آنے والے حالات میں بے یقینی کی مقدار تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ پاکستان کے پالیسی ساز حلقوں میں یا تو اس کا احساس اور اندازہ نہیں کیا گیا اور کیا گیا ہے‘ تو عوام کو اعتماد میں نہیں لیا جا رہا۔ جبکہ بحرانی حالات میں یہ بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم نہیں جانتے‘ حامد کرزئی کے بعد کا افغانستان کیسا ہو گا؟ یہ طے ہے کہ حامد کرزئی کی حکومت کے ساتھ ہمارے تعلقات میں بہت خرابی آ گئی ہے۔ پہلے جو دھمکیاں وہ‘ اشارے کنائے میں دیا کرتے تھے‘ اب برملا الزامات بھی دہراتے ہیں اور دھمکیاں بھی دینے لگے ہیں۔ بھارت کے ساتھ دوستی کا زمانہ ایک بار پھر شروع ہونے سے پہلے بدل گیا۔ جہاں رابطوں میں اضافے کی تجویز دی جا رہی تھی‘ وہاں موجودہ رابطوں میں بھی کمی آنے لگی ہے۔ بھارت کے رویّے میں سختی بڑھتی جا رہی ہے۔ نریندر مودی کی حکومت آئے یا کسی اور کی۔ لیکن مودی کی انتخابی مہم میں پاکستان کے خلاف جو زہر پھیلایا جا رہا ہے‘ اس کے اثرات‘ یقیناً آنے والی حکومت کی پالیسیوں میں نفوذ کریں گے۔ خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول ہمسایوں کے ساتھ قابل اعتماد تعلقات قائم رکھنا ہے۔ ہمیں کافی عرصے تک بھارت کے سوا یہ اعتماد‘ باقی تینوں پڑوسیوںکے معاملے میں حاصل رہا۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران افغان حکومت سے ہمارے تعلقات اس قدر بگڑ گئے کہ آج میں بھارت سے زیادہ افغانستان کو اپنی سلامتی کے لئے خطرہ سمجھ رہا ہوں۔ بھارت کے ساتھ کشمیر کے سوا ہماری سرحدیں تسلیم شدہ اور محفوظ ہیں۔ چین کے ساتھ بھی ہمارا کوئی سرحدی تنازعہ نہیں۔ چین کو یہ شکایت ضرور ہے کہ اس کے جنوبی علاقے میں یغور باغیوں کو اسلحہ اور تربیت پاکستانی علاقوں سے ملتی ہے۔ افغانستان کے ساتھ ہماری تمام کی تمام سرحدیں نہ صرف غیرمتعین بلکہ متنازعہ بھی ہیں۔
طالبان جنہیں تمام وسائل مہیا کر کے ہم نے افغانستان پر ان کا اقتدار قائم کرایا‘ ان کے دور میں بھی سرحدوں کی حدبندی نہیں کی گئی۔ یہ پوری کی پوری سرحد 2600 کلومیٹر بارودی سرنگ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ سرنگ کسی بھی وقت‘ کسی بھی جگہ سے پھٹ سکتی ہے۔ ایران کے ساتھ یوم آزادی سے لے کر آج تک‘ ہماری سرحدیں سب سے زیادہ محفوظ رہیں۔ ہماری آزادی کے وقت ایران کو ہمارے آبی راستوں کی ضرورت رہی اور ہم نے کراچی کی بندرگاہ سے ایران کو ہر طرح کی سہولتیں مہیا کیں۔ جب ہم خطرے میں آئے‘ تو ایران نے پاکستانی فضائیہ کے جنگی طیاروں کو
اپنے ہوائی اڈوں پر پارک کرنے کی سہولتیں مہیا کیں۔ یہ سرحد نہ صرف محفوظ تھی بلکہ آزمائش کے وقت مددگار بھی ہوتی تھی۔ اب یہ سرحدیں گرم ہونے کا اندیشہ پیدا ہو رہا ہے۔ ایران کے 5 سرحدی گارڈز کے اغوا کا مسئلہ ہمارے درمیان پہلے سے چل رہا تھا۔ ایران نے روایتی تحمل اور دوستانہ انداز میں اس کا گلہ کیا اور ہم بھی یقین دلاتے رہے کہ سرحدی گارڈز کو بازیاب کر کے ان کے حوالے کیا جائے گا۔ مگر دو اتفاقات نے صورتحال یکسر تبدیل کر دی۔ ڈیڑھ ارب ڈالر کی پاکستانی سٹیٹ بنک میںغیرمتوقع آمد اور علاقائی معاملات میں سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی دلچسپی میں مضمر مقاصد نے ایران کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔ ماضی میں پاکستان‘ سعودی عرب کی دفاعی معاونت کرتا رہا ہے اور بحرین میں بدامنی کے لئے ریٹائرڈ پولیس افسروں کی خدمات‘ ہم بحرین حکومت کے سپرد کرتے رہے ہیں۔ جہاں انہوں نے مقامی فورسز کے ساتھ مل کر بدامنی پر قابو پانے میں مدد دی۔ اس پس منظر کے ساتھ موجودہ حالات میں ایران نے‘ سعودی عرب سے اچانک ملنے والے ڈیڑھ ارب ڈالر کے تحفے کو سوال طلب نظروں سے دیکھا۔ ساتھ ہی ہماری طرف سے حتمی اعلان آ گیا کہ پاکستان اپنے حصے کی گیس پائپ لائن مکمل نہیں کر سکے گا۔ سعودی عرب‘ پڑوسی ملکوں میں خفیہ یا برملا مداخلت کرنے لگا ہے۔ شام میں حکومت کے باغیوں کی کھلی مدد کی جا رہی ہے۔ مصر میں اخوان المسلمون کے ساتھ بھی اس کا طرزعمل تبدیل ہو گیا ہے۔ بحرین میں وہ براہ راست ملوث ہے۔ گویا جہاں بھی سعودی عرب سٹریٹجک سرگرمیوں میں ملوث ہے‘ وہاں ایران کے اتحادیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ بدقسمتی سے اس کشمکش کی بنیاد سیاسی ہے لیکن بنایا اسے مذہبی جا رہا ہے۔ ایران خطے میں شیعہ مسلک کا نگہبان بن کر سامنے آ رہا ہے اور سعودی عرب سنی مسلک کا۔ شام اور بحرین دونوں جگہ اس کا ہدف شیعہ ہیں۔ عراق میں وہ سنی دہشت گردوں کا مددگار ہے۔ مغرب کے ارادے بھی نیک نہیں۔ ان کی ایجنسیوں نے عرصہ پہلے شیعہ سنی تصادم کا جو زہر پھیلایا تھا‘ اب امریکہ اور اتحادی اس کا فائدہ اٹھانے کی سوچ رہے ہیں۔ وہ عرب دنیا کو فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم کر کے‘ تنازعات میں الجھانا چاہتے ہیں۔ عرب و عجم کی مقابلہ آرائی صدیوں پرانی ہے‘ جو ہر دور میں کسی نہ کسی انداز میں کارفرما
رہی۔ پاکستان پر اللہ تعالیٰ کا کرم رہا کہ ہم اس محاذ آرائی سے لاتعلق اور محفوظ رہے۔ قائد اعظمؒ نے مسلم دنیا کے بارے میں جس پالیسی کی بنیاد رکھی تھی‘ کم از کم اس پر ہماری وزارت خارجہ نے سختی کے ساتھ عمل کیا۔ ہم مسلمانوں کے باہمی تنازعات میں ہمیشہ غیرجانبدار رہے اور کسی بھی فریق کو ناراض کرنے سے گریز کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ وزارت خارجہ کا جہاں تک بھی بس چلا‘ وہ اس پالیسی میں کسی تبدیلی کی حمایت نہیں کرے گی۔ فوج اس معاملے میں اور بھی زیادہ حساس ہے۔ اس ادارے کی قیادت کرنے والوں کو‘ اچھی طرح علم ہے کہ خدانخواستہ مذہبی عقائد کی بنیاد پر فوج کے درمیان اگر دراڑ آ گئی‘ تو یہ خود شکنی کے مترادف ہو گا۔ فوج سیاسی یا بیوروکریٹک ادارہ نہیں‘ مسلح افواج کا ادارہ ہے۔ یہاں اختلافات کے اظہار کا ذریعہ محض الفاظ نہیں ہوتا۔ بات بڑھنے لگتی ہے‘ تو دلائل سے آگے نکل سکتی ہے۔ وزارت خارجہ اور جی ایچ کیو کے ہوتے ہوئے پاکستان ‘مسلم دنیا کے باہمی جھگڑوں سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ مگر ہمیں اپنی تاریخ کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ سوویت یونین کے ساتھ ہمارا کوئی تنازعہ نہیں تھا۔ لیکن ڈالر دیکھ کر‘ ہماری آنکھیں چندھیا گئیں اور ہم کچھ دیکھے اور سمجھے بغیر سوویت یونین کے خلاف جنگ میں کود پڑے۔ ہم نے بعض جابر مسلم حکومتوں کی مدد کرنے کے لئے‘ وہاں کی عوامی تحریکوں کو دبانے میں حکمرانوں کا ساتھ دیا۔ اردن‘ سعودی عرب اور بحرین کے آزادی اور حقوق کی جدوجہد کرنے والے عوام‘ ہمیں اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرتے۔ ایک زمانے میں شام‘ عراق اور سعودی عرب کے حریت پسند عوام کی کیفیت بھی یہی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کا ساتھ دے کر ‘عوام کی رائے تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ خصوصاً شام میں انہوں نے جنگی طیارے اور انہیں اڑانے والے ماہر پائلٹ بھیج کر ‘ اسرائیل کے دانت کھٹے کر دیئے تھے۔ پاکستان کے اس کردار نے ہمارے خلاف حریت اور آزادی پسند عربوں کے جذبات میں مثبت تبدیلی پیدا کی۔ پاکستان کے عوام اور ادارے اپنے ملک کو فرقہ ورانہ تضادات کی لہر سے بچانے میںکامیاب رہے ہیں۔ حالانکہ دونوں فرقوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کی بھرپور اور لگاتار کوششیں کی گئیں۔ جس پر ہم خدا کے جتنے بھی شکرگزار ہوں‘ وہ کم ہے۔ ورنہ اتنے طویل عرصے تک ‘ اتنی دولت استعمال کرنے کے باوجود ہمارے عوام کو فرقہ ورانہ خونریزی میں دھکیلا نہ جا سکا۔ اسی باعث مجھے آج بھی یقین محکم ہے کہ ہمارے عوام اور ریاستی ادارے‘ اپنے ملک کو فرقہ ورانہ تصادم سے اسی طرح بچاتے رہیں گے‘ جیسے اب تک بچاتے آ رہے ہیں۔ اس پر میں دونوں طرف کے جید علمائے کرام کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ میرے نزدیک یہ جمہوریت کا کمال ہے کہ انتخابی ضروریات کے تحت سیاست میں حصہ لینے والے علمائے کرام کو فرقہ ورانہ یکجہتی کی ضرورت پڑتی رہی۔ انہیں ہر انتخابی مہم میں اکٹھے ہو کر عوام کے سامنے جانا پڑا۔ میں اسے ایک اور زاویئے سے بھی دیکھتا ہوں کہ فرقہ ورانہ منافرتوں سے‘ پاکستانی عوام کی نفرت ہی وہ طاقت ہے‘ جو فرقہ واریت پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ ڈالر ڈیڑھ ارب آئیں یا ڈیڑھ سو ارب‘ ہمیں مسلم دنیا کی فرقہ ورانہ تقسیم اور تصادم کے منصوبوں کے جال میں نہیں پھنسنا چاہیے۔ یہ وقت ہے کہ علمائے کرام آنے والے خطرات کو دیکھتے ہوئے‘ پاکستان میں فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور یکجہتی کے لئے منظم اور موثر مہم چلائیں اور باقی دنیا کے مسلمانوں کو بھی باہمی اخوت و محبت کے پیغامات بھیجیں۔یاد رکھنے کی بات ہے کہ باقی دنیا میں شیعہ اور سنی آبادیاں نمایاں طور پر الگ الگ ہیں۔ کہیں ایک مسلک رکھنے والوں کی اکثریت ہے‘ تو کہیں دوسرے مسلک والوں کی۔ پاکستان میں ایسا نہیں۔ یہاں ہر بستی اور ہر گلی میں شیعہ اور سنی ایک ساتھ رہتے ہیں۔ خدانخواستہ ان میں تفریق آ گئی‘ تو دونوں میں سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ فرقہ ورانہ کشیدگی سے جتنا نقصان پاکستان کا ہو سکتا ہے‘ کسی دوسرے مسلم ملک میں نہیں ہو سکتا۔ میں ایک بار پھر آنے والے خطرات کی آہٹیں سن رہا ہوں اور بار بار آپ کو سنوانا چاہتا ہوں۔