تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     01-04-2014

کرکٹ کا بخار اور ’’خار‘‘

ایک بار پھر قوم کرکٹ کے بخار میں مبتلا ہے۔ ویسے یہ بخار والی بات کچھ مدت یا چند برس پہلے تک اچھی اور بر وقت لگتی تھی۔ اب کرکٹ بخار سے کہیں بڑھ کر ''خار‘‘ کا معاملہ ہے! جو ممالک ایک دوسرے کو ایک پل کے لیے برداشت کرنے کو تیار نہیں یا کوئی ایک فریق دوسرے کو شدید ناپسند کرتا ہے وہ کرکٹ یا کسی اور کھیل کے میدان میں فتح کے ذریعے دِل کی تشفّی چاہتا ہے۔ 
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ چل رہا ہے۔ اِس وقت کرکٹ کے بُخار کا یہ عالم ہے کہ قوم کو کچھ اور نہیں سُوجھ رہا۔ پہلے تو ہم یہ سمجھے تھے کہ شاید دیگر عوارض اور وباؤں نے ''اسٹے‘‘ لے لیا ہے یا عدالت نے ''استثنیٰ‘‘ سے نواز دیا ہے مگر اب اندازہ ہوا کہ عدالت کو تو بیچ میں آنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ قوم نے خود ہی کرکٹ کو پوری طرح اپناکر دیگر تمام وباؤں کو پندرہ بیس دن کی جبری رخصت پر بھیج رکھا ہے! 
ٹورنامنٹ کا پہلا میچ ''یارِ جانی‘‘ بھارت سے ہارنے کے بعد آسٹریلیا سے میچ میں پوری قوم کی جان لبوں پر آئی ہوئی تھی۔ ہارنے کی صورت میں وہیں سے واپسی کا سفر شروع ہوچکا ہوتا۔ یہ میچ کیا جیتے، دم میں دم آگیا، جاں میں جاں آگئی۔ امکانات کی بَتّی بجھتے بجھتے بچی۔ قوم ایک بار پر تازہ دم ہوکر ٹیم کو سراہنے اور چاہنے لگی۔ ایک ہفتے کے وقفے سے جب بنگلہ دیش کو شکست دی تو معاملہ یہ ہوا کہ قوم جُھوم جُھوم کر ناچنے لگی۔ 
سابق مشرقی پاکستان کے باشندوں نے پاکستان سے الگ ہوکر بنگلہ دیش بنایا۔ اُصولی طور پر پاکستانیوں کو بنگلہ دیش اور اُس کے باشندوں سے شدید نفرت ہونی چاہیے مگر تماشا یہ ہے کہ بنگلہ دیشیوں کے دِلوں میں پاکستان سے نفرت بھر دی گئی ہے جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ یہ ساری خرابی بنگلہ دیش بنانے کی ذمہ دار عوامی لیگ کی پیدا کردہ ہے۔ عوامی لیگ کے سربراہ اور بنگلہ دیشیوں کے نام نہاد بابائے قوم شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کو پاکستان کا نام سُننا بھی گوارا نہیں۔ بھارت نوازی کی تمام حدیں پار کرجانے والی حسینہ واجد نے پوری قوم کو پاکستان کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ کرکٹ نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ کل تک بھارت کٹّر اور ازلی حریف تھا مگر اب بنگلہ دیش کے ساتھ میچ میں بھی مخاصمت اور کشیدگی ہی کا رنگ جھلکنے لگا ہے۔ پاکستانیوں نے بنگلہ دیش کو برادر اسلامی ملک کے روپ ہی میں دیکھا اور قبول کیا ہے۔ حسینہ واجد یہ بھی بھول گئیں پاکستان نے بنگلہ دیش کو اُس کے قیام کے محض سوا دو سال بعد قبول کرکے شیخ مجیب الرحمن کو لاہور میں 22 فروری 1974 ء کو منعقد کی جانے والی اسلامی سربراہ کانفرنس میں مَدعو کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے شیخ مجیب الرحمن کو گلے لگاکر جن باتوں کو بُھلانے کی کوشش کی تھی حسینہ واجد وہ سب کچھ 43 سال بعد بھی بُھول نہیں پائی ہیں۔ لیڈر کے کوتاہ بین ہونے کی صورت میں بین الریاستی تعلقات کے داؤ پر لگ جانے کی یہ ایک انتہائی واضح اور روشن مثال ہے۔ 
بات ہو رہی ہے کرکٹ کی۔ عوامی لیگ کی حکومت نے بنگلہ دیشیوں کے دِلوں میں پاکستانیوں کے لیے ایسی نفرت بھر دی ہے کہ اب وہ پاکستانی ٹیم کو بھی ازلی دشمن کے روپ میں دیکھنے لگے ہیں۔ ایشیا کپ کے میچ میں شاہد آفریدی کے چَھکّوں پر بنگلہ دیشی لڑکیوں کا بے بسی سے اُچھل اُچھل کر رونا جلتی پر مزید تیل چھڑک گیا۔ اب بنگلہ دیشی کے شائقین پوری پاکستانی ٹیم کو ازلی دشمن سمجھتے ہیں۔ اتوار 30 مارچ کو پاکستان کے خلاف ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میچ میں بنگلہ دیشی تماشائیوں نے پاکستانی ٹیم کو پھر دشمن کی نظر سے دیکھا۔ قومی ٹیم کے لیے بھرپور گرم جوشی کا مظاہرہ فطری حقیقت ہے مگر کھیل کو نفرت کی حد تک لے جانا کسی طور درست نہیں۔ 
جب معاملہ یہ ہو تو فریق ثانی بھی لاتعلق تو نہیں رہ سکتا۔ بنگلہ دیش کے خلاف میچ والے دن پاکستانیوں کا جوش و خروش بھی قابل دید تھا۔ کیوں نہ ہوتا؟ اِس میچ میں فتح ہی سے تو ٹورنامنٹ میں پاکستانی ٹیم کے امکانات وابستہ تھے۔ جب میچ پوری طرح ہاتھ میں آگیا اور تقریباً طے ہوگیا کہ اب صرف فتح ممکن ہے تو قوم عجیب سَرمستی سے سرشار ہوگئی۔ 
لاہور میں ایک حجام نے شیو بناتے ہوئے گاہک کے ''رخسارِ محترم‘‘ پر ٹی وی اسکرین کو ترجیح دی۔ اُسن دن احمد شہزاد کی بیٹنگ کے دوران شیو کرنا اور شیو کرانا واقعی امتحان تھا! اب عالم یہ تھا کہ حجام کا اُسترا گاہک کے گال پر ٹِکا ہوا تھا اور نظر ٹی وی اسکرین پر جمی تھی۔ احمد شہزاد نے جم کر ایک چوکا لگایا تو حجام بھی خوشی سے جُھوم اُٹھا اور وجد کی اِس کیفیت میں اُسترا کِھسکا اور گاہک کے گال پر ''اسکوائر کٹ‘‘ لگ گیا! 
اگر آپ نے کبھی شیو بنوائی ہو اور کٹ لگ جائے تو آپ کی کیا حالت ہوتی ہے؟ شیو بنانے والے کی پٹائی، بلکہ ٹھکائی کرنے کو جی چاہتا ہے۔ مگر کرکٹ کے نشے نے لاہور کو بچالیا۔ کٹ لگنے پر گاہک ابھی پیچ و تاب کے عالم ہی میں تھا کہ احمد شہزاد نے ایک چوکا جڑ دیا۔ اِس پر دُکان میں اُس کے باہر ایسا شور اُٹھا کہ گاہک بھی خوشی سے جُھوم اُٹھا اور اِسی جذب و مستی کے عالم میں اُس نے حجام کو اپنے رُخسار کا ''خون‘‘ معاف کردیا! 
کاش جذب و مستی کی یہ ملی جلی کیفیت برقرار رہے اور ہم ایک دوسرے کو نادانستگی میں لگنے والے ''کٹ‘‘ یوں ہی معاف کردیا کریں! شادمانی کے عالم میں اِنسان کسی بھی تکلیف کو ہنستے ہوئے برداشت کرلیتا ہے۔ بنگلہ دیش کے خلاف فتح نے بھی قوم کو پھر تازہ دم کردیا ہے۔ پہلے صرف بھارت حقیقی حریف تھا۔ بنگلہ دیش چونکہ بھارت کے لے پالک کی حیثیت اختیار کرگیا ہے اِس لیے اُصولی طور پر ہمارا حریف ہے۔ قوم نے بنگلہ دیش کے خلاف فتح کو پوائنٹس ٹیبل پر بہتر پوزیشن کے حصول کے ذریعے سے بڑھ کر بھارت کے دوست کی شکست کے روپ میں لیا ہے۔ یوں خوشی دوبالا ہوگئی۔ 
اِن تمام باتوں کے باوجود اچھا ہے کہ کرکٹ کو صرف کھیل رہنے دیا جائے۔ اِس کے بطن سے خوشی ضرور جنم لے مگر کوئی تنازع تو پیدا نہ ہو۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات کو بگاڑنے میں شیخ حسینہ واجد کے رویّے نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ محترمہ نے کرکٹ کو بھی نفرت اور مخاصمت بڑھانے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ میچ کے دوران سٹیڈیم میں بنگلہ دیشیوں کو کسی اور ملک کا پرچم لہرانے سے روکنے کا حکم نامہ بھی پاکستان پر خار اُتارنے ہی کا ایک ذریعہ تھا۔ جس طرح لاہور میں گاہک نے حجام پر اپنا ''خون‘‘ معاف کیا تھا اُسی طرح حسینہ واجد کو پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک قدم آگے جاکر ماضی کی تلخ یادوں سے چھٹکارا پالینا چاہیے۔ وقت آگیا ہے کہ ماضی کی ہر تلخ یاد کو ایک قدم آگے بڑھ کر، ''ہاف وولی‘‘ بناتے ہوئے اسٹیڈیم سے باہر پھینک دیا جائے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved