تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     03-04-2014

بے وقوف بننے کے لیے تیار قوم

میں ذاتی طور پر اس بات کا قائل ہوں کہ حکومت کا کام ادارے مضبوط کرنا‘امن و امان کی صورتحال بہتر بنانا‘عدل و انصاف فراہم کرنا اور لوگوں کو ان کی بنیادی ضروریات کی بلا تخصیص فراہمی ہے‘ باقی سب چیزیں اسی میں آ جاتی ہیں ۔کاروباری ادارے چلانا بہرحال حکومت کا کام نہیں۔ یہ کام پرائیویٹ سیکٹر پر چھوڑ دینا چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حکومت کے ملکیتی کمرشل بنیادوں پر چلنے والے اداروں کی لوٹ سیل لگا دی جائے اور اپنے پیاروں کو اونے پونے نوازا جائے۔ جب بھی ملک میں نجکاری کا غلغلہ اٹھتا ہے‘ پنجابی کا ایک محاورہ''چوری دے کپڑے تے ڈانگاں دے گز‘‘(کپڑے اگر چوری کے ہوں تو پھر بانس برابر گزوں سے ناپے جاتے ہیں)ذہن میں گونجنے لگتا ہے۔ملک میں جب بھی نجکاری ہوئی اسی پنجابی محاورے کے مطابق ہوئی۔
ایک سیمنٹ فیکٹری کی نجکاری ہوئی۔سٹیٹ سیمنٹ کارپوریشن کے تحت لگائی گئی یہ فیکٹری پاکستان کی سیمنٹ انڈسٹری کی جدید ترین فیکٹری تھی اور سرکاری ملکیت میں چلنے والی سیمنٹ فیکٹریوں میں سب سے زیاد ہ منافع کما رہی تھی۔ اوّل اوّل جب پرائیویٹائزیشن شروع ہوئی تو نعرہ لگایا گیا کہ خسارے میں چلنے والی فیکٹریوں کو بیچا جائے تاکہ ملکی خزانے پر پڑنے والا بوجھ کم کیا جاسکے۔ اشتہارات میں خسارے میں چلنے والے یونٹوں سے بات چلی اور بالآخر منافع کمانے والے یونٹس پر آن ٹھہری۔یہ فیکٹری‘ جو سب سے زیادہ ماڈرن مشینری پر مشتمل اور سب سے زیادہ نفع کمانے والی فیکٹری تھی‘ سب سے پہلے فروخت کی گئی۔ جب یہ فیکٹری فروخت کی گئی تو اس وقت اگر یہی فیکٹری نئی لگائی جاتی تو خریدی گئی رقم سے کئی گنا زیادہ میں لگتی ۔سونے کاانڈہ دینے والی اس مرغی کو فروخت کے فوراً بعد ایک دوسرے صنعت کار نے خرید لیا۔ اس خریدار نے اسی قسم کی ایک سیمنٹ فیکٹری کہیں اور خریدی تھی وہ اس نے فروخت کنندہ کو بیچ دی۔ سادہ لفظوں میں دونوں نے خرید کے بعد فیکٹریاں آپس میں بدل لیں۔خریدنے کے لیے ایک دوسرے کے بینکوں سے گارنٹیاں لی گئیں اور اللہ اللہ خیر صلا۔جب فیکٹریاں خریدی گئیں تب بینک میں ان کا کروڑوں کا کیش اور فیکٹری میں پڑا سٹاک منافع میں چلا گیا۔
ملک عزیز میں بینک بیچے گئے ۔خدا جھوٹ نہ بلوائے تو اربوں روپے کے گھپلے کیے گئے۔شنید ہے کہ ایک بینک تو اپنی کراچی میں ہیڈ آفس والی بلڈنگ کی قیمت میں فروخت کیا گیا۔باقی تمام اثاثے اور کاروبار ''صافی نفع‘‘ٹھہرا۔یہ بینک صرف بائیس ارب میں فروخت کیا گیا جبکہ اس کے کل اثاثوں کی قیمت پانچ سو ستر بلین روپے تھی۔اسی طرح ایک اور بینک تیرہ ارب میں فروخت کیا گیا۔ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف ان بینکوں کی فروخت میں تقریباً سات سو ارب روپے کی لوٹ مار ہوئی۔
ملتان میں ایک فرٹیلائزر فیکٹری کی فروخت بھی ایک پورا سکینڈل تھی۔ساری فیکٹری تیرہ ارب روپے میں فروخت کی گئی۔2006ء میں ایک محتاط اندازے کے مطابق فیکٹری‘اس کی ملحقہ کالونی اور ساتھ موجود صرف زمین کی مارکیٹ ویلیو چالیس ارب روپے تھی۔ بینک میں موجود نقد رقم اور سٹوروں میں موجود کھاد کا سٹاک اس کے علاوہ تھا۔خریداروں نے فیکٹری خریدتے ہی کھاد کی ایجنسیوں کی سکیورٹی بڑھا دی اور ایجنسی ہولڈرز سے کروڑوں روپے اس مد میں وصول کر لیے اور اسی وصول شدہ رقم سے بقیہ ادائیگی کر دی۔کھاد کی بوری کی قیمت تب سترہ سو روپے تھی جو بڑھا کر تین ہزار روپے سے زائد کر دی گئی۔حقیقی معنوں میں خریدار نے ہماری جوتیاں ہمارے سروں پر ماریں۔پلے سے صرف پہلی ادائیگی کی گئی باقی تقریباً ساری رقم انہوں نے فیکٹری سے ہی پیدا کی اور ادا کی۔ یہ صرف ایک فیکٹری کا قصہ ہے‘ پوری پرائیویٹائزیشن اسی قسم کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے‘ جہاں خریدار نے خریدی گئی فیکٹریوں اور اداروں سے پیسے کما کر ادائیگی کی۔ایسے ایسے ادارے کی نجکاری کی گئی جن کی پیداوار بلیک میں فروخت ہوتی تھی۔گاہکوں کی قطاریں لگی ہوتی تھیں اور لوگ ایجنسیاں لینے کے لیے سفارشیں ڈھونڈتے تھے۔اس قسم کے اداروں کی نجکاری کرتے وقت ان کے بینکوں میں موجود کروڑوں روپے بھی نئے خریداروں کو بخش دیے گئے۔نئے خریداروں نے ڈیلر شپ اور ایجنسیاں کینسل کر دیں۔ سرکاری کھاتے کی ہزاروں روپے والی سکیورٹی کو لاکھوں میں تبدیل کر دیا۔پرانے ڈیلروں اور ایجنسی ہولڈروں سے نئی سکیورٹی لی گئی۔ جس نے انکار کیا اس کی ایجنسی اور ڈیلر شپ کینسل کر کے کسی نئے
کو جاری کی اور راتوں رات بیٹھے بٹھائے کروڑوں روپے اکٹھے کر لیے ۔یہی رقم نجکاری والوں کو دے کر اپنا بقایا حساب صاف کیا اور میرے آپ کے پیسوں سے چلتا ہوا سرکاری یونٹ ہتھیا لیا ۔اربوں والی چیز کروڑوں میں اور کروڑوں والی چیز لاکھوں میں فروخت ہوئی۔مال مفت ‘دل بے رحم کی مثال ہمارے ہاں کی نجکاری پر صادق آتی ہے۔
شوکت عزیز اینڈ کمپنی نے ملکی اداروں کے ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی سے بھی بدتر سلوک کیا۔نجکاری ایک ایسا عمل بن کر رہ گیا جس میں حکومت کو فروخت ہونے والے یونٹ سے جتنی رقم وصول ہوئی اس سے کہیں زیادہ رقم مختلف ہتھکنڈوں سے خریدنے والوں کی جیبوں میں گئی۔نجکاری کے سارے عمل میں بنیادی فائدہ ''تھرڈ پارٹی‘‘ کو ہوا۔عربوں کے ذاتی بینکار یعنی Personal Bankerکے معزز عہدے پر فائز شوکت عزیز نے وزیر اعظم بننے کے بعد سوائے سرکار کو فائدہ پہنچانے کے ہر خریدار اور اس عمل میں شریک ہونے والے ہر فرد کو نوازنے کی کوشش کی۔موصوف پاکستان کے وزیر اعظم کے بجائے ان عالمی اداروں کے نمائندے لگتے تھے جو عرصہ دراز سے پاکستان کو نجکاری کے مشورے بلکہ احکامات دے رہے تھے۔
حکمران نجکاری کی بات شروع کرتے ہیں تو ان کا موقف یہ ہوتا ہے کہ ادارے چلانا حکومت کا کام نہیں ہے ۔یہ بات درست ہے اور میں ذاتی طور پر اس موقف کا حامی ہوں کہ حکومت کا کام کاروباری ادارے چلانا نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر حکومت کا کام کاروباری ادارے چلانا نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ کہاں نکلتا ہے کہ حکومت کا کام حکومتی ادارے چلانا بھی نہیں ہے؟ہر ادارہ انحطاط بلکہ بربادی کا شکار ہے۔تعلیم‘ صحت‘تعمیر و ترقی ‘عوامی بہبود‘ انصاف‘ تحفظ‘ اور شہری حقوق سے متعلق تمام ادارے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو چکے ہیں۔کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ دو لوگ مل جاتے ہیں اور متوازی حکومت بنا کر محصولات اپنی جیب میں ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔ کسی کو کچھ خبر نہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔
نجکاری میں کوڑیوں کے مول خریدی گئی پاک عرب فرٹیلائزر‘ جو بنیادی طور پر اپنی خالی زمین سے بھی کم قیمت پر خریدی گئی تھی‘ کے نئے مالکان‘ جو ہر دور میں ہر حکمران کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بڑا شاندار ریکارڈ رکھتے ہیں‘ اس کھاد فیکٹری کی پیداوار پر ٹیکس کی ادائیگی کی مد میں سرکار کو اربوں روپے کا چونا علیحدہ سے لگا چکے ہیں۔کھاد پر حکومت کی طرف سے ٹیکس میں رعایت کا ایس آر او جاری ہوا اور اس حساب سے ٹیکس وصولی شروع ہو گئی۔ ایک خاص مدت کے بعد وہ ایس آر او ختم ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی ٹیکس میں رعایت بھی ختم ہو گئی مگر انتظامیہ وہی رعایتی ٹیکس ادا کرتی رہی۔ظاہر ہے‘ اس کام میں ٹیکس کا عملہ ان کے ساتھ شریک تھا۔کئی ماہ بعد پتہ چلنے پر کیس بن گیا۔ اربوں روپے ڈکار لیے گئے تھے۔متعلقہ افسر کو شوکاز نوٹس جاری ہو گیا۔شنید ہے مذکورہ رقم کی قسطیں طے ہو گئی ہیں۔ کسی ملزم کو سزا نہیں ہوئی۔ چوری کی گئی ٹیکس کی رقم پر‘ جو کئی سال سے ادا نہیں ہوئی‘ نہ کوئی جرمانہ ہوا اور نہ ہی اس پر لاگو بینک چارجز وصول کئے گئے۔کسی دن خاموشی سے مک مکا ہو جائے گا اور بقول چودھری شجاعت مٹی ڈال دی جائے گی۔پھر نجکاری کا غلغلہ ہے۔ یہ حکومت بھی ہر حکومت کی طرح حساب کتاب کے عجیب و غریب گورکھ دھندے کی آڑ میں نام نہاد نقصان بخش یونٹ اور ادارے فروخت کرنے جا رہی ہے۔نفع نقصان اور حساب کتاب ایک نہ سمجھ میں آنے والا گورکھ دھندہ ہے‘ جسے سمجھدار لوگ اپنی مرضی کے مطابق بیان کرتے ہیں اور ہم جیسے عام لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں۔بڑی بڑی تنخواہوں پر لائے گئے کنسلٹنٹ اس بات کی تنخواہ لیتے ہیں کہ عوام کو بے وقوف کیسے بنانا ہے۔حکمرانوں کو سب سے بڑی سہولت یہ میسر ہے کہ ہم لوگ بے وقوف بننے کے لیے پہلے سے ہی تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved