تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     02-04-2014

ایک المناک سانحہ

31 مارچ کو روزنامہ 'دنیا‘ میں ایک روح فرسا خبر شائع ہوئی جسے پڑھنے کے بعد دماغ سن ہو گیا اور روح پر اداسی طاری ہو گئی۔ خبر کیا تھی معاشرے کی اخلاقی حالت کی ایک المناک تصویر تھی۔
خبر کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ گوجرانوالہ کے ایک شخص نے چند برس قبل لاہور کی ایک خاتون سے شادی کی۔ کچھ عرصہ بعد خاتون کو شک ہوا کہ اس کے شوہر کے اس کی چھوٹی بہن کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں۔ تحقیق اور جانچ پڑتال کے بعد بڑی بہن کو معلوم ہوا کہ اس کا شک بلاجواز نہ تھا۔ خاتون نے اپنے والدین سے اپنے شوہر اور بہن کی شکایت کی تو والد نے اپنی چھوٹی بیٹی کو ڈانٹا ڈپٹا لیکن وہ ہٹ دھرمی پر تل گئی۔ چار ماہ قبل وہ لڑکی اپنے گھر سے فرار ہو کر گوجرانوالہ پہنچ گئی۔ بجائے اس کے کہ بہنوئی اپنی سالی کو اس کے والدین کے گھر واپس بھیجتا ‘اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے کر اپنے سسرال روانہ کر دیا۔
بیٹی کی طلاق کا واقعہ کسی سانحے سے کم نہ تھا‘ ستم بالائے ستم یہ کہ بدچلن داماد نے دوسری بیٹی سے شادی کر لی۔ اس افسوسناک واقعہ کے بعد والد نے داماد کے خلاف زنا کا پرچہ درج کروایا اور پولیس نے اس شخص کو گرفتار کر لیا۔ اسی اثنا میں اپنی بہن کا گھر اجاڑ کر اپنے بہنوئی سے شادی کرنے والی لڑکی سیشن کورٹ میں بیان دینے کے لیے پہنچ گئی کہ اس نے اپنی رضامندی کے ساتھ اپنے بہنوئی سے شادی کی ہے۔ سیشن کورٹ کے احاطے میں ہی لڑکی کے بھائی نے غصے میں آ کر اپنی بہن پر گولیا ں چلا دیں اور موقع سے فرار ہو گیا۔ لڑکی کو زخمی حالت میں میو ہسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکی۔ گرفتار شخص کے چچا نے لڑکی کے بھائی کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کروایا۔ پولیس قاتل بھائی کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی ہے لیکن تاحال وہ بازیاب نہیں ہو سکا۔
غیرت کے نام پر قتل کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ ہم اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں آئے روز اس طرح کے واقعات دیکھتے‘ سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں۔ بہت سی کوششوں کے باوجود ابھی تک ان واقعات پر قابو نہیں پایا جا سکا۔
سماجی اور مذہبی سطح پر ہمیشہ غیرت کے نام پر قتل کی مذمت کی جاتی ہے لیکن جب تک ان اسباب کا جائزہ نہیں لیا جائے گا‘ جو غیرت کے نام پر قتل پر منتج ہوتے ہیں‘ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ غیرت کے نام پر قتل کا بڑا سبب خاندان کی کسی عورت کا غیر مرد سے تعلقات استوار کرنا یا ناجائز تعلق کا شبہ ہوتا ہے‘ جو کئی مرتبہ لڑکی کے محرم رشتہ داروں کے لیے ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ اس جذباتی کیفیت پر قابو پانا گو ہر ذی شعور شخص کے لیے ضروری ہے لیکن بہت سے لوگ معاشرے میں اپنی عزت کو داؤ پر لگتے ہو ئے دیکھ کر اپنی اس نفسیاتی کیفیت پر قابو پانے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔
اگر قبل از وقت بعض احتیاطی تدابیر پر عمل کر لیا جائے‘ تو اس قسم کی کیفیت سے دوچار ہونے کے خدشات بہت کم اور بعض صورتوں میں نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔
پہلی احتیاطی تدبیر یہ ہے کہ عورتوں کے والدین اور سرپرستوں کو چاہیے کہ عورت کے معقول پردے کا انتظام کریں۔ اگر عورت باحجاب ہو گی تو اس کے غیر محرم مردوں سے شناسائی کے خدشات کم ہوں گے۔ عورت کے سرپرستوں کو بعض قریبی نامحرم رشتے داروں سے بھی عورت کی بے تکلفی کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے‘ اس لیے کہ یہ بے تکلفی کئی مرتبہ طرفین کو ناجائز تعلقات کی طرف لے جاتی اور کئی مرتبہ فتنے کا سبب بن جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں اس حوالے سے بہت زیادہ لاپروائی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں کئی مرتبہ غیر اخلاقی رویے جنم لیتے ہیں اور کئی مرتبہ بلاجواز افواہوں اور تہمتوں کے دروازے کھلتے ہیں جس کے باعث کئی مرتبہ اچھے خاصے مردوں اور عورتوں کی شہرت اور وقار بھی مجروح ہو جاتا ہے۔
دوسری احتیاطی تدبیر یہ ہے کہ مردوں اور عورتوں کے نکاح میں غیر ضروری تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ ایک عاقل بالغ مرد اور عاقلہ بالغہ عورت کے نکاح کو خواہ مخواہ مؤخر کرتے رہنا کسی بھی طور عقلمندی نہیں۔ ہمارے معاشرے میں شادی بہت مہنگی ہو چکی ہے اور فی زمانہ نکاح اور ولیمے کی تقریبات کے لوازمات پورے کرنا آسان کام نہیں رہا۔ ایک متوسط آمدن والے خاندان سے تعلق رکھنے والے لڑکے اور لڑکی کے لیے شادی کے موقع پر اپنی اور اپنے خاندان کی عزت اور وقار کو بحال رکھنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ بہت سی نوجوان لڑکیا ں جہیز کی عدم دستیابی کی وجہ سے شادی کرنے سے قاصر ہو چکی ہیں۔ تعلیم، حسن سیرت اور حسن صورت کے باوجود جہیز کی لعنت ان کی شادی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔ معاشرے میں نکاح کو آسان بنانا معاشرے کے بااثر افراد کی ذمہ داری ہے۔ جس معاشرے میں نکاح مہنگا اور پیچیدہ بن جائے وہاں پر برائی آسان اور عام ہو جاتی ہے۔ ہمارا معاشرہ ایک مشرقی اور اسلامی معاشرہ ہے اور اس کی اپنی روایات اور اخلاقی اقدار ہیں۔ بہت سے غیرملکی رہنما اور ان کی نمائندہ این جی اوز مغربی روایات اور تہذیب کو معاشرے میں لاگو کرنا چاہتی ہیں۔ ان مغربی روایات میں سے ایک نقصان دہ روایت شادی میں غیرضروری تاخیر ہے۔ اقوام متحدہ کے نمائندہ گورڈن براؤن نے حال ہی میں وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کی۔ گورڈن براؤن نے پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کی مذمت کی ہے۔ ایک طرف اہل مغرب ہمارے معاشرے میں جنسی تعلیم کو متعارف کروانا چاہتے ہیں اور دوسری طرف یہ لوگ ہمارے نوجوان طبقے کو نکاح سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر مغرب کی نصیحتوں اور تدابیر پر عمل کیا گیا تو انجام صاف ظاہر ہے کہ معاشرے میں صنفی بدامنی کو فروغ اور بے راہ روی کو عروج حاصل ہو گا اور ہمارے مغربی بہی خواہوں کی اصل منزل اور مقصود بھی یہی ہے۔
تیسری احتیاطی تدبیر کا تعلق ریا ست کے ساتھ ہے۔ اگر ریاست جنسی جرائم میں ملوث افرادکو قرار واقعی سزا دے تو معاشرہ خود بخود اخلاقی جرائم سے پاک ہو جائے گا۔ معاشرے میں کئی مرتبہ والد اور بھائی اس لیے بھی جذباتی ہو جاتے ہیں کہ وہ جرم و سزا کے نظام سے بدگمان ہو تے ہیں۔ اگر والدین کو اس امر کا یقین ہو جائے کہ ان کی بہن یا بیٹی کی بدچلنی پر قانون حرکت میں آئے گا اور ان کے جذبات کو پہنچنے والی ٹھیس کا ازالہ ہو گا تو بہت سے لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سے باز رہ سکتے ہیں۔
چوتھی اہم بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں سرپرستوں اور والدین کی اجازت کے بغیر نکاح کی حوصلہ افزائی کرنے والے عناصر کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ یہ بات درست ہے کہ لڑکی کی اجازت کے بغیر جبراً اس کو نکاح پر مجبور نہیں کیا جا سکتا‘ لیکن رسول اللہﷺ کے فرامین اور آپؐ کے اور آپؐ کے قریبی رفقا کے طرز عمل سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ قرون اولیٰ کی عورتوںکو ان کے والدین اور سرپرست ہی گھر سے الوداع کیا کرتے تھے۔ جو لڑکی بھاگ کر نکاح کرتی ہے اس کا مستقبل ہمیشہ کے لیے غیرمحفوظ ہو جاتا ہے۔ لڑکی کے لیے اپنے شوہر کی بدسلوکی اور بے وفائی کا نشانہ بننے کے بعد واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا جبکہ اس کے برعکس لڑکی اگر اپنے والدین کی رضامندی کے ساتھ نکاح کرے تو ایسی صورت میں اگر لڑکا اس کے ساتھ بدسلوکی یا بے وفائی والا معاملہ اختیار کرتا ہے تو لڑکی کے لیے اپنے والدین کے گھر آنے کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔ اس مسئلے کو فقہی اختلاف کے تناظر میں نہیں بلکہ لڑکیوں کے مستقبل کی حفاظت کے تناظر میں دیکھنا انتہائی ضروری ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کی بہت بڑی وجہ والدین اور سرپرستوں کی اجازت کے بغیر نکاح ہے۔ اگر لڑکی والدین کی رضامندی سے یا ان کو راضی کرکے نکاح کرے تو معاشرے میں غیرت کے نام پر قتل کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved