تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     02-04-2014

لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بے ننگ و نام ہے

کاش اس ملک کے رہنمائوں‘ حکمرانوں‘ دانشوروں اور صاحبانِ علم میں سے کوئی ہوتا جو اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی اور برطانیہ کے سابق وزیر اعظم گورڈن برائون کو آئینہ دکھاتا۔ اسے یاد دلاتا کہ تم لوگوں نے اپنے گھر تو تباہ کر لیے‘ اپنے معاشروں میں شادی کو ایک معاشرتی اور معاشی بوجھ بنا کر پیش کیا‘ اس مقدس ادارے کی بنیادوں اور ہیئتِ ترکیبی کو مذاق بنایا‘ عورت کو گھر سے محبت چھڑا کر کیریئر کی سیڑھیوں پر چڑھایا‘ جنسی تلذذ کو پورے تعلقات کا محور بنا کر اولاد کی پرورش کو ثانوی بلکہ ادنیٰ حیثیت پر پہنچایا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مفکرین‘ نفسیات دانوں اور ماہرینِ معاشرت نے شادی کو معاشی طور پر مستحکم‘ معاشرتی طور پر ذمہ دار اور ذہنی طور پر بلوغت کی معراج پر پہنچنے سے منسلک کر دیا۔ ہر کسی نے دیر سے شادی کو کامیابی کی ضمانت قرار دیا: برٹرینڈ رسل جیسے فلسفی نے پینتیس سال سے قبل شادی کرنے کے نقصانات پر دلائل کے انبار لگا دیے۔ شادی کی تیاریوں میں ایک دوسرے کو جاننے‘ قربتوں کے سفر پر نکلنے اور ہو سکے تو جسمانی تعلق سے بھی ایک دوسرے کی چاہت کو پرکھنے کو لازمی قرار دیا گیا بلکہ شادی کے لیے لکھی جانے والی رہنما کتابوں میں اس دور کو ایک سنہرا دور قرار دیا گیا ہے جسے وہ ''Courtship‘‘ کہتے ہیں۔ اس کی یادوں کو ایسا افسانہ بنایا گیا جو شادی کے تلخ ایام میں بھی رہ رہ کر یاد آئے۔ اس سارے ماحول میں عین عالمِ شباب میں شادی کو ایک احمقانہ فعل بنا کر رکھ دیا گیا۔ آدمی کو معاشی جدوجہد اور معاشرتی مقام کے جھنجھٹ میں الجھا کر ایک انفرادی دوڑ میں لگا دیا۔ مرد ہو یا عورت‘ ہر کوئی پہلے کیریئر کی بلندیوں پر پہنچنے‘ معاشی طور پر مضبوط ہو اور اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے پر توجہ مرکوز کرے اور جب یہ منزلیں طے ہو جائیں تو شادی کی طرف آئے۔ اس دوران اس کی جسمانی ضروریات کے لیے وہ تمام اخلاقی معیارات ختم کر دیے گئے جو انسانی تہذیب نے صدیوں سے اپنائے ہوئے تھے۔ کم سنی یا نوجوانی کی شادی تو ختم ہو گئی بلکہ بہت حد تک شادی ایک معمولی سا تعلق بن کر رہ گئی مگر اس طرح ان معاشروں کے ساتھ جو بیتی‘ وہ ایک تاریخی انسانی المیہ ہے۔ انسان کی جبلی خواہشات پر پابندی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورا مغرب ایسی مائوں سے آباد ہو گیا جو کم سن تھیں‘ انہوں نے شادی نہیں کی تھی مگر ان کی گود میں بچے تھے۔ 
امریکہ کے شہر نیویارک میں اقوام متحدہ کا ہیڈکوارٹر ہے اور اس ادارے کا خصوصی ایلچی گورڈن برائون یہ اعلان کرتا ہے کہ ہم پاکستان میں ایسے علاقے مخصوص کریں گے جہاں کم عمری کی شادیاں نہ ہوں۔ اسی امریکہ میں ان کم سن مائوں کے اعدادوشمار پر نظر دوڑائیں تو روح کانپ اٹھتی ہے۔ صرف ایک سال کے اعدادوشمار ہی پورے معاشرے کی کیفیت کا احاطہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ سرکاری طور پر اکٹھے کیے جاتے ہیں اور The Alan guttmacher institute اسے ہر سال اپ ڈیٹ کرتا ہے۔ اس وقت 2002ء کے اعدادوشمار میسر ہیں۔ اس سال امریکہ میں سات لاکھ پچاس ہزار بچیاں یعنی جن کی عمر 18 سال سے کم تھی‘ حاملہ ہوئیں۔ ان میں سے چار لاکھ 25 ہزار بچیوں نے اولاد کو جنم دیا۔ دو لاکھ پندرہ ہزار نے اسقاطِ حمل کروایا اور ایک لاکھ دس ہزار کے حمل ضائع ہو گئے۔ ان کم عمر کی بچیوں میں سے 20 فیصد ایسی تھیں جو اس سے پہلے ایک بچے کی ماں بن چکی تھیں اور 25 فیصد ایسی تھیں جو اس عمر سے پہلے دو بچے جنم دے چکی تھیں اور یہ تیسرا تھا۔ ان میں سے 90 فیصد بچیاں وہ تھیں جن کے ہاں اولاد شادی کے مقدس بندھن میں بندھے بغیر ہوئی اور غیر شادی مائیں سب 17 سال سے کم تھیں۔ ان میں سے 75 فیصد مائوں کے عشاق نے انہیں پانچ سال سے کم عرصے میں چھوڑ دیا۔ بچہ پیدا کرنے کی وجہ سے یہ تعلیم چھوڑ کر گھر آ بیٹھی تھیں‘ اس لیے ان کو ریاست کی رفاہی امداد کا سہارا لینا پڑا۔ ان کم سن مائوں کے خاوند عموماً ناکام عاشق‘ بے کار یا بہت کم کمانے والے ہوتے ہیں۔ صرف ایک ریاست کیلیفورنیا کا ان کم سن مائوں کو مستقل مدد دینے پر سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر خرچ آتا ہے۔ پوری ریاست میں ان مائوں اور بچوں کے پیدائش کے خرچے‘ ہسپتال کے اخراجات اکٹھے کیے جائیں‘ جن میں ان مائوں کی نوکری چھوٹنا بھی شامل ہے تو کل سالانہ خرچہ ساڑھے تین ارب ڈالر بنتا ہے۔ صرف ایک چھوٹے سے شہر اورنج کاونٹی کا بوجھ دو کروڑ 23 لاکھ ہے۔ میں اعدادوشمار سے تحریر کو بوجھل نہیں کرنا چاہتا‘ ورنہ یورپ کے کسی بھی ''مہذب‘‘ اور ترقی یافتہ کہلانے والے ملک کے سرکاری ذرائع سے حاصل کی گئی معلومات اٹھا لیں تو نقشہ امریکہ سے مختلف نہ ہو گا۔ خود گورڈن برائون کا اپنا ملک برطانیہ کم سن مائوں اور خصوصاً غیر شادی شدہ مائوں کے معاملے میں پورے یورپ میں سرفہرست ہے۔ 
آپ نے قانون بنا دیے‘ آپ کے ہاں قانون پر سختی سے عمل بھی کروایا جاتا ہے لیکن انسان کی جبلّی ضروریات نے تو راستہ نکالنا تھا۔ اس نوجوان نسل نے شادی کے مقدس‘ اہم اور معاشرتی طور پر تسلیم شدہ ادارے پر لعنت بھیجی اور بغیر شادی بچے پیدا کرنا شروع کر دیے۔ کیا ان سے اخراجات میں کمی آ گئی؟ کیا ان سے صحت کے معیارات بلند ہو گئے؟ کیا اس سے انسانوں میں معاشرتی ذمہ داری بڑھ گئی؟ نہیں جناب نہیں‘ بلکہ ہوا یہ کہ وہ سب کچھ ہوا جو شادی سے وابستہ تھا لیکن بقول مغربی دانشوروں کے ''وہ شادی کے نفسیاتی‘ معاشی اور معاشرتی ذمہ داریوں کے بوجھ سے آزاد رہا‘ کیونکہ وہ اسے اٹھانے کے قابل نہ تھا‘‘ لیکن حیرت ہے ان مسلمان معاشروں کے معاشی‘ طبی اور معاشرتی ماہرین پر جو اسلام کا بنیادی فلسفہ نہیں سمجھ پائے۔ اسلام اس معاشرے میں ایک احساس ذمہ داری کے تصور کو اجاگر کرتا ہے اور پورے معاشرے کو اس کا پابند بناتا ہے۔ اس کے نزدیک ہر جنسی تعلق شادی کے رشتے سے وابستہ ہے تاکہ پوری دنیا کو علم ہو کہ سب تمہاری ذمہ داری ہے۔ اسلام اگر عدل کے ساتھ دوسری شادی کی اجازت دیتا ہے تو معاشرے میں چوری چھپے آشنائیوں‘ طوائفوں اور رکھیلوں سے خفیہ تعلقات سے منع کرتا ہے اور پھر مرد کو ذمہ داری کے طوفان میں لا کھڑا کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اتنے مرد بنتے ہو تو لائو اپنی معشوقہ کو اپنے گھر‘ شادی کرو اور پھر انصاف بھی کرو اور 'اگر تم نے انصاف نہ کیا تو قیامت کے دن تمہیں آدھے دھڑ سے اٹھایا جائے گا‘ (مفہومِ حدیث)۔ اسلام نے اگر جنگ میں لونڈی رکھنے کی اجازت دی تو وہ بھی اس لیے کہ جس اللہ نے مرد کو پیدا کیا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کی جبلت کیا ہے۔ دنیا کی کون سی ایسی جنگ ہے جس میں لاکھوں کروڑوں عورتیں جنسی تشدد کا نشانہ نہ بنی ہوں اور پھر دنیا بھر میں طوائفوں کی طرح بیچی نہ گئی ہوں۔ صرف جنگِ عظیم دوم کے بعد کی تعداد گن لی جائے تو انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ جنگ میں جو عورت تمہارے ہاتھ آئے‘ نہ تم اس سے جنسی زیادتی کر سکتے ہو اور نہ ہی اسے طوائف کی زندگی گزارنے پر مجبور کر سکتے ہو۔ اتنا شوق ہے تو لائو اسے اپنے گھر اور پھر شرائط دیکھو: جو خود کھاتے ہو‘ وہ اسے کھلائو‘ جو خود پہنتے ہو‘ اسے پہنائو۔ لیکن اس کے باوجود بھی ہم کس قدر ظالم ہیں کہ والدین کم سن بچوں کی بے راہ روی برداشت کرتے ہیں لیکن شادی نہیں کرتے‘ بیویاں اپنے خاوند کی گرل فرینڈ اور رکھیل برداشت کرتی ہیں‘ سوکن نہیں اور جنگوں کی تباہی سے جنس کے بازار سجاتے ہیں‘ گھر لا کر اسے پناہ نہیں دیتے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved