تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     01-04-2014

بچوں کے استعماری اغواکاراوربرطانوی سوشلسٹ کی موت

نومبر کی سرد صبح تھی، جب چھ سال کا ایک بچہ پیرس ایئر پورٹ اورلے(Orly) پر جہاز سے اُترا تواس کے پائوں میں چپل تھی اوراس نے گرمیوں کا ہلکا لباس پہنا ہوا تھا۔ اس بچے کو اپنی سرپرست اور نگران دادی سے چھین کر بہت سے دُوسرے بچوں کے ساتھ بحر ہندکے ایک چھوٹے سے جزیرے ریوئینو (Reuino) سے فرانس منتقل کیا جا رہا تھا،اس لیے کہ فرانس کی آبادی میں تشویشناک حد تک کمی کے آثار پیدا ہو رہے تھے اوراس کمی کی تلافی کے لیے فرانسیسی نو آبادیوں سے بچوں کو زبردستی یا دھوکے سے فرانس لاکرآبا دکرنے کی سرکاری پالیسی پر عملدرآمد شروع ہو چکا تھا۔گزشتہ ہفتے فرانس کی قومی اسمبلی نے سرکاری پالیسی کی مذمت کے لیے پہلی بار قرارداد منظورکی تو یہ سکینڈل منظر عام پر آیااوراتنے برسوں سے ہوامیں اُڑنے والی افواہ ایک مستند خبر بن کر سامنے آئی۔دُنیا بھر میں یہ دل ہلا دینے والی خبر شائع ہوئی تو پڑھنے والوں نے حیرت سے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں اور اہل فرانس کے سرشرم سے جھک گئے۔ 1963ء اور 1982ء کے درمیانی بیس برسوں میں 1615 بچوںکو مذکورہ جزیرے سے فرانس لایاگیا۔ سرکاری احکامات اور سرکاری کارندوں کے ذریعے اغواء کیے جانے والے بچوں میں سب سے کم عمر صرف چھ ماہ کا بچہ تھا جس کے غریب والدین کو یہ جھانسہ دیاگیاکہ اُن کا بچہ فرانس میں نازونعم میں پلے گا اور بہترین تعلیم حاصل کرے گا۔ والدین سے یہ جھوٹا وعدہ بھی کیاگیاکہ اُن کے بچے تعطیلات کے دوران اپنے آبائی وطن اُن سے ملنے کے لیے آتے رہیںگے۔ یہ سراسر جھوٹ تھا، ایک بھی بچہ دوبارہ اپنے والدین کی شکل نہ دیکھ سکا۔ 
جو بچے فرانس کے مقبوضہ علاقوں سے پیرس لائے گئے، اُنہیں یتیم خانوں میں رکھاگیا۔ لندن کے روزنامہ گارڈین نے ایسے بچوں کاوہ گروپ فوٹو شائع کیاجو 1965ء میں اُتارا گیاتھا۔ سب بچے خوش لباس نظرآتے ہیںاوراُن کے چہروں پر اطمینان کی جھلک دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ وہ اپنے تاریک مستقبل اور عبرتناک حشر سے بالکل بے خبر ہیں۔
یہ کالم جس بچے کے ذکر سے شروع ہوا، وہ اب 55 برس کا ہے۔ اُس کی دُکھ بھری کہانی یورپ کے ہر اخبار میں شائع ہوئی ہے جو پڑھنے والوںکی آنکھوںکو پرنم کر دیتی ہے۔ اُس نے اپنے ساتھ اغواء کیے گئے سینکڑوں دُوسرے بدنصیب بچوں کی طرف سے حکومت فرانس پر817 ملین پائونڈ (ایک بلین یورو)کے ہرجانے کا دعویٰ کیا مگر زائد المیعاد ہونے کی وجہ سے عدالتوں میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اغواء کیے گئے بچوں کی بڑی تعدادعرصے تک اس غلط فہمی کی شکاررہی کہ حکومت اُنہیں آئفل ٹاوراوردُوسرے قابل دیدمقامات کی مفت سیرکرانے کے لیے پیرس لائی ہے۔کچھ دنوںکے اندر بچوں کا یہ حسین سپنا ایک ڈرائونے خواب میں تبدیل ہوگیا۔گرم ممالک سے آئے ہوئے بچوں نے جب پہلی برفباری دیکھی تواُنہیں لگا کہ آسمان سے سفید روئی کے گالے گر رہے ہیں۔ اِن بچوں کی بڑی تعداد سے فرانس کے کھیتوں میں بیگار مشقت کرائی گئی اوران میں سے کئی امیر لوگوںکے گھروں میں ذاتی ملازم بن گئے۔کئی بچوں نے بڑے ہوکرخود کشی کر لی اورکئی ذہنی مریض بن کر پاگل خانوں کے مستقل باسی بن گئے۔
آپ یہ نہ سمجھیں کہ اس جرم کا ارتکاب صرف حکومت فرانس نے کیا، 1890ء اور 1970ء کے درمیانی عرصے میں آسٹریلوی حکومت نے آسٹریلیا کے مقامی باشندوں Aborignes کے ایک لاکھ بچے اغواء اور بھاری دام وصول کر کے نئے آباد کاروں یعنی سفید فام آبادی میں ٹافیوں کی طرح بانٹ دیے۔امریکہ اورکینیڈا کے سفید فام باشندوں نے اپنی میزبان مقامی آبادی کا جو بدترین اورناقابل بیان حشرکیا، یہ کالم نگار اُسے لکھ نہیںپارہا۔ اس انسا نیت سوزکارروائی میں برطانیہ کسی سے کیوں پیچھے رہتا؟نو آبادیاتی دور(اُنیسویں صدی) میں برطانوی حکومت نے ایک لاکھ بچوںکواغواء کر کے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ اورکینیڈاکوآبادکیا۔ سرکاری فائلوں میں اس مجرمانہ کارروائی کوChildren Home Programmeکانام دیاگیا۔ سمجھ نہیں آتی کہ بظاہر یہ معصوم اوربے ضرر نام پڑھ کر ہنسا جائے یا رویا جائے۔
آپ نے برطانوی حکومت کے شیطانی کردارکے ایک رُخ کے بارے میں پڑھ لیا مگر ہر تصویرکا روشن رُخ بھی ہوتا ہے۔ عوام دوستی کا یہ رخ جن بااُصول اور نیک دل لوگوں کی صورت میں اُجاگر ہوا اُن میں ایک بڑا نام انتھونی بین ہے جو 1925ء میں پیدا ہوئے اور 14 فروری2014ء کو دُنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔ 15 فروری کو ہر برطانوی اخبارکے پہلے صفحے پر پائپ کا دُھواں اُڑاتے ہوئے اس فرشتہ صفت شخص کی تصویراورتعزیتی مضمون شائع ہوا۔اُردوادب پڑھنے والے اُس طویل اور منظوم مرثیے سے واقف ہوں گے جو الطاف حسین حالیؔ (ہمارے محترم بزرگ ڈاکٹر مبشر حسن صاحب کے جدّ امجد) نے غالبؔ کی وفات پر لکھا۔میں صرف ایک شعر لکھنے پراکتفاکرتا ہوں ؎
ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
شہر میں اک چراغ تھا نہ رہا 
حالی ؔکا یہ شاہکار مرثیہ آنجہانی انتھونی بین پربھی صادق آتا ہے۔1960ء کی دہائی میں ویت نام سے لے کر عراق پر امریکی جارحیت کے خلاف لندن میں ہراحتجاجی مظاہرے کی قیادت اُنہوں نے کی۔برطانیہ میں47 سال کے طویل قیام کے دوران میں نے ہر احتجاجی مظاہرے میں اس لیے بھی شرکت کی کہ شاید انتھونی بین سے ملاقات ہوجائے،اس معاملے میں صرف تین بارخوش قسمتی نے میرا ساتھ دیا۔وہ ہر باربڑی محبت،انکساری اور اپنائیت سے پیش آئے۔اقبالؔ کے الفاظ میںوہ ایسے میرکارواں تھے جن میں دُوسری خوبیوں کے علاوہ خوئے دلنوازی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
وہ بیسیویں صدی کے آخری نصف حصے کی تاریخ میں سوشلسٹ اور بائیں بازوکی سیاست کے سب سے جانے پہچانے کردار تھے۔ پارلیمنٹ کے نصف صدی سے زائد عرصہ رُکن رہے، وہ جب دارالعوام کے پہلی بار رُکن چنے گئے تو صرف تین سال بعد ایسا واقعہ ہوا جس نے برطانوی سیاست اور برطانوی آئین کا رُخ بدل دیا۔اُن کے والدجو ہائوس آف لارڈزکے رُکن تھے،انتقال کرگئے۔ برطانیہ کے ایک ہزار سال پرانے قانون کے تحت اُن کے بڑے بیٹے کو ورثے میں ہائوس آف لارڈز کی رُکنیت مل گئی۔ ماتمی رسومات سے فارغ ہوکر انتھونی بین دارالعوام کے اجلاس میں شرکت کے لیے آئے توانہیں دربان نے اندرجانے سے رُوک دیاکیونکہ ایوان بالاکاکوئی رُکن ایوان زیریں میں داخل ہونے اور ارکان کی نشستوں پر بیٹھنے کا مجازنہیں ہوتا۔ سپیکر نے اُن کی نشست خالی قرار دے دی تھی جس کا مطلب ہے کہ ضمنی انتخاب ہوناطے پاچکا تھا۔انتھونی بین ملکہ برطانیہ کو خط لکھ کر ہائوس آف لارڈزکی موروثی نشست سے مستعفی ہوگئے،دوبارہ بھاری اکثریت سے منتخب ہوئے مگر دارالعوام میں ان کاداخلہ بدستور ممنوع رہا۔ایک بار پھر ضمنی انتخاب کرانا پڑا،اس دفعہ ان کے مقابلے میں کسی نے کاغذات نامزدگی جمع نہ کرائے،آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ کتنے زیادہ ووٹ لے کرالیکشن جیتے۔اس سے پہلے کہ وہ دارالعوام میں داخل ہونے کی تیسری کوشش کرتے، برطانوی حکومت نے آناًفاناً ایک نیا قانون منظورکرالیا جس میں(ہزارسال میں پہلی بار) ایک شخص کو ہائوس آف لارڈزکی موروثی نشست سے مستعفی ہونے کا حق دیا گیا۔
انتھونی بین دوبارہ کابینہ کے رُکن بنائے گئے۔ایک زمانے میں دائیں بازوکے اخبارات اُنہیں برطانیہ کا سب سے خطرناک آدمی قرار دیتے تھے۔اگروہ امریکہ کے اتنے شدید مخالف نہ ہوتے تو زیادہ امکان تھاکہ لیبر پارٹی کے لیڈربن کر وزیراعظم بن جاتے۔اپنی پارٹی کا لیڈر بن جانا تو درکنار ،وہ ڈپٹی لیڈرکا الیکشن بھی دوبار ہارگئے مگران شکستوں سے ان کی امریکہ مخالفت میںکوئی فرق نہ آیا۔
بدقسمتی سے برطانوی سوشلسٹ ہندوستان اوراسرائیل کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انتھونی بین نے آج تک کشمیر پر ہندوستان کے غاصبانہ قبضہ کی مذمت نہ کی۔ مسز اندرا گاندھی نے آئین معطل کر کے ایمرجنسی لگائی تو وہ خاموش رہے۔ ہندوستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو دھماکوں کی آواز نہ سننے کی خواہش اُن پر غالب آئی اورانہوں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی۔ جب پاکستان نے جوابی ایٹمی دھماکے کیے توکھل کر مذمت کی۔ یہی وجہ ہے کہ میں ان کی قبر پر پھول رکھنے نہیں جائوں گاا وردل پر (جو انتھونی بین کی محبت سے بھرا ہوا ہے) پتھر رکھ لوں گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved