '' اس نے بیوفائی کر دی۔ وہ دغا دے گیا۔‘‘ یا ''مشکل وقت آنے پر اس نے ساتھ چھوڑ دیا۔‘‘ ہمارے حالات میں جیسے جیسے زیروبم آئے‘ سعودی امریکی تعلقات میں بھی آتے رہے۔ جب امریکہ کو ضرورت پڑی‘ اس کی آنکھ میں‘ بناوٹی پیار کی ذرا سی جھلک دیکھ کر‘ہم واری واری جانے لگے کہ ڈالروں کی پیاس ہم سے زیادہ برداشت نہیں ہوتی۔امریکیوں کی فطرت‘ سیاحوں جیسی ہے۔ یہ ان لوگوں کی قوم ہے‘ جو ضروریات کی خاطر اپنا وطن‘ عزیزوں اور رشتے داروں کو چھوڑ کر‘ ہزاروں میل دور آباد ہونے آ گئے اور ہم ہیں کہ امریکہ کی عارضی ضرورت بن کر‘ بار بار رشتہ وفا استوار ہونے کی آس لگا کر ڈالر مانگتے رہے۔ مطلوبہ خدمات انجام دیتے رہے۔ یہ بھول گئے کہ ضرورت ختم ہونے پر کیا ہو گا؟ امریکہ کو یہ مسئلہ درپیش نہیں ہوتا۔ وہ جہاں بھی جاتا ہے‘ کھلا پیسہ دے کر ضروریات پوری کر لیتا ہے۔ ضرورت ختم ہوتے ہی بستر باندھ کے چل دیتا ہے۔ پھر جیسے‘ ہم آہ و بکا کرنے لگتے ہیں کہ ''بے وفا دھوکا دے گئے۔‘‘غصے میں ارادے کرتے ہیں کہ'' آئندہ اس کی طرف دیکھنا تک نہیں‘‘۔'' اس کے گھر کا رخ نہیں کرنا‘‘۔ ''وہ ہمارے پاس آیاتو ہرگز لفٹ نہیں دیں گے۔‘‘ جب موقع آتا ہے‘ تو امریکہ جیبوں میں یوں ڈالر بھرتا ہے کہ وہ باہر سے دکھائی دیتے رہیں۔ ہم ڈالر دیکھتے ہی یوں ریشہ خطمی ہو جاتے ہیں‘ جیسے ہجر کے سارے دکھ بھول گئے ہوں۔ لیکن نظر‘ امریکہ کے چہرے پر نہیں‘ جیبوں سے جھانکتے ڈالروں پر ہوتی ہے۔ پھر وہی پرانا لین دین شروع ہو جاتا ہے۔ پھر ضرورت ختم ہوتی ہے اور پھر ہماری ہجر کی رات شروع ہو جاتی ہے۔ پچھلے دو تین سال سے ہم پھر حالت ہجر میں ہیں۔ 
ہمارے عرب بھائیوں کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ان میں سے جو ہماری طرح کام چور اور غریب ہیں‘ وہ ہجرووصال کی دھوپ چھائوں سے گزرتے رہتے ہیں اور سعودی عرب‘ جو تیل کے خزانوں پر ‘ ڈالروں سے بنے محلات میں‘ سونے کے شیشے کے دھوئیں میں مست ہے، اسے پہلی بار امریکہ کی نظریں بدلتی دکھائی دے رہی ہیں۔ امریکہ کی ''حقیقت پسندی‘‘ کو ابھی تک شان بے نیازی سے دیکھ رہا ہے۔ جیسے ''وہ جائے گا کہاں؟ اسے لوٹ کر آنا ہی پڑے گا۔‘‘ہمارے بار بار دہرائے ہوئے تجربوں کی طرح‘ اب کے برادر سعودی عرب کو بھی اسی طرح کے جذباتی مدوجزر سے پالا پڑنے والا ہے‘ جس سے ہم بارہا گزرے ہیں۔جلد ہی اسے پتہ چل جائے گا کہ ۔وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا۔ وہی امریکہ جو سعودیوں کی ایک ایک ادا پر جان نچھاور کرنے کو تیار رہتا تھا‘ آج ان کے پرزور مطالبوں پر بھی کان نہیں دھرتا۔امریکہ سے ''گہری دوستی‘‘ کے بل بوتے پر مسلم دنیا میں بادشاہی کرنے والوں کو‘ اب خطے کے کسی بھی معاملے میں امریکہ کی غیرمشروط حمایت نہیں ملتی۔ اس نے شام میں بغاوت کی سرپرستی کی‘ تو امریکہ نے حسب توقع پورا ساتھ دیا۔ جیسے ہی شام میںامریکہ کے اپنے مقاصد پورے ہونے لگے‘ وہ پھل سمیٹنے میں لگ گیا۔ وہ پھل تھا! طاقت اور دولت کے میدان میں تیزی سے ابھرتے ہوئے روس کے ساتھ سودے بازی۔ پورا سودا کیا ہے؟ یہ تو میں نہیں جانتا۔ روس کو جو کچھ ملا ہے‘ اس کی پہلی قسط کریمیا کی صورت میںوہ لے چکا ہے۔ امریکہ ‘ سفارتی ضروریات اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ کے تحت‘ روس کو نتھنے پھلا کے بھی دکھائے گا۔ آنکھوں سے شعلے بھی نکالے گا۔ مگر روس کو جو ملنا تھا‘ مل گیا۔ شام کی قسمت کا فیصلہ امریکہ کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے۔ وہ اسرائیل‘ لبنان اور شام کے ساتھ مل کر‘ کس طرح دنیا کے ذہن میں کیمپ ڈیوڈ کی یادیں تازہ کرتاہے؟ وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آتا رہے گا۔
خلیجی ملکوں میںجب تک امریکہ کا غلبہ رہا‘ ایران اور سعودی عرب کے تاریخی تضادات ‘ دبے رہے۔ایرانی انقلاب برپا ہواتو خلیج کے خطے میں سعودی عرب کی اہمیت بڑھ گئی۔سعودی عرب کے لئے آسان ہو گیا کہ وہ علاقائی اثرورسوخ کی دوڑ میں‘ اپنے پرانے حریف یعنی ایران کو پیچھے چھوڑ دے۔یہاں امریکہ اور سعودی عرب ‘دونوں کامقصد اور مقاصد ایک ہو گئے۔ یہ سعودی امریکہ تعلقات کا سنہرا دور تھا۔سعودی عرب نے خلیج کے خطے میں جو چاہا‘ امریکہ نے اسی طرح کیا۔ اس دوران امریکی ضروریات میں تیزی سے تبدیلیاں آنے لگیں۔ خلیج میں امریکی دلچسپی کی بنیادی وجہ تیل تھا، جسے حاصل کرنے کے لئے امریکہ کا محفوظ ترین اور قابل اعتماد سپلائر سعودی عرب رہا۔ گزشتہ دس پندرہ سالوں میں‘ امریکہ نے توانائی کے متبادل ذرائع پیدا کرنے میں تیزی سے ترقی کی۔ اس دوران عراق پر اس کا قبضہ ہو گیا اور تیل کی بیشتر ضروریات وہاں سے پوری ہونے لگیں۔ اب تیل کے لئے امریکہ کا سعودی عرب پر انحصار ختم ہو گیا ہے۔ سعودی تیل کے ذخیروں کے ٹھیکے آج بھی امریکی کمپنیوں کے پاس ہیں۔ یہ اس کی تجارتی ضرورت رہے گی‘ سٹریٹجک نہیں۔ شرق اوسط میں امریکہ کا دوسرا سٹریٹجک مفاد اسرائیل کا تحفظ تھا۔ اس ناجائز ملک کو تحفظ دلانے کے لئے امریکہ کو خون کے دریائوں سے گزرنا پڑا۔ کونسا عرب ملک ہے؟ جس کی طاقت کو اسرائیل کے مقابلے میں بے اثر کرنے کے لئے امریکہ نے ظلم و زیادتی اور ناانصافیوں کی حدوں کو پار نہیں کیا؟ یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے سعودیوں نے بلاشبہ پس پردہ رہ کر ‘ امریکہ کی بھرپور مدد کی۔ اب اسرائیل کو تحفظ حاصل ہو چکا ہے۔ اگلے چند برسوں میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان سمجھوتے کی طرف پیش رفت جاری رہے گی۔ اس پیش رفت کی راہ میں آخری رکاوٹ ایران تھا۔ اب ایران علاقے کی آنے والی تبدیلیوں میں‘ اپنا مقام حاصل کرنے کے قابل ہو رہا ہے۔ امریکہ نے افغانستان اور عراق پر قبضے کے بعد ایران کو باور کرا دیا ہے کہ وہ اپنی شرطوں پر علاقائی بالادستی حاصل نہیں کر پائے گا۔ دوسری طرف امریکہ نے بھی سمجھ لیا کہ ایران کو ایک آزاد اور خودمختار قوم کی طرح‘ ایک باعزت ساتھی تو بنایا جا سکتا ہے‘ کچلا نہیں جا سکتا۔جب دونوں ملکوں میں اس حقیقت کو تسلیم کر لیا گیا‘ توگزشتہ سال ان دونوں کے مابین رابطے شروع ہو گئے۔ اب جنیوا میں فیصلہ کن مذاکرات کے سیشن شروع ہو چکے ہیں۔ مصر میںاب ایک ایسی حکومت آ چکی ہے‘ جو امریکہ کے سامنے سر نہیں اٹھا سکے گی۔ ان تینوں معاملات میں سعودی عرب کو شدید جذباتی جھٹکے لگے۔ 
امریکہ نے مصر میں حسنی مبارک کی مخالف تحریک کی مددکر کے‘ اس کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔ حسنی مبارک‘ سعودی عرب کا قریبی ساتھی تھا۔ اس کی مخالفت شروع کرنے سے پہلے امریکہ نے سعودیوں کو اعتماد میں نہیں لیا۔ جس پر یقینا انہیں دکھ پہنچا۔ اخوان المسلمون اقتدار میں آئی‘ توسعودی عرب کے ساتھ اس کے تعلقات میں بہتری آنے لگی، لیکن امریکہ نے مورسی کو اقتدار سے ہٹانے میں فوج کی مدد لی۔ یہ سعودی عرب کے لئے دوسرا صدمہ تھا۔ اب اس کے تعلقات اخوان سے بھی اچھے نہیں رہ گئے اور مصر کی نئی حکومت مکمل طور پر امریکہ کے زیراثر ہے۔ صدر اوباما کے حالیہ دورہ سعودی عرب سے‘ عالمی میڈیا میں بڑی توقعات باندھی گئی تھیں۔ لیکن باخبر مبصرین بتا رہے تھے کہ کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں۔ امریکہ اور سعودی عرب دونوں کی ضروریات اور مفادات کی نوعیت بدل چکی ہے۔ دونوں کو باہمی رشتوںکی بنیادیں نئے حقائق پر استوار کرنا ہوں گی۔ سعودی عرب کو امریکہ نے جو تین صدمے پہنچائے‘ ان پر یقینا قبائلی حکمرانوں کو شدید رنج پہنچا ہو گا۔ ان کے لئے امریکہ کی بے وفائیاں غیرمتوقع ہیں۔ امریکہ نے انہیں شام میں ''دھوکہ‘‘ دیا۔ مصر میں ''چالبازی‘‘ کی اور سعودی عرب کو اعتماد میں لئے بغیر‘ ایران کے ساتھ اس طرح مذاکرات کئے کہ سعودی عرب کو ان کی ہوا تک نہ لگے۔ ایران کے ساتھ جو معاہدہ کیا گیا‘ اس میں بھی سعودی عرب سے مشورہ تک نہ کیا گیا۔ سعودی عرب کی ناراضیاں اپنی جگہ درست ہیں۔ لیکن امریکیوں کے فیصلے‘ اس کی اپنی مجبوریوں کے تحت ہوئے۔جن بنیادی تبدیلیوں کی وجہ سے امریکہ اور سعودی عرب کے مابین باہمی دوریاں پیدا ہوئیں‘ وہ اپنی جگہ لے چکی ہیں۔ انہیں وقت کی بساط سے اٹھا کر پھینکنا کسی کے اختیار میں نہیں۔ دونوں کو نئے ماحول میں نئے رشتے تشکیل دینا ہوں گے۔کئی پہلو تشنہ رہ گئے۔ کالم کی جگہ ختم ہو گئی۔ اگلی نشست میں بات کریں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved