سابق صدر کا معاملہ عدالت میں ہے‘
وہی فیصلہ کرے گی...نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''سابق صدر کا معاملہ عدالت میں ہے‘وہی فیصلہ کرے گی‘‘اگرچہ ایک تاثر یہ ابھرا ہے کہ وہ کہیں بھی جا سکتے ہیں اور حکومت کو ان کے ای سی ایل والے معاملے پر نظر ثانی کرنی چاہیے اس لیے اب حکم کے مطابق اس پر نظرثانی کرنا ہی پڑے گی جبکہ کچھ اور دوستوں کا بھی یہی خیال ہے کہ بہت ہو گئی ہے‘ اب جاتی کریں اور ہم دوستوں کے جذبات کا ہمیشہ خیال رکھتے ہیں‘ اگرچہ دوست بسا اوقات ہمارا خیال نہیں رکھتے اور ہماری جگہ خود آ موجود ہوتے ہیں‘ اور ‘پیشتر اس کے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا دے‘ اس سلسلے میں مناسب فیصلہ کر لینا چاہیے کیونکہ ایک طرف دہشت گردوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے اور جنگ بندی میں تاحال توسیع سے بھی گریز کر رہے ہیں‘اوپر سے دوستوں کو دشمن بنا لینا کوئی عقلمندی نہیں ہو گی جو ہم میں ماشاء اللہ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔آپ اگلے روز وفاقی وزیر داخلہ سے ملاقات کر رہے تھے۔
مشرف نے معافی کی درخواست دی تو وزیر اعظم کی سفارش پر عمل کروں گا ...صدر ممنون
صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ ''مشرف نے معافی کی درخواست دی تو وزیر اعظم کی سفارش پر عمل کروں گا‘‘ اگرچہ معافی کا مرحلہ سزایابی کے بعد ہی آئے گا‘ تاہم ملزم کی حوصلہ افزائی مقصود ہے تاکہ وہ کہیں دل ہی نہ چھوڑ دے۔انہوں نے کہا کہ ''ایسے معاملات میں وزیر اعظم جو تجویز کرتے ہیں‘ اس پر عمل کرتا ہوں اور وہی راستہ اختیار کرتا ہوں‘‘ حالانکہ میرے پاس راستے تو بہت ہیں لیکن ان پر چل نہیں سکتا جبکہ وزیر اعظم کے پاس ایک ہی راستہ بچا ہے اور وہ چل بھی اسی پر سکتے ہیںکیونکہ ان کے لیے اپنی مرضی کا راستہ یہی تھا جس پر وہ جس حد تک چل سکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''آئین میں جو لکھا ہے اس پر عمل کیا جائے گا‘‘اگرچہ آئین میں تو آئین شکنی کی سزا بھی مقررہے لیکن اب تک آئین پر کافی عمل ہو چکا ہے اور اس پر زیادہ عمل کر کر کے اس کا ناک میں دم کرنا بھی مناسب نہیں ہے اور اسے تھوڑی دیر آرام اور فراغت مہیا کرنی چاہیے تاکہ یہ تازہ دم ہو سکے تاوقتیکہ دوبارہ عمل کروانے کے قابل ہو جائے۔آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کر رہے تھے۔
فرد جرم عائد کرنے کا دن پاکستان میں سنہرے دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا...پرویز رشید
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''مشرف پر فرد جرم عائد کرنے کا دن پاکستان میں سنہرے دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا‘‘اور چونکہ ہمارے گزارے کے لیے یہ ایک دن ہی کافی ہے کیونکہ ہم زیادہ لالچ کرنے کے عادی نہیں ہیں‘ اس لیے اب یہ معاملہ خوش اسلوبی سے نمٹایا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ''سب کچھ آئین کے مطابق ہو گا کیونکہ پاکستان ٹمبکٹو نہیں ہے‘‘اگرچہ بعض معاملات میں یہ ٹمبکٹو سے بھی چار ہاتھ آگے ہو سکتا ہے کیونکہ ہم مسابقت میں یقین رکھتے ہیں اور کبھی ٹمبکٹو سے آگے ہو جاتے ہیں کبھی پیچھے‘اس لیے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ہماری چال اور رفتار پر نظر رکھنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''بلاول بھٹو زرداری کو دھمکی ہم پاکستان کو دھمکی قرار دیتے ہیں‘‘اور اسے بھی انہی دھمکیوں میں سے سمجھتے ہیں جو طالبان نے ہمیں دے رکھی ہیں‘ جنہیں بہلانے پھسلانے کی پر زور کوششیں کی جا رہی ہیں۔ آپ اگلے روز پارلیمنٹ ہائوس میں سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔
چھوٹے کاشتکاروں کے حقوق کا
تحفظ کیا جائے گا...شہباز شریف
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''چھوٹے کاشتکاروں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا ‘‘جبکہ بڑے کاشتکاروں کے حقوق کا تحفظ پہلے ہی کیا جا چکا ہے اور ماشاء اللہ کوئی بھی ٹیکس نہیں دیتا بلکہ اسی طرح بڑے صنعت کاروں کے حقوق کا تحفظ بھی مکمل طور پر کیا جا چکا ہے جو اپنی مرضی سے ہی ٹیکس دیتے ہیں اور جو بھی دیتے ہیں‘شکریے کے ساتھ قبول کرلیا جاتا ہے کیونکہ اگر وہ اتنا بھی نہ دیں تو بھی درگزر سے ہی کام لینا پڑتا ہے کیونکہ شوگر ملوں سمیت اکثر بڑی صنعتیں ارکان حکومت ہی کی ملکیت ہیں اور آج تک اپنے پائوں پر کلہاڑی کسی نے نہیں ماری۔انہوں نے کہا کہ ''مقرر کردہ نرخوں پر کاشتکاروں سے گندم کی خریداری یقینی بنائی جائے گی۔‘‘اگرچہ ہماری تاریخ میں ایسا معجزہ کبھی رونما نہیں ہوا اور کاشتکاروں کو ریٹ کم ہی ملتا ہے لیکن ہمارے کاشتکار اللہ کے فضل سے قناعت پسند واقع ہوئے ہیں اور ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں کبھی دل پر نہیں لاتے۔آپ اگلے روز لاہور میں گندم کی خریداری کے سلسلے میں منعقدہ اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
آئین مشرف کو باہر بھجوانے کی
اجازت نہیں دیتا...خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ''آئین مشرف کو باہر بھجوانے کی اجازت نہیں دیتا‘‘کیونکہ ان کا نام ای سی ایل پر ہے البتہ اگر اس میں سے نکال دیا جائے تو آئین اس میں رکاوٹ نہیں بنتا کیونکہ ہم آئین کی عملداری کے لیے ہی بیٹھے ہیں اور بڑے بڑے اداروں کے سربراہ بھی مقرر نہیں کر رہے کہ کہیں اس سے آئین پر حرف نہ آ جائے اور اگر ان کے قائم مقام حضرات ہی اپنے فرائض خوش اسلوبی سے ادا کر رہے ہیں تو کوئی کام خلاف قانون کرنے کا خطرہ کیوں مول لیا جائے۔انہوں نے کہا کہ ''حکومت پر کوئی دبائو ہے نہ فوج سے کوئی اختلاف‘‘ جبکہ فوج سے اختلاف کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔انہوں نے کہا کہ ''اگر ایک بار پھر شب خون مارا گیا تو ملک نہیں بچے گا‘‘ اور امید ہے کہ یہ دھمکی اپنا اثر دکھائے گی‘ اگرچہ یہ دھمکیوں کا زمانہ نہیں ہے بلکہ شرافت سے اپنا وقت پورا کرنے کا ہے۔آپ اگلے روز قومی اسمبلی میں خطاب کر رہے تھے۔
آج کا مطلع
جب سے مولا علی کے گائوں میں ہوں
چادرِ فاطمہ کی چھائوں میں ہوں