تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     30-03-2014

بے توفیق

بس ایک اقبالؔ تھے اور انہوں نے یہ کہا تھا ؎ 
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق 
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں 
بلاول بھٹو کو ملنے والی دھمکی کا معاملہ بہت سنجیدہ مسئلہ بن گیا۔ خدانخواستہ انہیں کچھ ہو گیا تو کیا ہوگا؟ خون کی لکیر معاشروں کو بانٹ دیا کرتی ہے۔ قاتل کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اس کی گولی کیا ستم ڈھائے گی۔ اگر ادراک ہو‘ اگر حیوانیت غالب نہ آ جائے تو وہ قتل ہی کیوں کرے؟ اللہ کی آخری کتاب میں اس قدر سنگین انتباہ بے سبب تو نہیں: ایک آدمی کا قتل ساری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ 
اللہ اس نوجوان کو محفوظ رکھے۔ خوشاب کے اس بوڑھے طویل قامت زمیندار نے ایک دن اچانک پلٹ کر اپنی حویلی کو دیکھا اور یہ کہا: چالیس برس ہوتے ہیں‘ میرے سسر نے یہ کہا تھا: مکان کیوں بناتے ہو‘ اتنی دشمنیاں کہ جینا تو تمہیں ہے نہیں۔ وادیٔ سون کے اس خونخوار ڈاکو محمد خان سمیت کتنے ہی اس کے تعاقب میں نکلے مگر وہ زندہ ہے اور آن بان کے ساتھ۔ نتائج سے بے پروا‘ خطرات کے ساتھ وہ کھیلتا رہا اور جیتا رہا۔ کون جانے کس کی قضا‘ کب اور کس طرح آئے گی۔ کتاب میں رقم یہ ہے: بس وہی جانتا ہے کہ تم کب کب‘ کہاں کہاں رکو گے‘ کب طلب کیے جائو گے۔ 
ذوالفقار علی بھٹو کو اسی دن‘ اسی وقت جانا تھا مگر ان کے لہو کی دھار نے منقسم معاشرے کی پیچیدگیوں کو اور بھی گہرا کردیا۔ پنجابی محاورہ یہ ہے: ہاتھوں سے دی گئی گرہیں‘ دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔ 
کچھ بھی نہیں تھا‘ حسین بن منصور حلاج‘ کچھ بھی نہیں۔ صوفی نہ عالم مگر پھانسی پا گیا تو بارہ سو برس سے‘ مسلمانوں کی ہر زبان میں‘ ایک لہکتا ہوا استعارہ ہے۔ بھٹو‘ ان کے بعد ان کے دو فرزند اور پھر ان کی پیاری بیٹی۔ سوال یہ بھی ہے کہ کون ذمہ دار تھا مگر اس سے زیادہ یہ کہ کتنے خوفناک نتائج ان حادثات کے نمودار ہوئے۔ 
زندگی چھین لینے کا معاملہ اس قدر نازک ہے کہ عدالت کے سوا کسی کو یہ اختیار نہ دیا گیا۔ عدالت کے لیے بھی حکم یہ ہے کہ شک کا فائدہ ملزم کو دیا جائے گا۔ اللہ کے فرمان سے بے نیاز خارجیوں کے وارث‘ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اگر ان کے معیار پر پورے نہ اترے تو ہماشما کی حیثیت ہی کیا؟ 
انس اور الفت کے ساتھ ‘ دلیل اور محبت کے ساتھ بات کرنے والے اخبار نویس رضا رومی پر گولیاں چلانے والوںکو کیا خبر کہ اس پر نہیں‘ انہوں نے آزادیٔ اظہار کے حق پر حملہ کیا‘ جو اللہ نے آدمی کو بخشا ہے۔ جو سنتے ہی نہیں‘ غور ہی نہیں کرتے۔ جو نفرت پالتے اور اشتعال میں فیصلے صادر کرتے ہیں‘ انہیں کیا کہیے‘ مگر ریاست؟ 
قوموں کی زندگی میں 65 برس کا عرصہ کچھ زیادہ اہم نہیں۔ شاید اس سے بھی کم‘ جتنا 65 دن ایک آدمی کی حیات میں۔ سوال یہ ہے کہ اگر مریض پیہم بدپرہیزی کرتا رہے تو نتیجہ کیا ہوگا؟ 
ہزاروں برس پہلے‘ بہت پہلے‘ آدمی نے جب اپنے اپنے بہت سے اختیارات ریاست کے سپرد کر دیئے تھے‘ تو سبب اس کا کیا تھا؟ امن اور عافیت کی خواہش کے سوا اور کیا؟ جب یہ نکتہ ہم نے نظرانداز کردیا‘ جب نوآزاد معاشرے کو حکمرانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تو اس کے سوا اور کیا ہوتا۔ 
ریاض بسرا میاں محمد نوازشریف کی کھلی کچہری میں داخل ہوا‘ جب کہ وہ وزیراعظم تھے۔ ان کے ساتھ تصاویر بنوائیں اور انہی کو بھیج دیں۔ باور کیا جاتا ہے کہ بعدازاں انہیں قتل کرنے کی کوشش بھی کی۔ 
سیاسی جماعتیں خوف زدہ ہیں‘ سب کی سب۔ بعض کو تو ان سے ہمدردی بھی ہے۔ سولہ برس ہوتے ہیں‘ حرم پاک کے دروازے پر‘ جمعیت علمائے اسلام کے ایک رہنما نے‘ بہت فخر سے اس ناچیز کو بتایا: ابھی ابھی میں طالبان کے ایک لیڈر سے مل کر آیا ہوں‘ خانہ کعبہ کے جوار میں۔ ان سے عرض کیا: براہ کرم ان سے گزارش کیجیے‘ ریاض بسرا ایسے لوگوں کو پناہ دیا نہ کریں۔ بولے: وہ کہتے ہیں کہ ہم نہیں دیتے‘ وہ چھپ جاتے ہیں۔ کس طرح چھپ جایا کرتے۔ پنجابی اور سرائیکی بولنے والے‘ پشتون معاشرے میں‘ ایک اجنبی دیار میں کس طرح چھپ جایا کرتے؟ 
میرے محترم جنرل حمید گل کو یقین ہے کہ امریکیوں کے مقابل طالبان اس لیے ظفر مند ہیں کہ اسلام پر ان کا یقین پختہ ہے۔ عرض کیا: افغانستان کی وسعتوں میں گھوم پھر کے دیکھا۔ ہمیں تو اسلام کہیں دکھائی نہ دیا۔ ناخوش ہوئے۔ کہا: مجھ سے تم ناراض ہو۔ جنرل حمید گل ایسے نجیب آدمی کو کون مسترد کر سکتا ہے۔ قلق تو رہے گا کہ اتنے پڑھے لکھے‘ اس قدر دانا لوگ‘ انتقام کی قومی روایت کو اسلام سمجھنے لگے۔ امریکہ سے رزم آرائی عوام کا حق ہے۔ طالبان پر اس پہلو سے ذرا سا اعتراض بھی ناانصافی ہوگا۔ یہ مگر قومی آزادی کی جنگ ہے۔ اڑھائی ہزار برس پہلے‘ سکندراعظم سے لے کر‘ گزشتہ صدی کے اوائل میں انگریزی فوج سے تصادم تک‘ ہمیشہ وہ اپنا دفاع کرتے رہے۔ خاص طور پر شمال سے کیے جانے والی پیہم یلغاروں کا‘ مگر دین سے اس کا کیا تعلق؟ 
سرکارؐ کے ارشاد پر‘ سیدنا بلالؓ نے جنگ کی وہ شرائط بیان کردی تھیں‘ ہر حال میں جنہیں ملحوظ رکھنا ہوگا۔ انتہا یہ ہے کہ درخت نہ کاٹا جائے گا‘ فصل جلائی نہیں جا سکتی۔ امام ابوحنیفہؒ سے لے کر امام احمد بن حنبلؒ تک... اور آنے والی صدیوں کے اہلِ علم نے ابہام دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ مغالطے مگر اب بھی باقی ہیں۔ خون سر پہ سوار ہو جائے تو دانش کہاں باقی رہتی ہے۔ مصالحت کے باوجود صوفی محمد نے آئین‘ پارلیمان اور سپریم کورٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ٹی وی پر ایک مباحثہ برپا تھا۔ ان کے ایک مشہور کمانڈر نے کہا: بینکوں کو کام کرنے کی اجازت ہم نہیں دیں گے۔ سود کا وہ لین دین کرتے ہیں۔ گزارش کی: یہ تو فرمایئے کہ رحمۃ اللعالمینؐ نے سود پر پابندی کب عائد کی تھی۔ وہ بیچارہ کیا کہتا۔ عرض کیا: سود سے متعلق آیات نازل ہونے کے فوراً بعد نہیں بلکہ زکوٰۃ اور صدقات کا نظام استوار کرنے کے بعد‘ خطبہ حجۃ الوداع کے دن۔ ''آج سے میں سارے سود باطل قرار دیتا ہوں اور سب سے پہلے‘ اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کا‘‘۔ 
نیم حکیم خطرۂ جان اور نیم ملا خطرہ ا یمان۔ اخبار نویس نے لکھا ہے: طالبان کی شرائط تسلیم کرنا ہوں گی۔ نفاذِ شریعت اور آئین میں ترامیم۔ ان بیچاروں کو شریعت کا کیا علم۔ نفاذِ شریعت کے قرینوں کا کیا علم؟ یہ تو مذہبی جماعتوں کے رہنما تک نہیں جانتے۔ جانتے ہوں تو کیا اس قدر مستقل مزاج ہوں۔ اس قدر برہم؟ ترک جانتے ہیں اور مہاتیر محمد کو معلوم ہے۔ اس لیے انہوں نے تدریج کا راستہ اختیار کیا۔ لاہور کے صحافی نے سچ کہا: اسلام کیا دفعہ 144 ہے کہ مجسٹریٹ کے حکم سے نافذ ہو جائے۔ علم ہے‘ یہ علم‘ تربیت ہے‘ حکمت کا فروغ اور اداروں کی تشکیل۔ 
جی ہاں اداروں کی تشکیل‘ سوشل سکیورٹی سمیت 26 ادارے سیدنا فاروق اعظمؓ نے تشکیل دیئے تھے۔ اللہ کے آخری رسولؐ کی راہ چلتے ہوئے۔ سندھ کے جاٹ اور عالمِ عرب کے یہودی ان کی فوج میں شامل تھے۔ ایک صدی پہلے ترکوں کی خلافت تک قرینہ یہی تھا۔ 
پھر اسلامی تحریکیں اٹھیں۔ کس کی نیت کیا تھی۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور وہی فیصلہ کرنے والا ہے۔ جنہیں ہم نے دیکھا‘ ان کی ترجیح بہرحال اقتدار تھا۔ جہاں جہاں جتنا بھی اقتدار انہیں ملا‘ جلال ہی دیکھا‘ جمال کبھی نہیں۔ 
اللہ کے آخری رسولؐ بشارت دیا کرتے‘ فرمایا: نرمی ہر چیز کو خوبصورت بنا دیتی ہے۔ فرمایا تھا‘ جس میں نرمی نہیں‘ اس میں کوئی خیر نہیں۔ رہے علماء کرام تو کس کی مجال ہے کہ ان کے منہ آئے۔ بس ایک اقبالؔ تھے اور انہوں نے یہ کہا تھا ؎ 
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق 
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved