پیارے سردار صاحبان!
سست سری اکال... واہگرو جی کی فتح
کافی عرصے سے ہمیں یہ احساس پریشان کر رہا تھا کہ ہم نے ملکِ عزیز کی اقلیتوں کو نظرانداز کر رکھا ہے جبکہ آئین پاکستان کے مطابق بھی ہمیں اقلیتوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے جو کہ قائداعظم کے فرمان کے مطابق بھی ملک کے برابر کے شہری ہیں؛ چنانچہ جب تک طالبان کی حکومت نہیں آتی‘ ہمیں موجودہ آئین پر ہی کاربند رہنا ہوگا جیسا کہ اس مقدس دستاویز کی ہر شق پر پورے خشوع و خضوع سے عمل کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں‘ آپ حضرات کے ساتھ رابطہ رہا تو ہمیں کچھ عقل کی باتیں سیکھنے کا ہی موقع ملے گا۔ نیز‘ آپ بھی چونکہ ہماری طرح توحید پرست واقع ہوئے ہیں‘ اس لیے بھی آپ سے ایک طرح کی یگانگت کا احساس ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ کی قابلِ فخر قوم کے مفادات کے تحفظ کی خاطر اس صفحے کا اجرا کیا جا رہا ہے جبکہ نام کی مناسبت سے بھی پرچے پر آپ کا پورا پورا حق بنتا ہے۔ براہ کرم اپنی قیمتی رائے سے پہلی فرصت میں مطلع کریں کہ ہماری یہ عاجزانہ کاوش آپ کو کیسی لگی تاکہ اسے بہتر سے بہتر بنایا جا سکے۔ امید ہے کہ آپ کے دانشمندانہ مشورے ہمارے شاملِ حال رہیں گے۔
سبق آموز واقعات
٭...سوہن سنگھ نامی ایک سکھ کو قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا ہو گئی۔ میعاد پوری کرنے کے بعد آخر وہ قید سے رہا ہو گیا۔ اس کا کوئی والی وارث تو تھا نہیں؛ چنانچہ اس نے سوچا کہ پتہ نہیں گائوں والوں کو چودہ سالہ عرصے میں اس کا نام بھی یاد رہ گیا ہے یا نہیں۔ بہرحال‘ اسی کشمکش میں وہ اپنے گائوں کی طرف روانہ ہو گیا۔ گائوں کے قریب پہنچا تو اسے کچھ سکھ نوجوان نظر آئے جن سے اس نے پوچھا کہ آیا تمہارے گائوں میں کبھی کوئی سوہن سنگھ نامی سکھ رہا کرتا تھا جس پر انہوں نے جواب دیا کہ نہیں‘ اس نام کا ہمارے گائوں میں کبھی کوئی شخص نہیں رہا۔ چنانچہ اس نے سوچا کہ جب گائوں والے میرا نام ہی بھول چکے ہیں تو پھر وہاں جانے کا فائدہ ہی کیا ہے۔ پھر ایک دم اسے خیال آیا کہ اتنی لمبی سزا کاٹنے کے بعد کہیں اسے اپنا نام ہی صحیح یاد نہ رہا ہو اور دراصل اس کا نام موہن سنگھ نہ ہو۔ چنانچہ اس نے ان نوجوانوں سے پوچھا کہ کبھی کوئی موہن سنگھ نامی سکھ وہاں رہتا ہو؟ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس بارے انہیں صحیح معلوم نہیں ہے؛ چنانچہ مایوس ہو کر اس نے واپسی کی راہ لی۔ کوئی دوچار فرلانگ چلنے کے بعد اسے دور سے انہی نوجوانوں کی آوازیں آئیں کہ سردار جی‘ ذرا ٹھہرو۔ وہ رُک گیا تو وہ نوجوان بھاگتے ہوئے اس کے قریب پہنچ کر بولے کہ انہوں نے گائوں میں جا کر بھی پتہ کیا ہے لیکن اس نام کا بھی کوئی شخص وہاں کبھی نہیں رہا!
٭... ایک سردار جی پیرس گئے اور وہاں جا کر ایک گرل فرینڈ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ایک دن انہیں سڑک پر پڑا ہوا کاغذ کا ٹکڑا ملا جس پر کچھ لکھا ہوا تھا لیکن تحریر چونکہ فرانسیسی زبان میں تھی جس سے وہ قطعی طور پر نابلد تھا؛ چنانچہ وہ کاغذ انہوں نے جیب میں رکھ لیا۔ شام کو وہ کسی ریستوران میں اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ چائے وغیرہ پی رہے تھے کہ انہیں اس کاغذ کا خیال آیا۔ تو انہوں نے وہ تحریر اپنی جیب سے نکالی اور اسے پڑھنے کے لیے دی جسے پڑھ کر اس نے سردار صاحب کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کیا اور گالیاں بکتی ہوئی باہر چلی گئی۔ اس کے بعد مارے اشتیاق کے انہوں نے وہ کاغذ ہوٹل کے منیجر کو جا دکھایا جسے پڑھ کر اس نے اپنے بیروں کو حکم دیا کہ اسے اٹھا کر ہوٹل سے باہر پھینک دیں۔ اس پر موصوف کا تجسس مزید بڑھا اور ہوٹل سے باہر نکل کر انہوں نے دو راہگیروں کو وہ کاغذ دکھایا تو انہوں نے اسے سڑک پر گرا لیا اور خوب دھنائی کی۔ لیکن سردار صاحب کے پائے استقلال میں کوئی کمی نہ آئی اور ان کے دل میں اپنے ایک ہم وطن کا خیال آیا جو کافی عرصے سے وہاں رہ رہا تھا اور فرانسیسی زبان سے بخوبی واقف تھا۔ اس نے فون پر اسے بتایا تو وہ بولا کہ وہ بحری جہاز سے سفر کرنے والا ہے اور اس وقت جہاز پر پہنچ چکا ہے۔ اگر مسئلہ اتنا ہی ضروری ہے تو وہ وہاں پہنچ جائے۔ جب سردار صاحب وہاں پہنچے تو جہاز کے عرشے پر انہوں نے اس شخص کو بھی منتظر کھڑے دیکھا۔ سردار صاحب کو دیکھ کر اس نے کہا کہ آپ جہاز پر تو آ نہیں سکتے‘ کاغذ کی گولی بنا کر اوپر پھینک دیں‘ وہ انہیں پڑھ کر سنا دے گا۔ چنانچہ موصوف نے اس کاغذ کی گولی بنائی اور زور سے اوپر پھینکی لیکن عرشے پر پہنچنے کے بجائے وہ سمندر میں جا گری اور آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ اس کاغذ پر کیا لکھا تھا:
٭... ایک سکھ جنگل میں اکیلا جا رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ سامنے سے آدم خوروں کا ایک ٹولہ آ رہا ہے۔ اس نے آسمان کی طرف منہ کر کے کہا‘ گورو جی‘ میں تو مر گیا جس پر اوپر سے آواز آئی کہ کرپال سنگھ‘ تم مرے نہیں ہو۔ کرپال سنگھ نے کہا کہ پھر میں کیا کروں؟ جس پر اوپر سے آواز آئی کہ ان کے آگے آگے موٹے پیٹ والا ان کا جو سردار ہے‘ کرپان نکالو اور اس کے پیٹ میں جھونک دو۔ موصوف نے ویسے ہی کیا تو اوپر سے آواز آئی‘ کرپال سنگھ‘ تم تب نہیں مرے تھے‘ اب مرو گے؟
٭... بنتا سنگھ اپنے متعدد ساتھیوں کے ساتھ کہیں جا رہا تھا کہ ان کے مخالفوں کا ایک مسلح جتھہ سامنے سے نمودار ہوا‘ جنہیں دیکھ کر بنتا سنگھ تو ایک جھاڑی کے پیچھے چھپ گیا لیکن دشمنوں نے اس کے سارے ساتھی موت کے گھاٹ اتار دیئے۔ جب وہ کافی دور نکل گئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے تو اس نے اپنے آپ سے کہا:
''یہاں سے بھاگ اوئے بنتا سیہاں‘ عقلمند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے؟‘‘
٭... ایک سردار جی کے سر سے خون بہہ رہا تھا اور وہ بھاگے آ رہے تھے کہ کسی نے ان سے پوچھا:
''سردار جی کیا ہوا؟‘‘ تو وہ بولے:
''ہونا کیا تھا جی‘ پچھلے چوک میں کچھ آدمی جمع تھے‘ میں بھی ان میں جا گھُسا کہ کسی نے میرے منہ پر ایک زوردار تھپڑ دے مارا‘ میں نے سوچا‘ کوئی معاملہ ہے۔ اتنے میں کسی نے مجھے اٹھا کر پکی سڑک پر دے مارا‘ میں نے سوچا‘ کوئی گڑبڑ معلوم ہوتی ہے‘ لیکن جب ایک نے میرے سر پر ڈانگ مار دی تو میں نے کہا‘ بیڑہ غرق‘ یہاں تو لڑائی ہو رہی ہے!‘‘
٭... ایک سردار جی سڑک پر جا رہے تھے کہ کیلے کے چھلکے سے پھسل کر گر پڑے۔ اٹھے‘ کپڑے جھاڑے اور اِدھر اُدھر دیکھا کہ کہیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ ذرا آگے گئے تو چھلکے پر سے پھر پھسلے اور اوندھے منہ جا گرے۔ پھر اُٹھ کر روانہ ہوئے تو انہیں سڑک پر پڑا کیلے کا ایک چھلکا نظر آ گیا‘ جسے دیکھ کر بولے:
''لو جی‘ لگتا ہے‘ ایک بار پھر پھسلنا پڑے گا!‘‘
اقوالِ زریں
٭ صبح اٹھ کر سب سے پہلے اپنی کرپان صاف کرو‘ لیکن پہلے اچھی طرح دیکھ لو کہ کیا وہ تمہاری ہی کرپان ہے‘ یعنی تم کسی اور کی کرپان صاف نہ کردو!
٭ اپنے کڑے کو کڑے وقت کے لیے سنبھال کر رکھو!
آج کا مقطع
سنکھ سریر بجے دن راتیں دم زنجیر پرانی
بوہے کھول کے بیٹھے ظفراؔ نانک ناتھ جنہاں کا