تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     31-03-2014

’’کوڑے کے بدلے شکر‘‘

''کوڑے کے بدلے شکر لے لو‘‘ یہ آواز کسی گائوں میں ایک مالدار بڑھیا لگایا کرتی تھی۔ وہ بڑھیا اپنے اکلوتے بیٹے کا رشتہ ڈھونڈنے نکلی تھی، اس کی خواہش تھی کہ وہ اپنے قابل بیٹے کے لیے ایک سلیقہ مند اور سگھڑ بہو ڈھونڈ کے لائے۔ 
اس مقصد کے لیے اس نے یہ عجیب طریقہ اپنایا ۔ وہ شکر کے تھیلے لے کرگائوں کی گلی گلی میں جاتی اور آوازیں لگاتی ''کوڑے کے بدلے شکر لے لو‘‘۔ یہ عجیب سودا تھا، بڑھیا کی آواز سن کر گائوں کی لڑکیاں اپنے گھر کے کونے کھدروں سے کوڑا نکال کر بڑھیا کو دیتیں، اس کے بدلے میں وہ انہیں شکر کا تھیلا پکڑا دیتی۔ 
یہی کچھ کرتے ہوئے بڑھیا کو کئی روز گزرگئے‘ گائوں کی لڑکیاں بھی اس عجیب بڑھیا کے انتظار میں گھروں کے دروازوں کے ساتھ کوڑے کے تھیلے پکڑ کر کھڑی ہوجاتیں۔ بڑھیا حسین اور خوبصورت لڑکیاں دیکھتی رہی‘ اس نے دیکھا کہ گلی کی نکڑ پر ایک سادہ سے گھرکے دروازے پر ایک جاذب نظر لڑکی خالی ہاتھ اسے دیکھتی رہتی ہے۔ ایک روز بڑھیا نے اس سے پوچھ لیا کہ تم بھی کوڑے کے بدلے شکر لے لو۔ لڑکی نے کہا کہ ''میرے گھر اتنا کوڑا کرکٹ ہے ہی نہیں کہ میں اکٹھا کر کے آپ سے شکر کا ایک تھیلا لے سکوں۔ روز صفائی کرنے کی وجہ سے کبھی کوڑا اکٹھا ہی نہیں ہوا‘‘۔ بڑھیا نے مسکرا کر اس لڑکی کو دیکھا اور دل میں شکر ادا کیا کہ آج اس نے اپنی بہو تلاش کر لی ہے۔اسے ایسی ہی صفائی پسند اور سلیقہ مند لڑکی کی تلاش تھی۔ 
یہ ایک گھڑی ہوئی کہانی ہے جو بڑی خوبصورتی سے صفائی ستھرائی کی اہمیت بیان کرتی ہے۔ اپنے ماحول اور گردونواح کو صاف ستھرا رکھنے کی عادت اگر ہم میں سے ہر شخص اپنا لے تو یقین جانیں کہ نہ صرف ماحول صاف ستھرا اور اردگرد کا منظر خوبصورت ہو گا بلکہ گندگی اور جراثیم سے پیدا ہونے والی بیماریاں بھی کم ہو جائیں گی۔کوئی بھی عادت اچھی ہو یا بُری‘ تنہا وجود نہیں رکھتی بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑکر ایک زنجیر بناتی ہے۔اچھی عادت یقیناً زندگی میں ضابطہ‘ خوبصورتی‘ آسانی اور تہذیب لے کر آتی ہے اور بُری عادت کے ساتھ مسائل‘ بدتہذیبی‘ تکلیف اور مشکلات جڑی ہوتی ہیں۔ 
ہمارے دین نے صفائی کو نصف ایمان قراردیا اورہماری یہ حالت ہے کہ اپنے گھروں کی صفائی کر کے کوڑا گلی میں پھینک دیتے ہیں ۔ ہم نے اپنے دین سے یہ سبق نہیں سیکھا اس لیے آج کل ترکی سے آئے ہوئے لوگ ہمیں یہ سبق پڑھانے کے لیے لاہور میں موجود ہیں ۔ وہ لاہور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے ساتھ مل کر ایک ہمہ جہت پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں جس میں شہریوں کو صفائی کی اہمیت کا احساس دلانے کے ساتھ‘ ٹنوں کے حساب سے جمع ہونے والے کوڑے کرکٹ سے بجلی پیدا کرنے جیسا اہم پراجیکٹ بھی شامل ہے۔ دنیا بھر میں کوڑے سے توانائی کا حصول اب ایک مضمون کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ سائنس دان سر جوڑے بیٹھے ہیں کہ اربوں انسانوں کا ویسٹ میٹیریل (ضائع شدہ مواد) کس طرح دوبارہ استعمال ہو سکتا ہے، یہاں تک کہ سنگاپور میں سائنس دانوں نے ایک ایسا ٹوائلٹ تیارکر لیا ہے جو انسانی فضلے کو بجلی میں تبدیل کرے گا، یہ ایک انقلابی تصور ہے۔ انسانی فضلہ بائیو گیس بنانے کے لیے پہلے ہی استعمال ہو رہا ہے۔ ہر روز اس زمین پر اربوں انسانوں کا کوڑا کرکٹ اگر ری سائیکل نہ ہو تو انسان کو زمین پرکھڑے ہونے کی صاف جگہ نہ ملے۔ صرف نیویارک شہر کے ایک دن کا کوڑا پچاس ہزار ٹن ہے جو انتظامیہ کے لیے ایک دردِ سر ہے۔ ہر روز اس کو ٹھکانے لگانا ایک چیلنج ہے۔ دنیا بھر میں Trash into cash اور Garbage into treasure کی اصطلاحات استعمال کی جا رہی ہیں یعنی کوڑے کرکٹ کو صرف ضائع نہیں کیا جا رہا بلکہ اس کو دوبارہ مختلف طریقوں سے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ مثلاً امریکہ میں زیتون سے تیل نکالنے والے ایک کارخانے نے زیتون کی بچ جانے والی گٹھلیوں سے فیول پیدا کیا ہے۔ پہلے ٹنوں کے حساب سے زیتون کی گٹھلیاں ضائع شدہ مواد سمجھ کرکوڑے میں چلی جاتی تھیں مگر اب ان گٹھلیوں سے پیدا کردہ فیول ہی کارخانوں کی مشینیں چلانے کے لیے کافی ہے۔ اسی طرح امریکہ میں ٹریسی نامی ایک خاتون نے ہوٹلوں‘ ریستورانوں سے استعمال شدہ ویجی ٹیبل آئل کا ویسٹ اکٹھا کر کے اپنی گاڑی کو ڈیزل کے بجائے اس سے حاصل ہونے والی توانائی سے چلایا۔ ٹریسی کا کہنا ہے کہ گاڑی میں ایک مخصوص Converter لگانا پڑتا ہے جس سے تیل کو گاڑی میں ڈیزل کی جگہ استعمال کر کے بآسانی گاڑی چلائی جا سکتی ہے۔ 
ترقیاتی یافتہ ملکوں نے بہت پہلے اس ضرورت کو محسوس کر لیا تھا کہ استعمال شدہ چیزوں کو دوبارہ کیسے قابلِ استعمال بنایا جا سکتا ہے۔ وہاں سکول کے بچوں کو ہم نصابی سرگرمیوں کے طور پر یہ تصور باقاعدہ پڑھایا جاتا رہا ہے کہ تھری آر (3R) ہمیشہ یاد رکھو۔۔۔ Reduce,Reuse اور Recycle۔ مثلاً ڈھیروں پلاسٹک کے بیگ استعمال کرنے اور انہیں کوڑے میں پھینکنے سے بہتر ہے کہ کپڑے کے تھیلے استعمال کیے جائیں اور بازار جاتے ہوئے اپنا تھیلا ساتھ لے جائیں۔ پلاسٹک بیگ اس وقت ماحولیات کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں کیونکہ یہ برسوں بھی پڑا رہے تو ڈی کمپوز نہیں ہوتا ،کوئی جانور نگل لے تو اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ بنگلہ دیش میں پلاسٹک بیگ کے استعمال پر پابندی ہے جبکہ پاکستان میں ابھی تک اس پرکوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔ استعمال ہونے والی چیزوں کو دوبارہ نئے انداز میں استعمال کیا جا سکتا ہے، مثلاً جام جیلی کے جارکو پینٹ کر کے گلدان میں بدلا جا سکتا ہے، اسے کوپن ہولڈر بنایا جا سکتا ہے ، بے کارکاغذوں اور اخبارات سے آرائشی اشیاء بنائی جا سکتی ہیں ۔ جاپانی اس آرٹ کو پیپر ماشی کہتے ہیں ، وہ بے کار کاغذوں کوگلو (Glue) اور پانی میں بھگوکر خاص طریقے سے مختلف گلدانوں اور آرائشی چیزوں میں بدلتے ہیں ۔ بے شمار ایسے فنون ہیں جن کی مدد سے کوڑے کے ڈھیر پر جانے والی بے کار چیزوں سے کارآمد چیزیں بنائی جا سکتی ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی خالی بوتلوں سے گلدان بنائے جا سکتے ہیں اور بڑے بڑے پلانٹ لگا کرکوڑے سے توانائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی اس کی تربیت سکول سے شروع ہونی چاہیے کہ کیسے ہم اپنی زمین کے قدرتی توازن کو محفوظ برقرار رکھ سکتے ہیں۔ 
''کوڑے کے بدلے شکر لے لو ‘‘کی آوازیں لگانے والی عقلمند بڑھیا کا کردار اگرچہ افسانوی ہے لیکن آج کوڑے کو توانائی میں بدلنے والی جدید ٹیکنالوجی کو دیکھیں تو یہ بڑھیا ضرور یاد آتی ہے کیونکہ یہ بات اب تصور کے بعد حقیقت میں بدل چکی ہے۔ آغاز ہمیں اپنے گھر سے کرنا ہوگا۔ تھری آر(3R) ہمیں بھی اپنے بچوں کو ازبرکروانے ہوں گے۔ خدا کی دی ہوئی اس سرزمین کو سرسبز اور محفوظ رکھنے کے لیے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved