اکبر بگٹی کو قتل کیا گیا تو اس کے بعد بلوچستان کے تمام سرداروں کو خدشہ محسوس ہوا کہ اب ریاست کی بندوق انہیں بھی نشانہ بنائے گی۔ عدم تحفظ کے احساس نے ایک دوسرے کے جانی دشمن سرداروں کو مجبورکردیا کہ وہ ہاتھ ملائیں اور اپنے اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کی ڈھال بنیں۔اس سوچ کے تحت انہوں نے اپنی رہنمائی کے لیے خان آف قلات میر سلیمان داؤد کو چُنا،کیونکہ ان کے خاندان کو چار سو سال سے بلوچ قبائلی سردار اپنا بڑا مانتے چلے آئے ہیں۔ بلوچ سرداروں کی حمایت پا کر میر سلیمان داؤد نے بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کی عالمی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لیے لندن کو اپنا مسکن بنایا۔ ابھی خان آف قلات ولایت میں اپنا سامان بھی نہیں کھولنے پائے تھے کہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو پاکستان واپس آگئے۔ ان دونوں کی وطن واپسی کے ساتھ ہی خان کے حمایتی بلوچ سرداروں کے لیے قومی سیاست کے دروازے کھل گئے جو جنرل پرویز مشرف کی موجودگی میں انہیں بند نظر آرہے تھے۔ ان دروازوں کے کھلتے ہی انہوں نے خاموشی سے خان آف قلات سے اپنی راہیں جدا کرلیں۔ یوں خان آف قلات اس فریم کی مانند ہوگئے جو ایک عظیم الشان دیوار پر لٹکا ہے لیکن تصویر سے خالی ہے۔
میرسلیمان داؤد کے چکر میں حربیار مری، براہمداغ بگٹی اور جاوید مینگل نے بھی مزاحمت کا پتھر اٹھانے کی کوشش کی لیکن جلد ہی اسے چوم کر چھوڑ دیا۔ اب یہ سارے نواب مزاحمت کار یورپ میں شاندار زندگی گزارتے ہوئے بلوچ عوام کا غم غلط کرتے ہیں۔ان فائیو سٹار حریت پسندوں کی اتنی ہی اہمیت باقی رہ گئی ہے کہ کبھی کبھار میڈیا کے شوقیہ فنکار انہیں اپنے پروگراموں میں ٹیلیفوں لائن پر گفتگو کا موقع فراہم کردیتے ہیں۔ اب خان آف قلات میر سلیمان داؤد ، حربیار مری، براہمداغ بگٹی اور جاوید مینگل بلوچستان کے عوام سے مایوس ہوکر ملک سے باہر ایسے سرپرستوں کی تلاش میں ہیں جو کسی طرح بلوچستان کو ایک عالمی مسئلہ بنانے میں ان کی مدد کرسکیں، لیکن خود بلوچستان کے اندر ان کی حالت یہ ہے کہ میرسلیمان کے برادرِنسبتی لسبیلہ سے صوبائی اسمبلی کے رکن ہیں، حربیار مری کے بھائی چنگیز مری مسلم لیگ ن کا حصہ ہیں اور2013 ء کے الیکشن کے بعد ایک موقعے پر انہیں صوبائی وزارت اعلیٰ دینے کے لیے مشاورت بھی ہوئی تھی۔ براہمداغ بگٹی کا ساتھ خود ان کا خاندان بھی چھوڑ چکا ہے اور باقی رہے جاوید مینگل تو ان کے بھائی اختر جان مینگل بمشکل صوبائی اسمبلی میں اپنی نشست جیت سکے ہیں۔
اکبر بگٹی کے قتل کے ردعمل کو علیحدگی کی ایک پھیلی ہوئی تحریک کی صورت میں پیش کرنے والے سرداروں کا خیال تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے بعد صوبے کا اقتدار بلا شرکت غیر ے ان کے سپردکردیا جائے گا اور وہ ایک بار پھر اپنے عوام کی گردنوں پر سوار ہوجائیں گے۔ ان کا یہ خیال درست بھی ثابت ہوا اور 2008ء سے 2013ء تک ان لوگوں نے شیرِ مادر کی طرح بلوچستان کا خون چوسا۔ اس عرصے میں آزاد بلوچستان کی فائیو سٹار تحریک تو ختم ہوگئی لیکن وسائل کی تقسیم سے غیر مطمئن نوجوانوں نے مکران ڈویژن اور اواران میں اپنی سرگرمیاں شروع کردیں۔اس تحریک کا لیڈر ڈاکٹر اللہ نذر ہے جس کے اثرات کالجوں اور یونیورسٹیوں میں خاصے واضح ہیں۔ ڈاکٹر اللہ نذرکا تعلق ماشکے سے ہے، لیکن اس کی خصوصی توجہ مکران پر مرکوز رہتی ہے کیونکہ گوادرکی بندرگاہ اسی ڈویژن کا حصہ ہے۔ خلیج عرب میں پیسے کے زور پر بسائے جانے والے شہروں کے مالکان جو نہیں چاہتے کہ گوادر کی بندرگاہ ان کے مصنوعی شہروںکو بے مصرف کردے، ڈاکٹر اللہ نذرکو مالی وسائل مہیا کرتے ہیں۔ بیرونی پیسے اور کچھ مقامی حمایت کے زور پر چلنے والی یہ تحریک بہرحال زمین پر اپنا وجود رکھتی ہے اور ڈاکٹر اللہ نذر ہی وہ حقیقی آدمی ہے جس کی آواز پر پڑھا لکھا بلوچ نوجوان دھیان دیتا ہے۔ بلوچ سرداروں کی سرتوڑکوشش ہے کہ وہ ڈاکٹر اللہ نذرکے بجائے فائیوسٹار علیحدگی پسندوں کو ناراض بلوچ بنا کر پیش کریںکیونکہ اس طرح یہ میدان کے دونوں طرف سے کھیل سکیں گے ۔ ملک سے باہر بیٹھے ہوئے انہی سرداروں کے کہنے پر ناراض ہوئے تھے اور انہی کے کہنے پرہنسی خوشی راضی بھی ہوجائیں گے۔ ان ناراض بلوچوں کی نوابی شان ملاحظہ ہوکہ جب ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بطور وزیراعلیٰ لندن میں مقیم خان آف قلات سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے اس لیے جواب نہیں دیا کہ عبدالمالک بلوچ کسی قبیلے کی سرداری سے محروم ہیں اس لیے ان سے بات کرناکسرِ شان ہے۔
میڈیا اور اپنے خاندانی تعلقات کے بنیاد پر یہ جعلی علیحدگی پسند یہ تاثر پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ ان سے بات چیت کیے بغیر حل نہیں ہوسکتا۔ یہ تاثر اتنا گہرا ہے کہ صوبے میں ایک بہت بڑے عہدے پر متعین شخص اپنے ملاقاتیوں کو بڑی دیانتداری سے بتاتا ہے کہ خان آف قلات سے بات کرنا وزیراعلیٰ کے بس کی بات نہیں بلکہ اس کے لیے فلاں سردار مناسب ہے جبکہ سچ تو یہ ہے کہ اب خان آف قلات کی اتنی اہمیت ہی باقی نہیں رہی کہ ان سے بات کرنے کی ضرورت پڑے، اس صوبے کی نئی سیاسی حقیقت (چھوٹی ہے یابڑی) ڈاکٹر اللہ نذرہے جس سے بات کرنے کے لیے سوائے ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ سے زیادہ موزوں شخص پورے ملک میں نہیں ہے۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے جس تیزی سے بلوچ معاشرے اور خاص طور پر مکران اور اواران میں پیش قدمی کی ہے وہ خاصی حیران کن ہے۔ بطور وزیراعلیٰ وہ علیحدگی پسند نوجوانوں کے خلاف طاقت ناگزیر حالات میں استعمال کرتے ہیں ورنہ سیاسی طور پراپنے مقاصد کے حصول کے لیے اتنا آگے چلے جاتے ہیں کہ ان کے ہمراہی ان پر بے جا نرمی یا سستی کا الزام تک لگا دیتے ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے اواران میں زلزلہ متاثرین کے لیے امدادی سامان کی فراہمی سے پہلے بھی اپنی روایتی حکمت عملی کے مطابق انہوں نے اصل والے ناراض بلوچ نوجوانوں کو پیغام بھجوایا کہ ریلیف کے کام میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالیں کیونکہ یہ انہی کے لوگوں کی مدد کے لیے ہے۔ دوسری طرف سے وعدہ ہواکہ امدادی کارکنوں کوکچھ نہیں کہا جائے گا لیکن دو دن بعد ہی یہ وعدہ ٹوٹ گیا۔ جب یہ وعدہ ٹوٹا تو پھرڈاکٹر بلوچ نے مقامی عمائدین کو اعتماد میں لے کر یہ کام ایف سی کے سپرد کیا اور نتیجہ وہی نکلاجو نکلنا چاہیے تھا، سیاسی طور پر ڈاکٹر اللہ نذر کی حیثیت اپنے گھر میں کمزور پڑگئی اور حکومت کو کام کرکے لوگوں کو قریب لانے کا موقع مل گیا۔اواران مکمل طور پر تو نہیں لیکن کچھ نہ کچھ بدلا ضرور ہے۔
ڈاکٹر مالک بلوچ نے اپنے دھیمے انداز اور دانائی کے ساتھ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کرلمبا فاصلہ طے کرنے کی حکمت عملی اختیار کررکھی ہے۔ وزیراعظم کا مکمل تعاون حاصل ہونے کے باوجود سیاسی پیچیدگیاں ان کے راستے میں آتی رہتی ہیں، یہ پیچیدگیاں کہیں تو خالص سیاسی ہوتی ہیں اورکہیں مصنوعی طور پر ان' لوگوں ‘کی پیداکردہ جو ماضی میں بھی اس طرح کی حرکتوں میں ملوث رہے ہیں۔ یہ لوگ وزیراعظم کو قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی حمایت چھوڑکر ایک سردارکو وزیر اعلیٰ بنا دیں تاکہ وہ اپنے فائیو سٹار علیحدگی پسندوں کی واپسی کا راستہ ہموار کرسکے۔ اب ان لوگوں نے گھسے پٹے طریق کارکے تحت کرپشن کی فائلیں بنانا شروع کردی ہیں جو عنقریب اسلام آباد میں وزیراعظم کی خدمت میں پیش ہوںگی۔ وزیراعظم نے گزشتہ نو ماہ سے ان کی کسی بات پر کان نہیں دھرا، لگتا ہے یہ فائلیں بھی نظرانداز کردی جائیں گی۔